قرضوں میں جکڑا ملک 

وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ ماہ فرمایا تھا کہ کیا جواز ہے کہ، غریب مہنگائی میں پسے اور اشرافیہ کو سبسڈی ملے


Zamrad Naqvi May 20, 2024
www.facebook.com/shah Naqvi

پاکستان کا بال بال اس وقت قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔ ملک کا مجموعی غیر ملکی قرضہ 129ارب ڈالرز ہے۔ ملکی قرضے اس کے علاوہ ہیں جو پاکستانی بینکوں سے قرض لیے گئے ہیں ملکی آمدنی 7ہزار ارب روپے ہے جب کہ ہمیں اس وقت غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لیے 8ہزار ارب درکار ہیں۔ اس کا انکشاف وفاقی وزیر منصوبہ بندی نے گزشتہ مہینے اپریل میں کیا ہے۔

اب صورتحال یہ ہے کہ ہم جتنا ان قرضوں سے باہر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں اتنا ہی اس دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ دہائیوں پہلے بجلی کی پرائیویٹ کمپنیوں کا پاکستانی عوام کے گلے میں ڈالے جانے والا وہ آہنی پھندہ ہے جس کی دم گھونٹ دینے والی سختی اتنی بڑھ گئی ہے کہ اب عوام کا سانس لینا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ کوئی صورت نظر نہیں آتی کہ عوام کو اس عذاب سے نجات کیسے ملے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہماری وہ کونسی گزشتہ حکومتیں تھیں جنھوں نے عوام کے مفاد کے بجائے غیر ملکی مفاد پیش نظر رکھا۔ اب ہم اس پھندے سے اگلے بیس سال بھی نجات حاصل نہیں کر سکتے۔

پاکستان نے پہلا قرضہ 1958میں آئی ایم ایف سے ڈھائی کروڑ ڈالر لیا تھا۔ یاد رہے کہ یہی وہ سال ہے جب ایوب خان نے پاکستان کا پہلا مارشل لا لگایا۔ اس کے بعد تو ہمیں عادت ہو گئی، ایوب خان دور کی اقتصادی ترقی نظر کا دھوکا تھا۔ کیونکہ یہ ترقی بیرونی امداد اور قرضوں پر مشتمل تھی۔ اس دور میں معیشت کا انحصار بیرونی امداد اور قرضوں پر تھا۔ ایوب خان دور میں دولت کا ارتکاز اس حد تک ہوا کہ قومی دولت صرف 22خاندانوں میں سمٹ کر رہ گئی۔ ایوب دور میں پاکستان نے آئی ایم ایف سے تین بار قرض لیا۔ ضیاء دور سے آج تک ہمارے ہر حکمران نے آئی ایم ایف سے قرض لیا۔

یوسف رضا گیلانی کے دور میں پاکستان نے اپنی تاریخ کا سب سے بڑا قرضہ یعنی 10ارب ڈالر لیا۔ پاکستان نے صرف آئی ایم ایف سے ہی قرض نہیں لیا بلکہ اس کے علاوہ یہ پیرس کلب، عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، چین، سعودی عرب، عرب امارات کا بھی مقروض ہے جب کہ پاکستان نے ملکی مالیاتی اداروں اور بینکوں سے بھی 24ہزار 309 ارب روپے ادھار لے رکھے ہیں۔ یہاں تک کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بھی بینکوں سے ادھار لے کر ادا کی جا رہی ہیں۔ اس طرح بینکوں کے سرکڑاھی میں انگلیاں گھی میں ہیں۔

ملکی ہی نہیں غیر ملکی بینک بھی آکاس بیل کی طرح پھل پھول رہے ہیں۔ کیونکہ ان کی شرح سود پاکستان کی تاریخ میں بلند ترین 22فیصد پر ہے۔ اس بلند شرح سود پر حکومت بینکوں کو سالانہ سیکڑوں ارب روپے منافع کی شکل میں ادا کرتی ہے اور آخر کار اس کی قیمت عوام کو مسلسل بڑھتے ہوئے ٹیکسوں کی شکل میں ادا کرنی پڑتی ہے۔ سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدوں کے بارے میں عوام کو بے خبر رکھا جاتا ہے اور ان بے چاروں کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ حکمرانوں نے غریب عوام کا کتنے میں سودا کیا ہے۔ پتہ انھیں اس وقت چلتا ہے جب ان پر بجلی گیس پٹرول بم یکے بعد دیگرے گرتے ہیں۔

پاکستان اس وقت چین کا سب سے بڑا مقروض ہے، 67ارب ڈالرز کی شکل میں جو اس نے پاک چائنہ اکنامک کو ریڈور کے سلسلے میں لیے ہیں۔ پاکستان کی پہچان دنیا بھر میں ایک عالمی بھکاری کے طور پر ہے۔ جب کہ انڈیا کے فارن ریزرو ہی 650ارب ڈالر ہیں۔ اب وہ عالمی معیشت میں پانچویں نمبر پر ہے جو جلد ہی برطانیہ کی جگہ لے کر چوتھی بڑی عالمی معیشت بن جائے گا۔

2008میں پاکستان 6ہزار ارب روپے کا مقروض تھا۔ پیپلز پارٹی دور میں یہی قرضے 16ہزار ارب روپے تک پہنچ گئے۔ مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں یہ قرضے30ہزار ارب تک پہنچ گئے۔ پھر پی ٹی آئی حکومت میں تو یہ قرضہ 50ہزار ارب روپے تک جا پہنچا اور نگران حکومت کے مختصر دور حکومت میں مزید 15ہزار ارب قرضہ لیا گیا۔ 15سال پہلے ہر پاکستانی بچہ 36ہزار اور اب 2لاکھ 27ہزار روپے کا مقروض ہے۔

ماضی کے مشہور قرض اتارو ملک سنوارو نعرے کو یاد کریں۔ اس اسکیم کے تحت بیرون ملک پاکستانیوں نے 15کروڑ ڈالر بھجوائے جب کہ عوام نے بھی اپنی خون پسینے کی کمائی 150ارب روپے ملک کو نذر کی۔ لیکن اس کثیر رقم کا آج تک پتہ نہیں چلا کہ کہاں گئی۔ عوام سے دھوکا دہی کی ایسی بے شمار مثالیں ہیں جس کے نتیجے میں معیشت ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑی ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ ماہ فرمایا تھا کہ کیا جواز ہے کہ، غریب مہنگائی میں پسے اور اشرافیہ کو سبسڈی ملے۔ آپ کو پتہ ہے کہ یہ سبسڈی کتنی ہے؟ یہ سبسڈی 17ارب ڈالر سالانہ ہے۔غور فرمائیں۔ وزیراعظم نے مزید فرمایا کہ اب اشرافیہ کو بھی قربانی دینی پڑے گی۔ ابھی تک تو کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا۔ لگتا ہے کہ حکومت بھی اس ڈاکو مافیا کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں