صحرا کی پیاس
چاند اور صحرا کے طلسم کو دیکھتا رہا اور اسی شام جب سورج غروب ہورہا تھا
ریت پر اس کے ہاتھ پھیلے ہوئے تھے۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے کوئی ریت کے ٹھنڈے ہونے کا لطف لینے کو لیٹا ہوا ہے مگر اس کی منجمد آنکھیں اور پھیلے ہوئے ہاتھ میں خالی بوتل، صحرا کے ظلم کی داستان سنا رہی تھی وہ مرچکا تھا۔ تھر کا ایک کم عمر معصوم چرواہا جس کے جسم کو سورج کی ظالم کرنوں نے سیاہ کردیا تھا۔ صحرا کے سراب نے ایک اور زندگی نگل لی۔ پیاس نے ایک اور شکار کرلیا اور اس ایک زندگی پر ہی کیا نہ جانے یہ صحرا کیا کیا نگل گیا ہے۔
ایک رات اور وہ بھی چودھویںکی رات تھی، فاروق لغاری صدر پاکستان تھے۔ تھر میں بلیک گولڈ (Black Gold) کوئلہ دریافت ہوچکا تھا۔ صبح صدر پاکستان اس کوئلے کا معائنہ کرنے اور کان کا افتتاح کرنے اسلام کورٹ کے قریب آنے والے تھے، میں ریڈیو کی کوریج کے لیے ننگر پارکر جارہا تھا تاکہ وہاں عوامی اجتماع سے صدر کا خطاب ریکارڈ کرسکوں۔ اس رات تھر سیال چاندی کا بنا ہوا تھا، چاند کی کرنوں نے پورے تھر کو چاندی میں تبدیل کر رکھا تھا، میں ننگر پارکر جاکر بھی ساری رات سو نہ سکا۔
چاند اور صحرا کے طلسم کو دیکھتا رہا اور اسی شام جب سورج غروب ہورہا تھا اور میں ماروی کے ملیر سے مٹھی کی جانب آرہا تھا تو ڈوبتے سورج نے صحرا کو Gold Desert سونے کا صحرا بنا رکھا تھا۔ ڈاکٹر کولاچی نے مجھ سے پوچھا تھا جعفری! کیا دیکھ رہے ہو... میں نے کہا کل رات یہ صحرا چاندی کا تھا اور آج اس وقت یہ سونے کا ہے۔ کولاچی صاحب ہنس پڑے۔ تم بالکل تھری لگتے ہو۔ کہاں سے آئے تھے پاکستان میں؟ تو میں نے کہا اجمیر سے۔ تو ایک دم ان کی ہنسی رک گئی کہنے لگے تم ادھر سے راجستھانی اور یہاں سے تھری ہو۔ صحرا تمہاری فطرت میں ہے۔ ہاں شاید ایسا ہی ہے۔
صحرا میں چلنے والے بگولے شاید میری ذات سے کوئی تعلق رکھتے ہیں ایک اور تھری رخصت ہوگیا، بکریاں چرانے گھر سے نکلا تھا، اس کو ''ھن کھن''(ھنڑکھنڑ) کا بھی خوف نہیں تھا۔ کلہاڑی، اجرک، ٹوپی ساتھ تھی مگر پیاس کا اژدھا اسے نگل گیا۔ ہن کھن کی کہانی میں نے رات ننگر پارکر میں سنی تھی جب چارپائی پر میرے سرہانے منتظمین کی جانب سے پیاز رکھی جارہی تھی تو میرے استفسار پر لوگوں نے بتایاکہ یہاں ایک سانپ ہوتا ہے جو چارپائی پر بھی چڑھ جاتاہے اور سونے والے کے سینے پر بیٹھ کر اس کے کھلے منہ میں زہر ڈال دیتاہے اور تیزی سے اتر کر غائب ہوجاتاہے۔
وہ آدمی جب کھنگھارتا ہے تو حلق میں زہر سے چھالا بن جاتا ہے اور کھانسنے سے چھالا پھوٹ کر زہر جسم میں داخل ہوجاتا ہے، پھر اس شخص کے بچنے کی صرف ایک صورت ہے کہ اگر وہ سمجھ لے کہ کیا ہوا ہے تو کھانسے نہیں اور اسے ایک اندھیرے کمرے میں الٹا لٹکا دیا جاتا ہے اور گائوں کا ایک ماہر اس طرح اس کے منہ میں ہاتھ ڈال کر وہ چھالا توڑتا ہے کہ زہر سارا باہر گرتا ہے، کئی گھنٹے اسی حالت میں اور اندھیرے کمرے میں رکھنے کے بعد اس شخص کو اصلی گھی پلایا جاتاہے کیوں کہ محض اس عمل میں بھی وہ بہت کمزور ہوچکا ہوتاہے، سندھی میں ھن کا مطلب ہے لگانا، مارنا اور کھن کا مطلب ہے لے جانا۔ اس کا نام ھن کھن اس لیے ہے کہ یہ جس کے ساتھ ایسا کرتا ہے وہ عموماً کم ہی سمجھ پاتا ہے اور یوں وہ انسان کو موت کی وادی میں لے جاتا ہے۔ ایک کہانی میں نے اس رات سنی۔
سندھ میں ٹوپی، اجرک اور کلہاڑی گائوں دیہات میں لوگ پاس رکھتے ہیں۔ اس کا کچھ مقصد ہوتاہے، ٹوپی گرم شعاعوں سے بچاتی ہے اجرک اوڑھنے، آرام کرنے کے استعمال میں سفر کے دوران کام آتی ہے اور کلہاڑی راستے کی دشواریوں کا حل ہے۔ کوئی جھاڑی راستہ نہ دے، سانپ، بچھو نکل آئے تو یہ کلہاڑی بچائو کرتی ہے۔ عموماً صحرا میں سفر کرنے والے جب تھک جاتے ہیں تو اونچی جھاڑی کے نیچے کی ریت ہٹاتے ہیں تو وہاں ٹھنڈی ریت نکل آتی ہے جہاں وہ سستاتے ہیں، اجرک بچھاکر یا اوڑھ کر لیٹ جاتے ہیں، ان ہی جھاڑیوں میں 'ھن کھن' کا بھی بسیرا ہوتا ہے اور مڈ بھیڑ ہوتی رہتی ہے اور کلہاڑی یہاں کام آتی ہے، ایک لڑکا دوسرے گائوں جاتے ہوئے ایک ایسی ہی جھاڑی کی ریت ہٹاکر جگہ بنا رہا تھا کہ اچانک اس کی انگلی پر 'ھن کھن' نے ڈنک مارا، لڑکا خالص دیہاتی تھا اس نے فوراً کلہاڑی سے اپنی انگلی قطع کی۔
اجرک سے پٹی پھاڑ کر زخم سے خون روکا ھن کھن کو ہلاک کیا اور سفر پر روانہ ہوگیا۔ وہاں جاکر جب سارا احوال سنایا تو لوگوں نے جان بچنے پر مبارکباد دی۔ کیا ہوا اگر ایک انگلی دے کر جان بچالی۔ دوسرے دن وہ لڑکا اسی راستے سے واپسی کا سفر کر رہا تھا اسی جگہ اسے اپنی کل کی انگلی نظر آئی، جھاڑی میں جو زہر سے پھول گئی تھی، لڑکے نے ایک تنکا لیا اور اس مردہ انگلی میں گھونپا، اچانک ایک پچکاری نکلی اور اس کی آنکھ میں وہ مواد چلا گیا۔ اس لڑکے نے وہیں تڑپ تڑپ کر جان دیدی۔ موت اس کی وہاں ہی لکھی تھی مگر کل نہیں آج۔ غریب کی موت کو کون پوچھتا ہے۔ یہ چرواہا پیاس کے ہاتھوں ہلاک ہوگیا۔ اس پیاس کا علاج نہ ہوسکا۔
تھر پیاسا ہی ہے۔ کاش کوئی بے نظیر نہر یہاں بھی بن جاتی تو تھریوں کی زندگی میں بہار آجاتی مانگے تانگے پر ان کو چھوڑنا کہاں کا انصاف ہے؟ غریب سے مذاق کب تک ہوتا رہے گا۔ چرواہا یا بھٹ شاہ کا غربت کا مارا بچہ ہیرو 20 روپے جیتنے کی خاطر بجلی کے ہائی ٹینشن پول پر چڑھ گیا اور کرنٹ لگنے سے 22 فٹ کی بلندی سے گرکر زخمی ہوگیا بازو اور پیٹ جھلس گئے۔ ہم 20 روپے کسی کو اس کھیل کے بغیر نہیں دے سکتے۔ جانتے بھی ہیں کہ ہائی ٹینشن لائن بھی ایک سراب ہی ہے جو زندگی لے لیتا ہے۔ صحرا ہو یا پول، یہ ہمیشہ ان کو آزماتے ہیں جو بہت مانے ہوئے ہوتے ہیں۔ رات دن ان سے واسطہ رکھتے ہیں۔
تفتان میں بے گناہ شہید کردیے گئے، حکومت کہتی ہے کہ اندازہ یہ ہے کہ حکومت کو ایران جانے کا یہ راستہ ترک کر دینا چاہیے۔ افسوس، کتنی مجبور حکومت ہے، کراچی ایئرپورٹ کولڈ اسٹوریج میں 7 زندہ انسان باہر نکالے جانے کی فریادوں کے ساتھ زندہ جل گئے۔ کوئی پرسان حال نہیں ہے، کھلی آنکھوں سے ظلم دیکھ رہے ہیں، بیوروکریسی ہر چیز کو چھپاکر صاف منظر حکمرانوں کو دکھارہی ہے سب اچھا ہے ایک ہفتے میں 300 مور مر گئے۔
مور ایک خوب صورت ترین پرندہ، جو خدا نے ہمیں تھر میں عطا کیا ہے ہم اسے نہیں بچاسکتے۔ ہم لوگوں کو نہیں بچاسکتے، ہم اپنی نہروں کے آخری سرے تک پانی نہیں پہنچا سکتے۔ ''پونچھڑی'' سندھی میں آخری حصے کو کہتے ہیں۔ وہاں کے کاشتکار رات دن پانی کو روتے ہیں کیوں کہ پانی زمینداروں کے پاس سے ہوکر گزرتا ہے۔ زمیندار یہ کیسے گوارا کرسکتا ہے کہ یہ پانی کسی اور کو بھی ملے اور اس کی فصل اچھی ہو۔ یہ بھی ہوس اور ظلم کا ایک انداز ہے۔ پھر بھلا یہ صحرا تک پانی کہاں جانے دیںگے۔ میرے دل میں آنسوئوں کا ایک سمندر ہے جو بندوں کو توڑ کر باہر جانا چاہتا ہے شاید اس سے صحرا کی پیاس بجھ جائے۔ شاید پھر کبھی کوئی چرواہا پیاسا نہ مرے۔ شاید!