بلوچی فلمی صنعت کی تاریخ دوسرا اور آخری حصہ
1993ء میں یوسف جان نے مکمل کہانی پر مبنی فلم ’’ تماشا‘‘ کا آغاز کیا
1993ء میں یوسف جان نے مکمل کہانی پر مبنی فلم '' تماشا'' کا آغاز کیا، اس کے اداکاروں میں یوسف جان، دانش بلوچ، قادر حسنی، ساغر صدیق، امجد رحیم، فربیہ ٹھاکر، وقار بلوچ ، محمد حسین مداری، زبیر سنی اور دیگر اداکار شامل تھے۔
یہ پہلی بلوچی ویڈیوکیسٹ فلم تھی جس میں خواتین کردار بھی شامل کیے گئے تھے اور ان سے سندھی یا اردو زبان میں مکالمے بلوائے گئے تھے تاکہ ان کرداروں پر کوئی اعتراض نہ ہو، کیونکہ پہلی بلوچی سینما فلم ھمل ما گنج میں خواتین کرداروں پر اعتراض کیا گیا تھا جس بناء پر اس فلم کو ریلیز نہیں ہونے دیا گیا تھا اس بنا ء پر بلوچی ویڈیوکیسٹ فلموں میں خواتین کردار شامل نہیں کیے جاتے تھے۔
اس طرح اس فلم تماشا کو یہ کریڈٹ ملتا ہے کہ یہ پہلی بلوچی ویڈیو کیسٹ فلم تھی جس میں خواتین کردار بھی شامل کیے گئے تھے۔ تماشا 1995ء میں مکمل ہوکر ریلیز کی گئی ۔1994ء میں دانش بلوچ کی ہدایت میں تاریخ ساز بلوچی ویڈیو کیسٹ فلم دبئی کسی نبئی فلم کا آغاز ہوا جو مکمل ہوکر 1995ء میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم کے اداکاروں میں دانش بلوچ، وقار بلوچ، ساغر صدیق، شکیل مراد، صمد شیخ، رشید خمار، سلیم بوس، ابو الحسن، وحید بلوچ کے علاوہ دیگر اداکار شامل تھے۔
اس فلم کو بے حد پسند کیا گیا اور اسے بے پناہ شہرت حاصل ہوئی، یہ ایک مربوط اور دل کو چھو لینے والی اور بلوچ معاشرے کے اردگرد معاشی مسائل کو حقیقی طور پر اجاگر کرنے والی بہت ہی شاندار کہانی تھی جس میں تمام اداکاروں نے شاندار اداکاری کا مظاہرہ کر کے اس میں مزید جان ڈال دی۔ آج بھی عرصہ دراز کے بعد بھی اگر یہ فلم دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ آج کی کہانی ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ اس کے بعد ایسی کہانی، اداکاری پر نہ کوئی بلوچی ویڈیو کیسٹ فلم بنی ہے اور نہ ہی ایسی شاندار فلم بن سکتی ہے۔ ان دنوں راقم الحروف ایک موقر روزنامہ سے بطور صحافی وکالم نگار وابستہ تھا، پہلی مرتبہ اس فلم دبئی کسی نبئی کے پورے کاسٹ کا اخباری انٹرویو کیا اور اس فلم کی ریلیز ہونے سے پہلے اس کی ویڈیو کیسٹ ماسٹر کاپی مجھے دیکھنے کا اعزاز حاصل ہوا اور پہلی مرتبہ اس فلم کی ریلیز سے قبل امن اخبار میں اس فلم کی کہانی اور اداکاروں، موسیقی اور دیگر شعبوں پر مبنی بیلاگ تبصرہ کیا جس سے اس کی مقبولیت میں ریلیز سے قبل اضافہ ہوچکا تھا۔
یہ پہلی بلوچی ویڈیو کیسٹ فلم تھی جسے اس وقت کی نامور فلم ڈسٹی بیوٹر ٹائمز ویڈیوز بمقام رینبو سینٹرکراچی نے ریلیز کیا تھا، جس سے اسے بہت مالی فائدہ پہنچا تھا جس کا ریکارڈ آج بھی برقرار ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس فلم دبئی کسی نبئی کو از سر نو جدید انداز سے فلمانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔
1996ء میں ولی رئیس کی ہدایت میں کراچی مارا نساچی، ریلیز ہوئی جس کے اداکاروں میں ولی رئیس، نعیم نثار،شکور بلوچ ،غفار جان ، لیاقت بھٹو، حسین بلوچ اور دیگر اداکار شامل تھے۔ اسی سال دانش بلوچ کی ہدایت میں ایک اسٹیج ڈرامے کو ویڈیوکی شکل میں پکچرائزکر کے '' ڈاکٹر ریمبو'' کے نام سے ریلیزکیا گیا تھا جس کے اداکاروں میں دانش بلوچ، وقار بلوچ ، سلیم بوس، سعید بلوچ، صدیق راہی، ستار رئیس، صمد شیخ اور اداکار شامل تھے۔
اسی سال ہی محمد حسین مداری کی ہدایت میں بلوچی ویڈیو کیسٹ فلم خر دماغ ریلیز کی گئی جس کے اداکاروں میں محمود شاہ ،ولی رئیس ، یوسف جان اور دیگر اداکار شامل تھے ۔1998ء میں دانش بلوچ کی ہدایت میں چومکاں شر نئیں ، ریلیز کی گئی جس کے اداکاروں میں دانش بلوچ ،وقار بلوچ ، سلیم بوس، ساغر صدیق، لعل بخش ، نور بلوچ، صدیق راہی، صمد شیخ ، منظور بلوچ اور دیگر اداکار شامل تھے۔
1998ء میں ینگ فرینڈز تھیٹرگروپ کی جانب سے بلوچی خاکوں اورگانوں پر مبنی ویڈیوکیسٹ پروگرام ، وش کند ، ریلیز کی گئی جس کے پروڈیوسر منور آزاد اور ہدایت کار اختر دانش تھے۔ اس کے نمایاں اداکاروں میں شکیل مراد ، اختر دانش، عتیق الرحمان، شاہد ، غلام سرور، الطاف سوری اور دیگر اداکاروں نے اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔
1999ء میں محمد حسین مداری کی ہدایت میں بلوچی ویڈیو فلم ، واجہ غلام ریلیز کی گئی ،جس کے مرکزی کرداروں میں دانش بلوچ ، رشید خمار، غلام قادر، محمد حسین مداری، محمد شیخ ، در محمد افریقی ، زبیر ٹھا کر اور دوسرے اداکار شامل تھے۔ اسی سال دانش بلوچ کی ہدایت میں بلوچی ویڈیو فلم گاریں گزک ، ریلیز کی گئی۔ اس فلم کو یہ کریڈٹ حاصل ہے کہ اس کی کہانی پہلی بار کسی شاعر اور بلوچی ادیب اور لکھاری غنی نقش سے لکھوائی گئی۔
خالص بلوچی زبان کے ڈائیلاگ اداکاروں کے لیے بہت مشکل ثابت ہوئے تھے مگر کا فی محنت کے بعد بالآخر یہ فلم ریلیز ہوئی تو اسے خالص بلوچی زبان کی وجہ سے نہ صرف کراچی بلکہ اندرون بلوچستان بھی پسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا۔ اس کا مرکزی کردار دانش بلوچ نے ادا کیا تھا۔ اس فلم میں جن اداکاروں نے اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے ان میں وقار بلوچ ، سلیم بوس، حکیم بلوچ ، کامران سایانی، نور بلوچ، ساغر صدیق، فراد علی، شکیل جان ، لعل بخش اور دیگر اداکار شامل تھے۔
1999ء ہی میں صمد شیخ کی ہدایت میں فلم شیدک ء ہوٹل، ریلیز کی گئی اس کی کہانی بھی ایک بلوچ کالم نویس اور لکھاری اور پہلی بلوچی سینما فلم ھمل و ماگنج کے موسیقار فتح محمد نسکندی سے لکھوائی گئی۔ یہ فلم بھی خالص بلوچی زبان میں تھی اس کا مرکزی کردار دانش بلوچ نے ادا کیا تھا، دوسرے اداکاروں میں وقار بلوچ ، سلیم بوس، ساغر صدیق ، ستار رئیس،کامران سایانی، شکیل جان، شکیل مراد کے علاو ہ اور بہت سے دوسرے اداکار شامل تھے۔
2000ء میں ولی رئیس کی ہدایت میں بلوچی ویڈیو فلم 'کس کسی نبئی' ریلیز کی گئی، جس کے اداکاروں میں ولی رئیس ، رشید خمار، صمد شیخ ، زبیر ٹھا کر، مولا بخش بنڈو، حسین ہیرو، مہمان اداکار کے طور پر دانش بلوچ اور وقار شامل تھے۔ اسی سال دانش بلوچ کی ہدایت میں بلوچی ویڈیو فلم، آستے آستے شر بیئے، ریلیزکی گئی، جس کے اداکاروں میںدانش بلوچ ، وقار بلوچ ، لعل بخش ، ستار لاسی، غفار جان ، نور بلوچ ، ہارون چانیاء اور خالد شیخ کے علاوہ بہت سے دوسرے اداکار بھی شامل تھے۔
اس فلم کو ایک کریڈٹ یہ بھی حاصل ہے کہ اس فلم میں بھی خواتین اداکاروں کو شامل کیا گیا جو اردو زبان میں ڈائیلاگ بولتی رہیں اور سب سے دلچسپ بات یہ کہ ان خواتین میں پاکستان فلم انڈسٹری کی ایک نامی گرامی اور شہرت یافتہ اداکارہ تمنا بیگم نے بھی اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ اسی وجہ سے اس فلم کو بہت زیادہ شہرت ملی۔ یہ تھا 1985ء سے 2000ء تک کی بنائی گئی بلوچی ویڈیوز فلموں کا ایک مختصر جائزہ۔
آخر میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بلوچی فلمز ایوارڈ سب سے پہلے ڈاکٹر رمضان بامری بلوچ نے نوبل اکیڈمی بلوچی فلمز ایوارڈ ز کے نام سے 2002ء میں دانش بلوچ کے ہمراہی میں جاری کیا تھا جس کی پہلی تقریب ایوارڈز نبیل گبول ہال نوالین لیاری کراچی میں منعقد کیا گیا تھا۔