یومِ تکبیر اور نواز شریف کے اہداف
نواز شریف اور نون لیگ اگر اِس منفرد کارنامے پر فخر کرتے ہیں تو بجا ہی فخر کرتے ہیں
کل 28مئی 2024ہے۔ کل پورا پاکستان یومِ تکبیر منائے گا۔اٹھائیس مئی کا دن پاکستان اور نون لیگ کی تاریخ میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ چھبیس برس قبل اِسی مبارک تاریخ پر نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران پاکستان ، اللہ کے فضل سے، باقاعدہ ایک ایٹمی ملک بن گیا تھا ۔
نواز شریف اور نون لیگ اگر اِس منفرد کارنامے پر فخر کرتے ہیں تو بجا ہی فخر کرتے ہیں ۔ کل 28مئی2024 کا دن اس لیے بھی اہم قرار دیا جا رہا ہے کہ مبینہ طور پر جناب نواز شریف ایک بار پھر نون لیگ کی صدارت سنبھال رہے ہیں ۔
کوئی دو ہفتے قبل وزیر اعظم جناب شہباز شریف نون لیگ کی صدارت سے یہ کہہ کر مستعفی ہو گئے تھے کہ ''نون لیگی صدارت کی امانت اپنے قائد محترم نواز شریف کو لَوٹا رہا ہُوں ۔'' پچھلے دو ہفتوں سے نون لیگ جناب شہباز شریف کی قائمقام صدارت کے تحت ہی چل رہی تھی۔ جن طاقتوروں نے نواز شریف سے وزارتِ عظمیٰ کے ساتھ اُن کی پارٹی صدارت بھی چھین لی تھی، اب وہ ماضی کا ناقابلِ رشک حصہ بن چکے ہیں۔ نواز شریف مگر اب بھی تازہ دَم ، عوام کے منتخب و مقبول ترین لیڈر اور موجودہ مرکزی و صوبائی حکومتوں کے مرکز و محور ہیں۔
جو لوگ بوجوہ یہ خیال کیے بیٹھے تھے کہ میاں محمد نواز شریف 8فروری کے انتخابی نتائج سے مایوس اور پریشان ہو کر ایک طرف بیٹھ گئے ہیں، یہ لوگ اب خود پریشان ہیں۔ نواز شریف کے بد خواہوں کی جانب سے مسلسل یہ پروپیگنڈہ کیا گیا کہ نئے سیاسی حالات کے دباؤ میں اب نواز شریف اِسی میں اپنی بقا اور سلامتی دیکھ رہے ہیں کہ ایک طرف ہو کر شانتی سے بیٹھ جائیں ، لندن جاکر ٹھنڈے ماحول سے لطف اندوز ہوں ، علاج کروائیں اور پاکستانی سیاست و اقتدار سے لاتعلقی اختیار کر لیں۔
نواز شریف کم گو ہیں۔ بلا وجہ لب کشائی نہیں کرتے ۔ دوسروں کی آرا سننے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اپنی بات اور خواہش مگر دل میں رکھتے ہیں۔ 8فروری کے عام انتخابات کے بعد تیزی سے بدلتے ناموافق حالات کا وہ خاموشی سے جائزہ لے بھی رہے تھے اور حالات کو تول بھی رہے تھے۔ اپنے طے کردہ اہداف، عزائم اور اسٹرٹیجی سے مگر وہ دستکش نہیں ہُوئے تھے ۔
مشاہدہ کیا گیا ہے کہ نواز شریف عموماً اپنی طاقت کا اظہار کم کم کرتے ہیں۔ اِس کا مگر یہ معنی و مطلب نہیں ہے کہ وہ اپنی متنوع طاقتوں اور اختیارات سے آشنا نہیں ہیں۔ جو شخص دو بار وزیر اعلیٰ، قائدِ حزبِ اختلاف اور تین بار وزارتِ عظمیٰ پر متمکن رہ چکا ہو، اُس کے بارے میں یہ خیال رکھنا ہی کم عقلی اور کم فہمی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ نواز شریف پسِ پردہ رہ کر اپنے اختیارات کو بروئے کار لانے کو اولیت اور ترجیح دینے والے ہیں۔ 8 فروری کے بعد اُن کا خود کوئی حکومتی عہدہ قبول کرنے کا مطلب بعضوں نے یہ کشید کیا کہ وہ اقتدار کی کشتی کو کسی اور جانب رواں دیکھنے پر راضی ہو چکے ہیں۔
ایسا مگر حقیقی طور پر تھا نہیں۔ اپنے برادرِ خورد،شہباز شریف، کا وزیر اعظم منتخب ہونا اُن کی اشیرواد ہی سے ممکن ہُوا ۔ وہ اپنی صاحبزادی، محترمہ مریم نواز شریف، کو سب سے بڑے صوبے کی وزیر اعلیٰ منتخب کروا چکے ہیں۔ بڑے میاں صاحب کے دونوں بڑے اہداف تو پورے ہو چکے ہیں ۔ مگر وہ اِسی پر اکتفا کرکے نہیں بیٹھ گئے۔ اُن کی نظریں ابھی کہیں اور بھی مرتکز ہیں ۔
مثال کے طور پر اپنے سمدھی ، اسحاق ڈار، کو نائب وزیراعظم کے تخت پر براجمان کروانا۔ نواز شریف کو قریب سے جاننے پہچاننے والے سبھی خیال کرتے ہیں کہ اسحاق ڈار کا وزیر خزانہ نہ بننا نواز شریف کی توقعات اور اُمیدوں کو ٹھیس پہنچانے کا سبب بنا تھا۔ 8فروری کے انتخابات کے فوراً بعد، کئی اطراف سے، اسحاق ڈار کے بارے مخالفت کے کئی طوفان اُٹھائے گئے۔
یہ دراصل ایک خفی عندیہ تھا کہ اسحاق ڈار کے راستے مسدود کیے جائیں۔جو کسر رہ گئی تھی، وہ مفتاح اسماعیل کے اسحاق ڈار کے خلاف بیانات نے پوری کر دی۔ کچھ دیگر مخصوص قوتیں بھی زیر زمین سمدھی صاحب کے خلاف بروئے کار تھیں۔ نتیجہ جو نکلا ، ہمارے سامنے ہے۔نواز شریف مجروح تو ہُوئے مگر دستبردار نہیں۔
اسحاق ڈار کا ، غیر متوقع طور پر، وزیر خارجہ بننا دراصل نواز شریف کے ایک ہدف کا پورا ہونا بھی ہے اور نواز شریف کی طاقت کا اظہار بھی۔ انھوں نے مگر اِسی پر بس نہیں کی۔ نواز شریف اپنے پوتے اور نواسے کے ساتھ چین کے دَورے پر تھے کہ اچانک یہ خبر آئی کہ اسحاق ڈار کو ڈپٹی پرائم منسٹر کا عہدہ بھی دے دیا گیا ہے ۔
اگرچہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ عہدہ غیر آئینی ہے مگر ساتھ ہی تواتر کے ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ غیر آئینی ہونے کاباوجود اگر یہ عہدہ ، ماضی قریب میں، زیڈ اے بھٹو، نصرت بھٹو اور چوہدری پرویز الٰہی کو تفویض دیا جا سکتا تھا تو اسحاق ڈار اِس کے کیوں اہل نہیں؟ و اقعہ یہ ہے کہ اِس عہدے پر اسحاق ڈار کو بٹھانا نواز شریف کی قوت کا اظہار بھی ہے اور ایک مزید ہدف کا پورا ہونا بھی۔
حالات بتا رہے ہیں کہ نواز شریف، دھیرے دھیرے ، اپنے طے کردہ جملہ اہداف پورے کر کے رہیں گے۔فیصل آباد سے8فروری کے عام انتخابات میں شکست خوردہ رانا ثناء اللہ کا وزیر اعظم شہباز شریف کا مشیر خاص منتخب کیا جانا اور پھر چند ہفتوں کے بعد اب رانا صاحب کو بین الصوبائی رابطہ کاری کا قلمدان سونپ دینا در حقیقت اقتدار پر نواز شریف کی گرفت مضبوط ہونے کی ایک دلیل ہے۔
یوں نواز شریف کا ایک اور ہدف تو پورا ہُوا ہی ہے،مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے رانا ثناء اللہ کو شاملِ کابینہ کرکے اپنے ہاتھ مضبوط کیے ہیں کہ سابق وفاقی وزیر داخلہ اور سابق صوبائی وزیر قانون ، رانا صاحب جہاندیدہ بھی ہیں ، نہایت تجربہ کار اور پُر عزم سیاستدان بھی۔ نواز شریف اپنے اہدافی دائرے کو مزیدوسعت دینے کے متمنی ہیں۔ ہم عنقریب دیکھیں گے کہ کچھ اور بھی نواز شریف کے ساتھی وفاق اور پنجاب حکومتوں میں اکاموڈیٹ کیے جائیں گے ۔ مثال کے طور پر نواز شریف کی سوچوں کے ترجمان اور میڈیا پر چھائے سینیٹر طلال چوہدری!
نواز شریف صاحب رفتہ رفتہ اپنے متعینہ اہداف کی جانب آگے بڑھ رہے ہیں۔ کل 28مئی کو نواز شریف کے پھر سے پارٹی پریذیڈنٹ منتخب ہو جانے سے جہاں نواز شریف کا ایک اور ہدف پورا ہوجائے گا، وہیں ہماری سیاست و اقتدار کا منظر نامہ بھی بدل جائے گا۔ حالات غیر معمولی طور پر کروٹ لیں گے ۔
نون لیگ میں جوہری تبدیلیاں عمل میں آئیں گی۔ شنید ہے کہ اِن متوقع تبدیلیوں میں خواجہ سعد رفیق ، جنھوں نے 8فروری کے انتخابات میں اپنی شکست خوشدلی سے قبول کی تھی،نون لیگ کے سیکریٹری جنرل کا عہدہ سنبھالیں گے۔
جناب احسن اقبال اِس عہدے پر طویل عرصہ بہترین پارٹی خدمات انجام دینے کے بعد با مسرت سبکدوش ہو جائیں گے ۔وہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ پارٹی سیکریٹری جنرل شپ اور وفاقی وزارت کی ذمے داریوں کو ساتھ ساتھ نبھانا دشوار ہورہا ہے ۔شنید ہے کہ جناب نواز شریف کل یومِ تکبیر کے موقع پر اپنے کارکنان کے ایک بڑے جلسے سے خطاب بھی کریں گے۔یہ خطاب اُن کے نئے اہداف کا نیا اعلان اور نیا بیانیہ بھی ہو سکتا ہے۔