مفاہمت اور مزاحمت کی سیاست
سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلافات اصولی اورنظریاتی ہوتے ہیں اور شخصیت پرستی بھی دیکھنے کو ملتی ہے
سیاست میں اختلافات جمہوری نظام کا حصہ ہے۔ ایک فطری بات ہے کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلافات اصولی اورنظریاتی ہوتے ہیں اور شخصیت پرستی بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ لیکن جمہوریت کا حسن ہی یہ ہوتا ہے کہ اس نظام میں سیاسی اختلافات یا شخصیت پرستی کے باوجود سیاسی احترام لازم ہوتا ہے اور مل کر کام کرنے کا بھی راستہ تلاش کرتے ہیں۔
اختلافات کو اگر سیاست تک ہی محدود کیا جائے اور اسے ذاتی عناد، تعصب، نفرت یا سیاسی دشمنی کی شکل میں تبدیل نہ کیا جائے تو جمہوری عمل مثبت انداز میں آگے بڑھتا ہے۔ ہماری سیاست ہو یا جمہوریت ہم کئی دہائیوں کے باوجود ابھی تک ارتقائی عمل سے گزر رہے ہیں۔ ہم نے ماضی کی سیاسی اور جمہوری غلطیوں سے سبق سیکھنے کے بجائے حالات کو بگاڑا بھی ہے یا ان میں کشیدگی کو پیدا بھی کیا ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ ہم آج بھی سیاست اور جمہوریت میں سے آئین و قانون کی حکمرانی، جمہوری سیاسی طرز عمل اور سیاسی اخلاقیات کے پہلوؤں کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس وقت بھی ہمیں سیاست میں تقسیم کے گہرے بادل نظر آتے ہیں ۔ یہ گہرے بادل ظاہر کرتے ہیں کہ ہم نے ان کا علاج نہ کیا تو ایک بڑ ی گرج چمک کے ساتھ ہمارے لیے حالات کو اور زیادہ بگاڑ سکتے ہیں۔سیاسی تقسیم نے محض سیاست میں بگاڑ ہی پیدا نہیں کیا بلکہ دشمنی کی شکل اختیار کرلی ہے۔
ایسے لگتا ہے کہ ہم بدلہ لینے کی سیاست میں الجھے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کو نیچے گرانے کو اپنی سیاسی فتح سمجھتے ہیں۔ انتظامی اور معاشی نظام کی درستگی کے بجائے اس میں بگاڑ پیدا کرنا ہماری ترجیحات کا حصہ بن گیا ہے۔ ہمیں جمہوری سیاست کے لیے جو راستہ اختیار کرنا چاہیے ، اس میں ناکامی کا سامنا ہے ۔یہ خطرناک رجحان ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہم سیاسی پسماندگی کا شکار ہیں ۔
سیاسی جماعتوں کی قیادت میں سیاسی پختگی کا فقدان، ادھر ہمارا اسٹیٹ سسٹم عدم شفافیت اور بے انصافی کے اصول پر قائم ہے جو ہماری معاشرت اور معیشت کو اور زیادہ خرابی کی طرف لے کر جارہا ہے۔ یہ معاملات ہمیں محض داخلی معاملات تک ہی محدود نظر نہیں آتے بلکہ ہمارے علاقائی یا عالمی معاملات میں بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔
ایک طرف مفاہمت، ڈائیلاگ اور معاشی چارٹر کی باتیں ہیں تو دوسری طرف صرف اسٹیبلشمنٹ سے بات کریں گے کی ضد ہے ، ایسی صورت جمہوری سیاست آگے کیسے بڑھے گی۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ جو اس وقت قومی مسائل و مشکلات کا ہمیں سامنا ہے، اسے کسی بھی صورت میں سیاسی تنہائی میںنہیں دیکھنا چاہیے اور نہ ہی ان حالات کا کوئی فرد واحد یا ادارہ ذمے دارہے۔
بطور ریاست ہم سب ناکامی کا حصہ ہیں اور کسی نہ کسی شکل میں ہم بھی اس بگاڑ میں اپنا حصہ ڈال چکے ہیں۔ایک طرف مفاہمت اور دوسری طرف مزاحمت کی سیاست کو ہی دیکھیں تو ایسے لگتا ہے کہ مفاہمت ہو یا مزاحمت دونوں کو اس ملک میں مصنوعی بنیادوں پر چلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہاں جو مفاہمت اور مزاحمت کے نام پر ہورہا، اس میں بھی ہمیں کئی کمزور پہلو دیکھنے کو ملتے ہیں۔
ایسے لگتا ہے کہ حالات نے گرہ کچھ اس انداز سے لگائی ہے کہ کسی کو پتہ نہیں چل رہا کہ گرہ کھولنی کیسے ہے۔ قومی مفادات پر ذاتی اور گروہی مفادات برتری حاصل کررہے ہیں۔ مفاداتی ایجنڈا ہر فریق پر اس حد تک غالب ہوچکا ہے کہ ہماری قومی ترجیحات بہت پیچھے رہ گئی ہیں ۔ان حالات میں ہمارے چھ بڑے قومی مسائل کی سنگینی کو ہی دیکھیں تووہ خطرناک صورتحال کی نشاندہی ہوجاتی ہے۔
ان میں سیاست اورجمہوریت، آئین و قانون کی حکمرانی ، معیشت کی درستگی، حکمرانی کے نظام کی حقیقی معنوں میں شفافیت کا عمل، ادارہ جاتی مضبوطی اور سیکیورٹی یا انتہا پسندی یا دہشت گردی سے جڑے معاملات شامل ہیں۔ان چھ کے چھ مسائل کا حل کسی بھی سطح پر سیاسی مہم جوئی یا سیاسی ایڈونچرز کی بنیاد پر ممکن نہیں۔ اس کے لیے ہمیں ایک مضبوط سیاسی اور معاشی نظام ہی درکار ہے اور اس کو استحکام یا مستحکم کیے بغیر مرض کا علاج ممکن نہیں ہوگا۔
حقیقی استحکام ہی ہماری ضرورت ہے۔ اس کی ایک بڑی مضبوط شکل تمام ریاستی اور سیاسی و قانونی یا انتظامی اداروں کی بڑ ی ترجیحات اپنے اپنے آئینی و قانونی یا سیاسی وجمہوری دائرہ کار میں رہ کر کام کرنے سے جڑا ہوا ہے۔
اس لیے ہمارا قومی ایجنڈا ایک دوسر ے کو راستے دینے سے جڑا ہوا ہے۔ ہمیں ہر ایک کی سیاسی اور غیر سیاسی حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا ۔موجود سیاسی تقسیم ہمارے نظام کی ساکھ کو بھی بری طرح مجروح کرتی ہے۔ اس لیے اب بھی وقت ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کریں۔