ہٹ دھرمی
درپردہ لگتا ہے بھارت پاکستان کے حالات کو بگاڑنے کی کوشش کرسکتا ہے
بھارتی وزیر خارجہ جے ایس شنکر نے کچھ دن قبل گلہ کیا تھا کہ برصغیر کی تقسیم غلط ہوئی ہے، وہ علاقے جن کی بھارت کو ضرورت تھی، وہ اسے نہیں مل سکے۔
اس بیان کا مطلب صاف ہیکہ تاج برطانیہ نے بھارت کو شمال میں روس اور وسطیٰ ایشیائی ممالک تک زمینی رسائی کے لیے کوئی راستہ فراہم نہیں کیا گیا۔ ان کا یہ گلہ درست ہے مگر وہ بھی دیکھیں کہ جس بنیاد پر برصغیر کی تقسیم کا فارمولا طے ہوا اور پھر اس پر عمل ہوا اس کے مطابق ہندوؤں کی اکثریت وسطی اور جنوبی صوبوں میں تھی، نہ تو مشرق میں ان کی اکثریت تھی، وہاں مسلمانوں، عیسائیوں اور بودھوں کی تعداد زیادہ تھی جب کہ مغرب میں پنجاب، سندھ، فرنٹیئر اور بلوچستان میں مسلمانوں کی اکثریت تھی، ادھر کشمیر جو شمال میں واقع ہے، مسلمانوں کی اکثریت تھی اور اب بھی ہے۔
آزادی کے فوراً بعد نہرو نے کشمیر میں اپنی فوجیں داخل کر دیں۔ ادھر پاکستان نے مقامی فائٹرز کی مدد سے کشمیر کے مغربی اور شمالی علاقوں کو بھارت کے قبضے میں جانے سے بچا لیا اور یہی وہ علاقے ہیں جن کی بھارت کو ضرورت تھی کہ انھی علاقوں سے اس کی روس اور وسطی ایشیائی ممالک تک خشکی کے راستے سے رسائی ممکن تھی ،1991 میں روس نے اپنی اکثر جنوبی ریاستوں کو آزاد کر دیا تھا۔
یہ ترقی پذیر ممالک ہیں یہ بھارت کی مصنوعات کی بہترین مارکیٹ ہیں، بھارت گو کہ ان ممالک کو اب بھی اپنی مصنوعات بھیج رہاہے مگر ہوائی جہازوں یا پانی کے جہازوں سے بھیجنا مہنگا پڑ رہا ہے چنانچہ وہ چاہتا ہے کہ خشکی کے راستے تجارت کی جائے جس سے خرچ کم ہو سکے۔
اب تک بھارت پاکستان سے کئی جنگیں لڑ چکا ہے اور کشمیریوں کی آزادی کو روک رکھا ہے جس سے پاکستان سے اس کے تعلقات شروع سے ہی خراب چل رہے ہیں چنانچہ وہ پاکستان سے مذکورہ ممالک تک رسائی کا راستہ نہیں مانگ سکتا پھر اسے ماضی میں افغانستان تک رسائی دی جا چکی ہے مگر اس نے اس تجارتی راستے کو تخریب کاری کے لیے استعمال کیا۔ چنانچہ اس نے ایران کی چاہ بہار بندرگاہ کے ذریعے وسطی ایشیائی ممالک تک پہنچانا شروع کیا۔ دراصل بھارتی حکمران شروع سے ہی وسط ایشیا تک زمینی رسائی چاہتا ہے۔ لیکن وہ کامیاب نہیں ہوسکا۔
ادھر پاکستان میں دہشت گردی کئی برسوں تک چلتی رہی مگر بالآخر پاکستانی قابل فخر خفیہ ایجنسیوں نے دہشت گردی کی کمر توڑ دی۔ اسی دوران بھارتی جاسوس کلبھوشن بلوچستان میں پکڑا گیا۔ یہ شخص اس وقت پاکستانی قید میں ہے۔ بھارتی حکومت نے اسے پاکستانی قید سے چھڑانے کے لیے بہت کوشش کی حتیٰ کہ اس معاملے کو عالمی عدالت انصاف میں بھی لے گئی ہے مگر اسے کامیابی نصیب نہیں ہو سکی ہے۔
بھارت بدستور چاہ بہار بندرگاہ استعمال کر رہا تھا کہ اسی دور میں ایران نے جوہری بم بنانے کی کوشش کی اور پھر اسرائیل سے خراب تعلقات کی بنا پر امریکی حکومت نے اس پر کئی نئی پابندیاں عائد کردیں جن میں تمام ممالک پر ایران سے تجارتی اور متعلقہ تعلقات رکھنے پر بھی پابندی شامل تھی، چنانچہ کئی برس سے بھارت اس منصوبے سے دور تھا مگر اب اس نے پھر اس منصوبے پر کام کرنے کا ارادہ کیا ہے۔
چند دن قبل اس سلسلے میں ایران اور بھارت کے درمیان ایک دس سالہ معاہدہ طے پا چکا ہے اس معاہدے کے تحت چاہ بہار پروجیکٹ پر بھارت 37 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ جو کام پہلے نہیں ہو سکے تھے انھیں اب وہ مکمل کرے گا تاکہ اس کا روس اور وسطی ایشیائی ممالک تک راستہ بحال ہو سکے مگر درپردہ لگتا ہے بھارت پاکستان کے حالات کو بگاڑنے کی کوشش کرسکتا ہے کیونکہ گوادر بندرگاہ بھی تعمیرات کے آخری مراحل طے کر رہی ہے۔
صرف بھارت ہی نہیں کئی اورممالک اس بندرگاہ کی ترقی سے خوفزدہ ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو چین اسے استعمال کرے گا ساتھ ہی اس کی ترقی سے پاکستان کی ترقی دوبالا ہو سکتی ہے۔ تاہم اس وقت بھارت کا چاہ بہار بندرگاہ کو ایران سے پھر سے حاصل کرنے کا مقصد لگتا ہے اس کے امریکی حکومت سے روز بروز بگڑتے ہوئے تعلقات بھی ہیں۔
امریکی حکومت نے نہ صرف کینیڈا میں مارے گئے سکھ لیڈر کے قتل پر گہری تشویش ظاہر کی ہے بلکہ اپنے ہاں سکھ لیڈر پر اقدام قتل کی سخت مذمت کی ہے اور ان دونوں وارداتوں کا الزام بھارتی حکومت پر عائد کیا ہے۔ اس وقت بھارت خالصتان کے مسئلے پر امریکی ہمدردی سے سخت نالاں ہے اور لگتا ہے وہ ایران سے چاہ بہار بندرگاہ کا معاہدہ کرکے امریکا کو جتانا چاہتا ہے کہ وہ ایک مضبوط ملک ہے ۔ وہ جو چاہے گا کرے گا۔ دیکھیے اب آگے کیا ہوتاہے تاہم خالصتان کی تحریک کو اب بھارت کسی طرح بھی دبا نہیں سکتا۔