تعلیمی ایمرجنسی سے جڑے چند بڑے چیلنجز

آئین پاکستان کی شق 25-A حکومتوں کو پانچ سے سولہ برس کے بچوں وبچیوں کو مفت ولازمی تعلیم دینے کا پابند بناتی ہے


سلمان عابد May 19, 2024
[email protected]

ہمارے ملک میں تعلیم ایک بنیادی مسئلہ اور چیلنج ہے۔ ہم بطور ریاست، حکومت، معاشرہ اچھی اور جدید یت پر مبنی تعلیم سے محروم ہیں۔

تعلیم پر فکری مباحثہ یا بحثیں اور بڑے بڑے سیاسی دعوے بھی موجود ہیں لیکن عملی بنیادوں پر ہم وہ نہیں کرسکے جو ہمیں کرنا چاہیے تھا ۔بنیادی وجہ ریاستی ترجیحات کا ہے ۔کیونکہ جب ہماری ترجیحات تعلیم سے جڑی نہ ہو تو پھر اس نظام کی اصلاح کیسے ممکن ہوسکے گی۔

18ویں ترمیم کے تحت پرائمری یا بنیادی تعلیم صوبوں کے سپرد ہے ، صوبوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ بنیادی تعلیمی اداروں کا انفرااسٹرکچر تعمیر کریں، اسکول میں تعلیم فری کریں،پرائمری اساتذہ کو اچھی تنخواہیں دیں۔ آئین پاکستان کی شق 25-A حکومتوں کو پانچ سے سولہ برس کے بچوں وبچیوں کو مفت ولازمی تعلیم دینے کا پابند بناتی ہے ۔ ایسا نہ کرکے حکومتیں آئین پاکستان سے بھی انحراف کررہی ہیں جو ایک سنگین مسئلہ یا مجرمانہ غفلت کی نشاندہی کرتا ہے ۔

2013میں بطور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی جانب سے صوبہ پنجاب میں اور پرویز خٹک نے بطور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ میں تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کیا تھا ۔ لیکن اس تعلیمی ایمرجنسی کا کیا بنا ؟ کیا دونوں وزرائے اعلیٰ یا صوبائی حکومتوں کو جواب نہیں دینا چاہیے ؟ ہمارے اعلانات اور دعوے صرف پوائنٹ اسکورنگ کے لیے کیے جاتے ہیں۔ہم راتوں رات انقلاب لانا چاہتے ہیں اور وہ انقلاب بھی زمینی حقایق کو نظر انداز کرکے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ حکومت کسی کی بھی ہو ترجیحات میں تعلیم کا میدان بہت پیچھے نظر آتا ہے ۔

سوال یہ ہے کہ جو اعلان اب شہباز شریف نے بطور وزیراعظم ایک بار پھر '' تعلیمی ایمرجنسی '' کا کیا ہے، ہمیں سب سے پہلے اس نقطہ کو سمجھنا ہوگا کہ '' تعلیمی ایمرجنسی '' سے کیا مراد ہوتی ہے اور وہ کیونکر لگائی جاتی ہے یا کن حالات میں لگائی جاتی ہے ۔ تعلیمی ایمرجنسی کی صورت میں عملی اقدامات کیا ہونے چاہیے ۔ جب تعلیم میں ہمیں سنگین اور خوفناک صورتحال درپیش ہوتو ایسی صورت میں ہمیں ان معاملات پر جنگی بنیادوں پر یا غیر معمولی اقدامات کی بنیاد پر عملی اقدامات درکار ہوتے ہیں۔

یہ صورتحال چند برسوں پر محیط نہیں بلکہ طویل حکمرانی کے نظام میں موجود خرابیوں اور کمزور ترجیحات سے جڑی ہوئی ہیں ۔ اول یہاں ایک بڑی تعداد کو بنیادی تعلیم تک ہی رسائی نہیں یعنی لوگ ناخواندہ ہیں جن میں لڑکیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے ۔ دوئم جو پرائمری تعلیم ہے اس سے جڑی بنیادی نوعیت کی سہولتوں کا فقدان جن میں بلڈنگز، پانی ، بجلی ، فرنیچرز، واش روم ، کھیلوں کا میدان، کمروں کی کمی ، کتابوں کی عدم دستیابی جیسے مسائل موجود ہیں ، سوئم جو تعلیم دی بھی جارہی ہے اس میں معیاریعنی کوالٹی کی تعلیم اور جو جدید تعلیمی تصورات سامنے آرہے ہیں ان کو اختیار نہ کرنے کی جو پالیسی ہے وہ بھی بگاڑ کا شکار ہے ۔ چہارم اساتذہ کی تربیت کا فقدان جو پرائمری تعلیم میں بچوں اور بچیوں کی تربیت سے خالی ہے۔پنجم جو نصاب بچوں کو پڑھایا جارہا ہے وہ خود بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔

عالمی دنیا میں ہم یہ کمٹمنٹ کرچکے ہیں کہ ہم جی ڈی پی میں تعلیم پر 4فیصد بجٹ رکھیں گے ۔ یہ کمٹمنٹ ہم نے پہلے میلینیم ڈولیپمنٹ اہداف2000 تا 2015اور اب پائیدار ترقیاتی اہداف 2015-30 میں کرچکے ہیں ۔لیکن ہم 1.7فیصد سے زیادہ خرچ نہیں کررہے ۔ سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور کو دیکھیں تو اس میں بھی تعلیم کے معاملات کی کوئی واضح شفاف جھلک دیکھنے کو نہیں ملتی۔

وجہ صاف ظاہر ہے کہ جب اس ملک کے طاقت ور طبقات نے اپنے بچے سرکاری تعلیمی اداروں کے مقابلے میں مہنگے نجی اسکولوں میں داخل کرانے شروع کردیے تو واضع ہوگیا کہ ریاست و حکومت کا تعلیم کی بہتری ان کا ایجنڈا نہیں ہوسکتا ۔ یہ ایک طبقاتی مسئلہ اور جنگ ہے اسے اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے ۔

اب جو تعلیمی ایمرجنسی کی بات کی گئی ہے اس کے بھی کوئی خدوخال پیش نہیں کیے گئے ۔ یعنی وہ کیا قدامات ہوںگے یا کون سی ایسی پالیسیاں ہوںگی کا کوئی واضح اور شفاف روڈ میپ نظر نہیں آتا ۔ جب کہا جاتا ہے کہ تعلیم اب ایک صوبائی مسئلہ ہے تو صوبوں کی سطح پر وفاق ہی کی طرح کوئی عملی اقدامات دیکھنے کو نہیں ملتے۔

مقامی حکومتوں کے زیر انتظام اسکولز بھی حکومت کی ترجیحات کا حصہ نہیں اور اگر ہم پرائمری سطح کی تعلیم میں مقامی حکومتوں کے کردار کو اہمیت دے کر ا ن کو زیادہ سے زیادہ بااختیار کریں تو ہم پرائمری کی سطح پر کافی بہتر ی لاسکتے ہیں ۔وفاق اور صوبوں میں ہائر ایجوکیشن کمیشن جیسے ادارے ہیں تو دوسری طرف کسی صوبے میں '' پرائمری ایجوکیشن کمیشن '' نام کی کوئی چیز نہیں ۔

ہمیں تعلیم کے نام پر سیاسی بیانات سے باہر نکلنا ہوگا۔اگر واقعی تعلیم میں ایمرجنسی ہے تو پھر ایمرجنسی جیسے اقدامات سے کیونکر گریز کیا جارہا ہے ۔ کیوں تعلیم کے بجٹ میں مسلسل کٹوتی کی جارہی ہے ۔کیا وزیر اعظم چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کے ساتھ مل کر پرائمری تعلیم سے جڑے مسائل اور اب ان کی طرف جو ایمر جنسی کی بات کی گئی ہے اس پر کوئی روڈ میپ ددے سکیں گے۔

وفاقی ، صوبائی و مقامی حکومتوں کے درمیان تعلیم میںبہتری کے لیے جو مضبوط رابطہ کاری اور سرمایہ کاری سمیت نگرانی ، شفافیت ،جوابدہی اور احتساب سمیت جدید بنیادی تصورات درکار ہیں وہ ہماری ریاستی و حکومتی ترجیحات کا اہم حصہ بن سکے گا۔ریاستی محاذ پر یہ تسلیم کیا جانا چاہیے کہ ہم سب فریق ہی تعلیم کے معاملات میں مجرمانہ غفلت کا شکار ہوئے ہیں، جس میں ہماری جوابدہی ہونی چاہیے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں