فیصلہ
پاکستان کا 5جولائی1977کا مارشل لاء جب ضیاالحق نے لگایا تو تمام اینٹی پی پی عناصر بھٹو سے خوفزدہ ہو گئے۔۔۔
سابق صدر جنرل پرویز مشرف جب تک اقتدار میں رہے وہ پاکستان افواج کے سربراہ بھی رہے۔ وہ پاکستان کے واحد مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ہیں کہ جب ملک میں مارشل لاء لگا تو وہ ملک سے باہر تھے۔ جب جنرل ایوب خان نے اکتوبر1958میں خود مارشل لاء لگایا اور اس کے بعد جنرل آغا محمد یحییٰ کو اقتدار سونپا جب کہ وہ اپنے بنائے ہوئے قانون کے تحت یہ اقتدار قومی اسمبلی کے اسپیکر کو دے سکتے تھے۔
ایوب خان جیسے آمر کو ہٹانے میں پاکستان کے مقبول ترین سیاستدان ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوری کوشش کا بڑا حصّہ تھا کیونکہ ملک بے آئین تھا لیکن انھوں نے بڑی غیر جانبداری سے پاکستان کے پہلے عام انتخابات کروائے جس کے نتیجہ میں قومیت پرستوں نے بھر پور کامیابی حاصل کی۔ بنگالی نے بنگالی کو، بلوچی نے بلوچی کو، پٹھانوں نے پٹھانوں کو ووٹ دیا مگر پنجاب نے وفاق پرستی کا ثبوت دیا اور سندھ کے سیاستدان ذوالفقار علی بھٹو کو ووٹ دیا اور سندھ کے لوگوں نے قوم پرستوںکو ووٹ نہیں دیے اس طرح مغربی پاکستان کو پنجاب اور سندھ نے مل کر مضبوط کیا اور پاکستان کو Greater Baluchistan اور Greater Pukhtonistanبننے سے بچا لیا۔
5جولائی1977کو ضیاالحق نے اراداۃََ مارشل لاء لگایا جب کہ قومی اتحاد اور حکومت نے32نکات میں سے 31نکات پر اتفاق کر لیا تھا۔مگر یہ سب جمی کارٹر اورڈاکٹر ہنری کے اشارے پر ہوا جس نے ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستان کی ایٹمی قوت بنانے میں بڑی حکمت عملی سے کامیابی حاصل کی اور پوری دنیا میں پاکستان پہلا واحد ملک تھا جس نے ایٹمی قوت حاصل کی جب کہ یہودی، عیسائی، بدھ مذہب اور کمیونسٹ کے علاوہ ہندئووں نے پہلے ہی ایٹمی قوت حاصل کر لی تھی۔ پاکستان کو جوہری قوت بنانے میں شام کے صدر حافظ الاسد، فلسطینی تحریک کے سربراہ یاسر عرفات، لیبیا کے کرنل معمر قذافی جیسے مسلم حکمرانوں نے بڑی معاونت کی اور ذوالفقار علی بھٹو کو اسلامی دنیا کا رہنما تسلیم کیا تھا خاص طور پر سعودی عرب کے شاہ خالد بن عبدالعزیز نے ان کی پھانسی رکوانے کی کوشش کی تھی ۔
پاکستان کا 5جولائی1977کا مارشل لاء جب ضیاالحق نے لگایا تو تمام اینٹی پی پی عناصر بھٹو سے خوفزدہ ہو گئے تھے ان سب نے مل کر آمر ضیاالحق کا کھل کر ساتھ دیا اس میں جماعت اسلامی ، نیپ، اصغر خان اور مسلم لیگ تھی پاکستان میںUncertainty 5 جولائی 1977ہی سے شروع ہو ئی۔ آمروں کو امریکا کی حمایت حاصل تھی۔ جب امریکا حمایت کرتا ہے تویورپ بھی ساتھ دیتا ہے اور وہ تمام عرب ممالک بھی جو امریکا کے زیر اثر حکمرانی کر رہے ہیں۔
اکتوبر 1999میں جنرل پرویز مشرف نے ملک کا اقتدار سنبھالا۔ اگر اس وقت کی معاشی اور اقتصادی پالیسیوں کا جائزہ لیں تو ہر ایک کی زبان پر تھا کہ ملک دیوالیہ ہونے والا ہے ۔ مگر قومی اور صوبائی اسمبلیاں ختم ہونے سے ،سینیٹ ٹوٹنے سے اربوں روپے کی بچت ہوئی اور امریکا میں ستمبر 2002کا حادثہ ہوا ملک میں بہت remittanceآیا مگر اس وقت کے چیف ایگزیکٹو پرویز مشرف صاحب نے جنھیں عدالت عالیہ نے دو سال کی مدت میں عام انتخابات کروانے کا پابند کیا تھا انھوں نے اس Foreign Exchangeکو جمع تو کیا ، ملکی معاشی حالات کو کچھ بہتر کیا مگر نہ Infrastructureپر توجہ دی اور نہ Energyپر یہ سب جب شروع کیا جب انھوں نے شہری حکومت بنائی۔
یہ ایک اچھا اقدام تھا۔ جنرل پرویز مشرف پر یہ الزام نہیں کہ انھوں نے ملک کو لوٹا، دولت بنائی، نہ انھوں نے نہ ان کے خاندان کے کسی فرد نے، وہ ایک ذہین، نڈر اور دنیا کی سیاست کو سمجھنے والے جنرل تھے۔ وہ سیاست دان نہیں تھے۔ کیونکہ ایک اچھا جنرل کبھی بھی اچھا سیاست دان نہیں ہو سکتا خاص طور پر پاکستان کے معاملات میںکیونکہ جنرل اصول پرست ہوتا ہے جب کہ ہمارے وطن کے سیاستدان خود پرست و خودغرض ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو غریب سیاست دان بھی اس میدان سیاست میں آیا اس نے خوب مال و زر جمع کیا۔
اگر ہمارے خفیہ ادارے معلومات حاصل کریں تو حیرت ہو گی کہ ایک اسکوٹر یا بس میں سفر کرنے والےMPAیاMNAآج بڑی بڑی ایئر کنڈیشنڈ کاروں میں اور بڑے بڑے بنگلوں میں رہتے ہیں ان کی دولت ملک میں بھی ہے اور ملک سے باہر بھی سب نے اپنے کاروبار کو اپنے نام سے دور رکھا ہوا ہے اس ملک میں اس طرح کا Corruptionعام ہے۔ا ن کی کوئی پکڑ نہیں۔ مگر جنرل پرویز مشرف نے ایسی کوئی کرپشن نہیں کی۔ جس طرح ذوالفقار علی بھٹو پر بھی جب کرپشن ثابت نہ ہوئی تو قتل کا مقدمہ ان پر تھوپ دیا گیا۔ جس میں کم از کم وہ براہ راست ملوث نہ تھے لیکن مقصد یہ تھا کی انھیں پھانسی دے کر ختم کر دیا جائے کیونکہ سیاسی مقابلہ ان سے نا ممکن تھا۔
اسی طرح جنرل پرویز مشرف جنہوں نے اپنے دور حکومت میں کبھی بھی عام آدمی کی آزادی اور تحریر و تقریر کی آزادی کو نہیں دبایا ان ہی کے دور میںپاکستان میں PTVکے مقابلے میں بے شمار نجی چینلز کا آغاز ہوا۔ آج عام پاکستانی جنرل پرویز مشرف کا اس لیے حامی ہے کہ ان کے دور میں ڈالر 68روپے رہا اور سڑکیں، پل، سیورج کے نظام میں بہتری آئی۔ مگر ان سے غلطی یہ ہوئی کہ بعض سیاستدانوں کو وہ اپنا ہمدرد سمجھنے لگے جب کہ وہ صدر پرویز مشرف کے ساتھ نہیں تھے بلکہ ان کی وردی کی وجہ سے ساتھ تھے۔
انھوں نے جنرل پرویز مشرف کے ساتھ بہت بے وفائی کی۔ آج عوام پھر جنرل پرویز مشرف کو ایک بہترین چیف ایگزیکٹیو سمجھتے ہیں۔ وہ اب سیاست کے میدان میں آ گئے ہیں ان سے سیاسی مقابلہ کرنے کو کوئی تیار نہیں۔ حالانکہ ابھی ان کی پارٹی تنظیمی طور پر اور سیاسی طور پر اتنی مقبول نہیں جتنی ہونی چاہیے اس کی وجہ یہ ہے کہ اب پارٹی والے اپنی ذات پر توجہ دے رہے ہیں جب کہ انھیں اس وقت پارٹی کی ممبر شپ جاری تھی لوگ تیار ہیں مگر نہ جانے اس کام میں اتنی تاخیر کیوں۔
سابق جنرل پرویز مشرف سے بعض سیاستدانوں کے اختلافات کی وجہ تو ہر ایک جانتا ہے۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ حکومتی پارٹی مسلم لیگ نواز کے ارکان نے TV Channels پر کئی بار یہ کہا کہ اب سابق صدر پرویز مشرف کا مقدمہ عدالت میں ہے جو وہ فیصلہ کرے گی ہم قبول فرمائیں گے۔ مگر کھلا تضاد جب سامنے آیا جب سندھ کی عدالت نے ان کا نام ECLمیں ڈالنے کو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کہا تو حکومت نے اس فیصلہ کو تسلیم کرنے کے بجائے اعلیٰ عدالت میں چیلنج کر دیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ عدالت کے اس فیصلہ کو مانیں گے جو ان کی مرضی کے مطابق ہو گا۔
یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ پاک افواج کا ایک سپاہی بھی ملک سے غداری نہیں کر سکتا کیونکہ ہماری فوج میں بھرتی کی بڑی کڑی شرائط ہیں جب کہ پرویز مشرف تو ایک جنرل بھی تھے اور پاک افواج کے سربراہ بھی۔ لہذٰا وہ عام آدمی نہیں ہیں نہ عوام کی نظر میں نہ قانون کی نظر میں وہ جب استعفیٰ دے کر گئے تو انھیں گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ کاش فیصلہ کرنے والے اس Hounorکا بھی خیال کریں اور انھیں بیرون ملک بغرض علاج و عیادت والدہ کے لیے جانے سے نہ روکیں ۔