ٹریفک حادثات اور حکومتی لاپروائی

گاڑی سڑک پر لانے والے ڈرائیور کا لائسنس یافتہ اور تجربہ کار ہونا ضروری قرار دیا جانا چاہیے


Editorial May 20, 2024
گاڑی سڑک پر لانے والے ڈرائیور کا لائسنس یافتہ اور تجربہ کار ہونا ضروری قرار دیا جانا چاہیے۔ فائل فوٹو

بنوں سے وادی سون آنیوالی مسافر گاڑی کھائی میں گرنے سے تین خواتین، دو مرد اور نو بچوں سمیت چودہ افراد موقعے پر جاں بحق جب کہ نو افراد شدید زخمی ہوگئے، گاڑی بریک فیل ہونے کی وجہ سے گہری کھائی میں جاگری تھی۔

اعلیٰ حکومتی شخصیات نے اس واقعے پر دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے، حادثے کی رپورٹ طلب کرنے اور غفلت کے مرتکب افراد کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے بیانات جاری کیے ہیں۔ پاکستان میں وقفے وقفے سے ہونے والے ٹریفک حادثات اور ان پر حکومتی شخصیات کے روایتی بیانات اب معمول بنتے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں ٹریفک حادثات کی سب سے بڑی وجہ تیز رفتاری اور ڈرائیور حضرات کی دانستہ غفلت ہے، عموماً بڑی گاڑیوں کے ڈرائیورز ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے شوق میں بس پر سوار سیکڑوں انسانی زندگیوں سے کھیلنے کو مذاق سمجھنے لگتے ہیں۔

ایسا گھناؤنا عمل نشے کا عادی یا کسی نفسیاتی عارضے کا شکار شخص ہی کرسکتا ہے۔ ایک سمجھدار اور صحت مند آدمی کبھی زندگی جیسی قیمتی چیز کے جانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا۔ ان حادثات کی ایک وجہ کم عمر ڈرائیورز بھی ہیں۔ لڑکپن کو پرجوش نادانی کا دور سمجھا جاتا ہے۔ کم عمر افراد کے ہاتھ میں اسٹیئرنگ تھمانا ایک قابل تعزیر جرم ہے۔ ٹریفک حادثات صرف انسانی جان ہی نہیں لیتے، بلکہ یہ ملکی معیشت پر بھی ایک بوجھ بنتے ہیں، پاکستان میں ہر سال 9 ارب ڈالر سڑکوں پر ہونے والے حادثات کی وجہ سے زخمی ہونے والے افراد کی طبی امداد اور تباہ حال گاڑیوں کی مرمت میں خرچ ہو جاتے ہیں۔

پاکستان میں وقت کے ساتھ گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، آج ہر تیسرے فرد کے پاس اپنی ذاتی گاڑی یا موٹرسائیکل موجود ہے۔ پورے ملک میں بڑھتی ہوئی گاڑیوں کی وجہ، متعارف کروائی جانے والی وہ مختلف اسکیمیں اور پیکیجز ہیں جن کے ذریعے آسان اقساط پر گاڑی و موٹرسائیکل بہ آسانی مل جاتی ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان میں بڑھتی ہوئی گاڑیاں سڑکوں پر ٹریفک حادثات کی شرح میں اضافے کا سبب ہیں۔

ملک میں ان حادثات کے پیچھے جو اسباب کارفرما ہیں ان میں سے پچانوے فیصد انسانی غلطیاں ہوتی ہیں، جیسا کہ تیز رفتاری، غلط اوور ٹیکنگ، ڈرائیوروں کا غیر تربیت یافتہ ہونا، دوران ڈرائیونگ موبائل فون کا استعمال، ٹریفک قوانین کی معلومات نہ ہونا یا لاپرواہی، وغیرہ۔ جب کہ پانچ فیصد وجوہات میں تکنیکی خرابیاں اور سڑکوں کی خستہ حالی کے مسائل شامل ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ڈرائیوروں پر محدود وقت میں جلد منزل پر پہنچنے کا دباؤ ہوتا ہے یہ وجہ بھی تیزرفتاری کا باعث بنتی ہے جس سے حادثے ہوتے ہیں۔

پہاڑی علاقوں میں سڑک کی خرابی بھی حادثات کا باعث بن رہی ہے۔ کچھ پہاڑی خراب راستوں پر حکومت تو سڑک بنانا چاہتی ہے اگر سڑک بن گئی تو جیپ چلانے والے مقامی افراد کا روزگار ختم ہو جائے گا، اس لیے وہ یہ سڑک نہیں بننے دیتے۔ ٹریفک حادثات کی وجوہ کا جائزہ لیتے ہوئے یہ دل چسپ پہلو بھی سامنے آیا کہ موٹر وہیکلز کے لیے تو قوانین موجود ہیں، مگر سُست رفتار گدھا گاڑیوں، اونٹ اور بیل گاڑیوں کے لیے کوئی قانون موجود نہیں اور پھر اُنھیں چلانے والے بھی عموماً ناخواندہ اور ٹریفک قوانین سے یکسَر نابلد ہوتے ہیں۔ نیز، نو عُمر بچے، جوان بھی اکثر اوقات جوش و خروش میں ٹریفک قوانین کی پاس داری نہیں کرتے۔

زیادہ تر نوجوان ٹریفک سائنز اور اصولوں کو نظر انداز کرکے نہ صرف اپنی بلکہ دوسروں کی زندگیاں بھی داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ حادثات کی دیگر وجوہ میں غیر تربیت یافتہ ڈرائیورز کی غیر محتاط ڈرائیونگ، سڑکوں کی خستہ حالی، وہیکل کی اچانک خرابی، اوور لوڈنگ، ون وے کی خلاف وزری، اوور ٹیکنگ، اشارہ توڑنا، ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون کا استعمال اور زائد المدت ٹائرزکا استعمال وغیرہ بھی شامل ہیں۔ تاہم، ان میں سب سے بڑی وجہ جلد بازی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق، 80 سے 90 فی صد حادثات تیز رفتاری، جلد بازی اور غیر محتاط ڈرائیونگ کے باعث پیش آتے ہیں، لہٰذا جب تک ہم اپنے رویے، طرزِ عمل درست نہیں کریں گے، ٹریفک حادثات میں کمی ممکن بھی نہیں۔

بعض رپورٹوں کے مطابق پاکستان میں ہر سال اوسطاً تیس ہزار کے لگ بھگ افراد ٹریفک حادثات میں جاں بحق اور 40 ہزار سے زائد زخمی ہو جاتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں ٹریفک کے حوالے سے صورت حال کتنی تشویشناک ہے اور اس ایشو کی طرف توجہ دینے کی کتنی اشد ضرورت ہے۔ ہر ڈرائیور کی دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش، ون وے کی خلاف ورزیاں، ٹریفک سگنلز کا خیال نہ رکھنا، غلط پارکنگ، غلط اوور ٹیکنگ اور اوور لوڈنگ ایسے عوامل ہیں جو حادثات کا باعث بنتے ہیں۔ تیز رفتاری' ڈرائیور حضرات کا ٹریفک قوانین سے آگاہ نہ ہونا اور خراب ٹوٹی پھوٹی سڑکیں بھی سانحات کو جنم دیتی ہیں، لیکن حادثات کی صرف یہ بیان کردہ وجوہات ہی نہیں ہیں۔

پاکستان میں مہنگائی جس تیزی سے بڑھ رہی ہے' اس کا تجربہ ہر پاکستانی کو ہے۔ دیہاڑی محدود ہونے کی وجہ سے کچھ ڈرائیور حضرات اوور ٹائم لگانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ گھر اور بچوں کی ضروریات پوری کر سکیں اور ان کا یہ عمل حادثات کا باعث بنتا ہے۔ ڈرائیور پورا آرام نہیں کرے گا، نیند پوری نہیں کرے گا تو ظاہر ہے کہ ڈرائیونگ کے دوران اسے اونگھ آئے گی۔ یہی اونگھ حادثات کو جنم دیتی ہے۔گاڑیوں کا سڑکوں پر آنے کے لیے فٹ نہ ہونا بھی حادثات کا باعث بنتا ہے۔ کبھی چلتی ہوئی گاڑی کا ٹائی راڈ کھل جاتا ہے' کبھی بریکیں فیل ہو جاتی ہیں' کبھی ٹائر پھٹ جاتا ہے۔

اب تو ایک اور خوفناک انکشاف بھی ہوا ہے۔ بڑی سڑکوں پر سفر کرنے والے اگر کہیں رک کر ہوا وغیرہ چیک کرائیں تو ہوا چیک کرنے والے کٹرز کی مدد سے ٹائر کو چیر دیتے ہیں اور ہوا چیک کرانے والوں کو پتہ بھی نہیں چلتا۔ یہ معاملہ بھی حادثات کا باعث بن رہا ہے کیونکہ متاثر ہو چکا ٹائر جلد ہی پھٹ جاتا ہے اور بھیانک حادثے کا باعث بنتا ہے۔اس ساری صورت حال کو پیش نظر رکھتے ہوئے ضرورت اس امر کی ہے کہ گاڑیوں کی فٹنس کا ایک مربوط نظام بنایا جائے۔ پبلک ٹرانسپورٹ بہتر بنائی جائے اور اس کی تعداد بڑھائی جائے تاکہ یہ ارزاں اور وافر دستیاب ہو سکے اور عوام اس سے مستفید ہو سکیں۔

پبلک ٹرانسپورٹ اپنی ناقص حالت کے باوجود سڑکوں پر دوڑ رہی ہوتی ہے حالانکہ ان کی جانچ پڑتال اور تفصیلی معائنے کے بعد فٹنس کا سرٹیفیکٹ جاری کرنے کا ادارہ بھی موجود ہے۔ گاڑیوں کے معائنے اور سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا عمل اگر مکمل طور پر شفافیت اور دیانتداری سے کیا جائے تو ٹریفک حادثات کے واقعات میں کافی حد تک کمی لائی جا سکتی ہے، اگر کسی گاڑی کا حادثہ اس کی تکنیکی خرابی کے باعث پیش آتا ہے تو اس افسر کے خلاف بھی کارروائی ہونی بنتی ہے جس نے گاڑی کی جانچ پڑتال کرنے کے بعد اسے تسلی بخش قرار دے کرفٹنس سرٹیفکیٹ جاری کیا۔

نیند کی حالت میں ڈرائیونگ بھی خطرے سے خالی نہیں۔ طویل سفر کے دوران ڈرائیورز پر نیند کا غلبہ کسی بڑے حادثے کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ ڈرائیونگ کے دوران موبائل کا استعمال منع ہے لیکن اکثر اوقات لاپرواہی برتی جاتی ہے جو انتہائی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔پاکستان میں ٹریفک قوانین تو موجود ہیں لیکن بدقسمتی سے ان پر عمل درآمد میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا۔ اکثر اوقات دیکھا گیا ہے کہ ٹریفک پولیس کی جانب سے بھی اس سختی کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا جو کیا جانا چاہیے۔

پٹرول کی قیمتیں تیزی سے بڑھ رہی ہیں اور ان بڑھتی ہوئی قیمتوں نے لوگوں کے لیے نجی گاڑیاں چلانا ویسے ہی مشکل تر بنا دیا ہے۔ ان حالات میں پبلک ٹرانسپورٹ کو ایک بار پھر رواج دینا آسان ہوگا۔ حکومت کو اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔ ضروری ہے کہ تیز رفتاری کی روک تھام کی جائے' سڑکوں کے نظام کو بہتر بنایا جائے، شہروں میں پارکنگ کے لیے پلازے بنائے جائیں۔ ڈرائیور حضرات کی مکمل تربیت کا اہتمام اور انھیں ٹریفک قوانین کی تعلیم دینا بھی حادثات میں کمی لانے کا سبب بن سکتا ہے۔ ڈرائیورز کے لیے ریفریشر کورسز کا اہتمام بھی کیا جانا چاہیے۔

گاڑی سڑک پر لانے والے ڈرائیور کا لائسنس یافتہ اور تجربہ کار ہونا ضروری قرار دیا جانا چاہیے۔ لائسنس حاصل کرنے والوں کو ٹریفک رولز سے آگاہی اور ڈرائیونگ کی مکمل ٹریننگ یقینی بنانی چاہیے، اصل میں ہمارے ہاں مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، اگر ہم ٹریفک کے قوانین کی پابندی کو اپنا شعار بنا لیں تو اس سے بھی ٹریفک حادثات میں کمی لائی جا سکتی ہے۔

اس مسئلے سے نمٹے کے لیے جہاں دیگر اقدامات ضروری ہیں، وہیں اس کے ساتھ نصاب میں ایسے مضامین بھی شامل کیے جائیں جن سے اس خطرے سے بچنے کے لیے نوجوانوں کو ضروری احتیاط کی آگاہی مل سکے۔ پاکستان میں نافذ قومی وہیکل آرڈیننسز ٹریفک کا نظام منظم کرنے کے لیے بنائے گئے تھے ان میں بہتری کی گنجائش بہرحال موجود ہے۔ موجودہ وقت کے تقاضوں اور ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان میں جدت لانے کی بھی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں