چند روز قبل بھارتی فلم ''امر سنگھ چمکیلا'' دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ امتیاز علی کی ہدایتکاری میں بننے والی یہ فلم بلاشبہ آرٹ کا ایک نمونہ ہے۔ فلم کو دیکھنے کے دوران ہی میرا دھیان پاکستان کی جانب تھا اور پھر میں یہ سب لکھنے پر مجبور بھی ہوگیا۔ آگے بڑھنے سے پہلے امر سنگھ کے بارے میں مختصر لکھ دوں۔
امر سنگھ چمکیلا ایک بھارتی لوک فنکار تھا، اس نے بھارتی پنجاب میں متنازع اور فحش لوک گانوں سے شہرت حاصل کی۔ یہ اور اس کی بیوی میلوں وغیرہ میں گاتے بجاتے تھے اور عوام ان کے دیوانے تھے۔ امر سنگھ چمکیلا کو 28 سال کی عمر میں اس کی بیوی سمیت گولی مار کر قتل کردیا گیا۔ امر سنگھ چمکیلا تاریخ میں کہیں گم ہوچکا تھا لیکن اس فلم کی ریلیز کے بعد لوگ آج امر سنگھ چمکیلا کو ہدایت کار امتیاز علی کی وجہ سے دوبارہ جان گئے ہیں۔
امر سنگھ چمکیلا 1988 میں قتل ہوا تھا۔ اس کے پاس کوئی صدارتی ایوارڈ وغیرہ بھی نہیں ہے۔ یہ صرف اپنے وقت میں مشہور اور متنازع تھا اور جب وہ قتل ہوا تو کچھ وقت کے بعد یہ بھی تاریخ کے قبرستان میں گمنام دفن ہوچکا تھا۔ مگر آپ امتیاز علی کا کمال دیکھیے، 2024 میں جب لوگ اسے بھول چکے تھے تو امتیاز علی نے اس کو ریکارڈ کے تہہ خانے سے نکال کر جھاڑا، اس کو نئے سرے سے ترتیب دے کر پوری دنیا کو بتادیا کہ امر سنگھ چمکیلا کون تھا۔ اس کے مردہ گیت اب بھارت میں پھر سے زندہ ہوچکے ہیں۔ لوگ اس کا نام اور گانے انٹرنیٹ پر سرچ کررہے ہیں۔ فلم بینوں کی پسند کے مطابق اس کو 10 میں سے 8 کی ریٹنگ حاصل ہے اور یہ فلم نیٹ فلکس پر ابھی بھی زیادہ دیکھے جانے والی فلموں میں شمار ہورہی ہے۔
ابھی چند دن قبل ہی سینئر صحافی توفیق بٹ کی عطا اللہ عیسیٰ خیلوی کے بارے میں پوسٹ پڑھی اور سوچا کہ اپنے حصے کی صدا تو لگانی چاہیے۔ آپ میں سے کون عطا اللہ عیسیٰ خیلوی سے واقف نہیں ہے۔ ہم سب نے ہی کبھی نہ کبھی تو شاکر شجاع آبادی کا کوئی نہ کوئی شعر پڑھا ہی ہوگا۔ صحرا کی بلبل ریشماں سے کون واقف نہیں؟ عطا اللہ عیسیٰ خیلوی اور عارف لوہار کا ایک کمال تو یہ بھی ہے کہ آج کے دور میں بھی ان کے گانے ہٹ ہیں۔ لیکن، کیوں ان کی زندگی پر کوئی کتاب نہیں لکھی جاتی؟ کیوں ان کی زندگی پر کوئی فلم نہیں بنی؟
بھارت میں پان سنگھ تومڑ اور ملکا سنگھ پر فلمیں بنیں اور پوری دنیا کو پتا چل گیا کہ یہ کون تھے، جب کہ یہ بھی تاریخ کے قبرستان کی گمنامی میں دفن تھے لیکن ہمارے پاس تو عبدالخالق جیسا ہیرا تھا جسے دنیا فلائنگ برڈ کے نام سے تب جانتی تھی۔ ہم میں سے آج کون انہیں جانتا ہے؟ کیوں ہمارے فلمساز تاریخ کے قبرستان سے گمنامی میں دفن ہیرے نہیں نکال رہے؟ عبدالستار ایدھی کی زندگی پر ہی کتنی بڑی فلم بن سکتی ہے۔ روتھ فاؤ کی زندگی پر تو ایسی فلم بن سکتی ہے جو دنیا بھر میں ریلیز کی جاسکے۔ لیکن، ہمارے فلمسازوں کی توجہ اس جانب کیوں نہیں جاتی؟
بھارت میں ہاکی کے موضوع پر فلم بنی اور شاہ رخ اس فلم میں جلوہ گر ہوا۔ ہم سے کتنے لوگ سہیل عباس کو جانتے ہیں؟ بھارت میں دھونی کی زندگی پر فلم بنی۔ کل کو وہ ٹنڈولکر کی زندگی پر بھی فلم بنائیں گے۔ لیکن کیا ہمارے کسی ایک ہیرو کی زندگی پر فلم بنی؟ شعیب اختر، شاہد آفریدی، وسیم اکرم، وقار یونس تو پورا سبجیکٹ ہیں۔ محمد آصف کی زندگی پر اگر فلم بنائی جائے تو اس میں سب مصالحے بھی موجود ہوں گے۔ لیکن، پھر وہی سوال ہے کہ ہم کیوں اپنے ہیروز کو گمنام ہی رکھنا چاہتے ہیں؟ ہم کیوں عطا اللہ عیسیٰ خیلوی اور شاکر شجاع آبادی پر فلم بنانے سے کتراتے ہیں؟ ہمارے پاس ایک سے بڑھ کر ایک فنکار اور مصنف موجود ہے تو کیوں ابھی تک اس پر کوئی کام نہیں ہوا؟
کم از کم اس معاملے میں ہی بھارت سے سیکھ لیں۔ پاکستان کی سینما انڈسٹری نے دہائیوں بعد جو سانس لی تھی، وہ اب پھر سے دم توڑتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔ آج تو او ٹی ٹی پلیٹ فارمز بھی موجود ہیں۔ پھر کیوں نہیں؟ آج کے دور میں فلمیں مارکیٹنگ کا بہت بڑا ٹول ہیں۔ اس کو استعمال کرتے ہوئے اگر بھوکا ننگا بھارت اپنا دنیا بھر میں امیج ٹھیک کرسکتا ہے تو پاکستانیوں کو کیا مسئلہ ہے؟ اس کا جواب اگر بلال لاشاری، سید نور، شعیب منصور، سرمد کھوسٹ، علی سجاد شاہ دے دیں تو میں مشکور رہوں گا۔ ہمارے لیجنڈز بھی یہ حق رکھتے ہیں کہ ان پر فلمیں بنیں تاکہ دنیا کو معلوم ہوسکے کہ ہمارے پاس بھی بے شمار ہیرے موجود ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔