پاکستان کی آبادی کا نصف سے زیادہ حصہ زراعت پیشہ ہے۔ زراعت کو معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت دی جاتی ہے لیکن زراعت پیشہ طبقہ یعنی کسانوں کے مسائل کو ہمیشہ ہر دور میں نظر انداز کیا جاتا رہا، یہی وجہ ہے کہ دیہی آبادیوں میں غربت کا گراف مسلسل بلند ہورہا ہے۔
پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے ایک کے بعد ایک پلان اور نسخے آزمائے جارہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ صرف زراعت کا شعبہ ہی پاکستان کی معاشی ترقی اور استحکام کا راستہ جس کا دروازہ کسان کی خوشحالی سے ہوکر گزرتا ہے۔
پاکستان کے زرعی شعبہ میں تحقیق کے رجحان کی کمی اور فرسودہ طریقوں پر کاشت کیے جانے کے ساتھ پیداوار کو محفوظ رکھنے اور اس کی ترسیل کےلیے جدید سہولتوں کے فقدان سے بھی پیداوار کا بڑا حصہ بازاروں تک پہنچنے سے قبل ہی ضایع ہوجاتا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کے شدید اثرات نے زرعی شعبہ کی مشکلات میں مزید اضافہ کیا ہے۔ موسم سرما کا دورانیہ بڑھنے، بارشوں کے پیٹرن میں تبدیلی اور اس کے فوری بعد گرمی کی شدید لہرنے زرعی شعبہ کے چیلنجز میں اضافہ کردیا۔ بڑی نقد آور فصلوں کے ساتھ پھلوں کی پیداوار کے شعبہ ہارٹی کلچر سیکٹر کو بھی ان ہی مسائل کا سامنا ہے اور اگر کہا جائے کہ موسمیاتی اثرات کا زیادہ نقصان ہارٹی کلچر کو پہنچ رہا ہے تو غلط نہ ہوگا۔
ایک تخمینہ کے مطابق پھلوں کی پیداوار کا 40 فیصد حصہ پوسٹ ہارویسٹ سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے ضایع ہوجاتا ہے جس کی مالیت اربوں روپے بنتی ہے۔ نقصان کا یہ تناسب کسانوں کے منافع سے کئی گنا زائد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موسمیاتی اثرات کا مقابلہ کرتے ہوئے فصلیں بالخصوص پھلوں کی کاشت کرنے والے کسانوں کے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے اور وہ قرضوں کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان میں غذائی افراط زر کی صورتحال تیزی سے بگڑ رہی ہے۔ مقامی سطح پر غذائی اشیاء کی قلت کی وجہ سے بڑی طلب درآمدات کے ذریعے پوری کی جارہی ہے جس پر کثیر زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے، جبکہ طلب کے مقابلے میں رسد کم ہونے کی وجہ سے افراط زر یعنی منہ زور مہنگائی کا سامنا ہے۔
مختلف حکومتیں کسانوں کی فلاح وبہبود کے دعوے تو کرتی ہیں لیکن حکومتی پالیسیاں براہ راست یا بالواسطہ طور پر کسانوں کےلیے نت نئی مشکلات کھڑی کرتی ہیں۔ گزشتہ سال بجٹ میں پاکستان میں تیار کردہ جوسز پر 20 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کا نفاذ بھی ایسا ہی ایک اقدام ہے جس کے پاکستان میں پھلوں کے فارمرز پر براہ راست منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
حکومت نے 2023-24 کے بجٹ میں کاربونیٹڈ مشروبات کے ساتھ سو فیصد خالص جوسز، نیکٹر اور جوس ڈرنکس پر 20 فیصد کی یکساں فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کردی۔ اگرچہ اس اقدام کا مقصد ٹیکس ریونیو بڑھانا تھا لیکن اس فیصلے کے نتیجے میں جوسز سے حاصل ہونے والے ٹیکسوں میں اضافہ نہ ہوسکا کیونکہ یکدم 20 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی وجہ سے مقامی جوسز کی فروخت میں 40 فیصد تک کمی آچکی ہے۔ جوسز کی فروخت میں کمی درحقیقت پاکستان کے کسانوں کا نقصان ہے۔ جتنی فروخت کم ہوگی جوس کمپنیاں پھلوں کی خریداری بھی اتنی ہی کم کریں گی۔
پھل جلد تلف ہونے والی کموڈیٹی ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ نگہداشت طلب ہے۔ اس لیے بروقت فروخت نہ ہونے کی صورت میں کسانوں کو بھاری نقصان کا سامنا ہوتا ہے۔ جوس اور ویلیو ایڈڈ انڈسٹری اعلیٰ معیار کے پھل اچھے داموں پر خریدتی ہے، جسے ہارویسٹنگ، اسٹوریج، پروسیسنگ پیکیجنگ اور ٹرانسپورٹیشن کی جدید سہولتوں کے ذریعے انجام دیا جاتا ہے اور جدید طریقوں کی وجہ سے پھل ضایع ہونے کا تناسب بھی کم ہوتا ہے۔
جوسز پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے نفاذ سے پھلوں کی صنعتی استعمال کےلیے خریداری میں نمایاں کمی واقع ہوئی، جس کے نتیجے میں کسانوں کو پھل سستے داموں فروخت کرنا پڑتے ہیں۔ کسانوں کے پاس اسٹوریج اور ٹرانسپورٹیشن کی جدید سہولت نہ ہونے کی وجہ سے پیداوار کا بڑا حصہ ضایع ہوجاتا ہے اور نقصان کا بوجھ کسانوں کے ساتھ صارفین کو بھی اٹھانا پڑتا ہے۔
پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی وجہ سے گرمی کی شدید لہر کا سامنا ہے۔ جوسز غذائیت کی سب سے موثر شکل ہے جو فوری توانائی پہنچاتے ہیں۔ پاکستان میں گرمی کے ساتھ غذائی قلت کی صورتحال کو مدنظر رکھا جائے تو جوسز کا عوام کی قوت خرید میں ہونا ضروری ہے لیکن فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے نفاذ سے جوسز عوام کی پہنچ سے دور چلے گئے۔ دوسری جانب جوسز کی مقامی صنعت جو ایک لاکھ سے زائد افراد کو براہ راست روزگار فراہم کرتی ہے، دباؤ کا شکار ہے۔ کمپنیوں میں توسیع کا عمل رک چکا ہے جبکہ بعض کمپنیوں نے مجبوراً اپنے ملازمین کو بھی برطرف کیا جس سے بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے۔
جوسز پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے نفاذ سے جوسز کی غیر قانونی پیداوار میں اضافہ ہوا، غیر معیاری اور مضر صحت جوسز کے برانڈز گلی گلی تیار کیے جارہے ہیں جو ٹیکس ادا نہ کرنے اور پست معیار کی وجہ سے سستے ہونے کی وجہ سے عوام کی قوت خرید میں ہیں۔ اس طرح فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے نفاذ سے ٹیکس کی بنیاد مستحکم بنانے کے بجائے غیر دستاویزی معیشت کو فروغ مل رہا ہے اور بھاری مالیت کے ٹیکسز ادا کرنے والی قانونی صنعت کی بقا خطرے میں پڑ گئی ہے۔
جوسز پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کا نفاذ قانونی صنعت، صارفین اور کسانوں کے ساتھ خود حکومت کےلیے بھی خسارے کا سودا ہے کیونکہ قانونی صنعت کی فروخت کم ہونے اور معیاری برانڈز مہنگے ہونے سے غیرقانونی صنعت پھل پھول رہی ہے جس سے حکومت کو ٹیکسوں کی مد میں کچھ نہیں مل رہا بلکہ قانونی صنعت کی فروخت کم ہونے سے الٹا ٹیکس خسارے کا سامنا ہے۔
پاکستان کو معاشی استحکام کےلیے ٹیکس کی اساس مستحکم بنیادوں پر استوار کرنا ہوگی۔ اس کےلیے ضروری ہے کہ ٹیکسوں میں جبر کے بجائے ترقی پسند سوچ اختیار کی جائے۔ پروگریسیو ٹیکسیشن کی پالیسی اختیار کرکے بہت سے ہم عصر ملکوں نے ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب میں نمایاں اضافہ کیا ہے، جس کا سادہ مطلب ٹیکسوں کی شرح کم رکھتے ہوئے مقامی صنعتوں کو فروغ دینا اور زیادہ حجم کی بنیاد پر ٹیکس وصولیوں میں پائیدار بنیادوں پر اضافہ کرنا ہے۔ پاکستان میں غذائی قلت کی صورتحال اور زرعی شعبے پر موسمیاتی اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ پھلوں سے حاصل ہونے والے قدرتی غذائی اجزا کے ساتھ ترجیحی ٹیکس سلوک اختیار کیا جائے تاکہ ایک جانب کسانوں کی فلاح و بہبود کو یقینی بنایا جاسکے تو دوسری جانب مقامی صنعت کو مضبوط بناکر معاشی سرگرمیوں کو تیز کیا جاسکے۔
مقامی صنعت کی بحالی کےلیے ضروری ہے کہ آئندہ بجٹ میں جوسز پر عائد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کا خاتمہ کیا جائے تاکہ کسانوں سے لے کر صارفین تک کے مسائل کا خاتمہ ہوسکے اور تیزی سے فروغ پانے والی غیرقانونی صنعت کو محدود کرکے حکومتی محصولات میں اضافہ کیا جاسکے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔