محسن پاکستان اور یوم تکبیر
یوم تکبیر کے حوالے سے ڈاکٹر قدیر خان کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں
اٹھائیس مئی کو کالم لکھ رہا ہوں، اس روز پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے ، اس دن کو یوم تکبیر کا نام دیا گیا ہے ۔ حکومت نے اس روز ملک گیر تعطیل کا اعلان کر دیا ہے ۔
نجی اورسرکاری ٹی وی چینل سے یوم تکبیر کے حوالے سے تہنیتی پیغام سن اور پڑھ رہا ہوں مگر مجھے افسوس کے ساتھ یہ لکھنا پڑ گیا ہے کہ ہمارے ارباب اختیار ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو شاید بھول گئے ہیں یا دانستہ ان کے ذکر سے گریزاں ہیں ۔
سرکاری اشتہارات میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اور اٹھائیس مئی 1998 کو ایٹمی دھماکا کرنے کا حکم دینے والے وزیر اعظم میاں نواز شریف اور موجودہ وزیر اعظم کی تصاویر شامل ہیں،مجھے ان کی تصاویر پر کوئی اعتراض نہیں ہے ، لیکن کیا ہی اچھا ہوتا اگر ڈاکٹر قدیرصاحب کی تصویر بھی ساتھ ہوتی، ہو سکتا ہے کہ حکومت کی کچھ مجبوریاں ہوں یا حکومتی صلاح کار بھول گئے ہوں، بہر حال جو کچھ بھی ہوا ،اس کے بارے میں ڈاکٹر قدیر خان اپنی زندگی میں یہ لا زوال شعر کہہ گئے ہیں۔
گزر تو خیرگئی ہے تیری حیات قدیر
ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے
شاید ڈاکٹر صاحب کو اپنی زندگی میں احساس ہو گیا تھا کہ پاکستانی حکمران کس قدر بے بس اور موقع پر ست ہیں کہ وہ اپنے محسنوں کو بھول ہی نہیں جاتے ہیں بلکہ وقت پڑنے پر اپنے محسنوں کی قربانی دینے سے بھی گریز نہیں کرتے اور محسن پاکستان نے اپنی زندگی میں یہ سب کچھ بھگتا ہے ۔
حتیٰ کہ جب ان کی وفات ہوئی تو اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان ، ان کے جنازے میں بھی شامل نہیں ہوئے تھے ۔مجھے یاد ہے کہ پرویز مشرف کے دور حکومت میں ڈاکٹر صاحب جس انداز میں ڈی بریفنگ کی گئی، اس پر چوہدری شجاعت حسین نے ڈاکٹر صاحب کے گھر جا کر ان سے معذرت کی تھی۔
یوم تکبیر کے حوالے سے ڈاکٹر قدیر خان کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں لیکن ہماری نوجوان نسل کو ان کی خدمات اور قربانیوں کے متعلق آگاہ رکھنا میں اپنی ذمے داری سمجھتا ہوں ۔ میرے مرحوم والد عبدالقادرحسن، ڈاکٹر صاحب سے دیوانگی کی حد تک محبت و الفت کا رشتہ رکھتے تھے اور موقع محل پر ان کی خدمات کا ذکر کرنے سے چوکتے نہیں تھے ۔
پاکستانی قوم کی محترم ترین اور عزیز ترین شخصیت ہمارے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی ہنر مندی اورملک کے لیے دلسوزی نے ہمیں دشمنوں کو برابر کی سطح پر دیکھنے کا موقع دیا ہے۔
پاکستانیوں کے پاس تو کوئی ایسا منصب نہیں جو ڈاکٹر صاحب کے شایان شان ہو، کسی بھی پاکستانی سے پوچھ لیں وہ یہی کہے گا کہ اس کے پاس ڈاکٹر صاحب کے لیے کوئی عہدہ نہیں ،صرف محبت اور عقیدت ہے۔
اس ملک اور قوم کے لیے جو کام وہ کر گئے ہیں اگر کوئی اور پاکستانی اس سے بڑا کام کر دے تب سوال پیدا ہو گا کہ ڈاکٹر صاحب کو اس ملک کی خدمت کے لیے کس لقب سے یاد کیا جائے۔ وہ محسن پاکستان تھے اور عوام کے دلوں میں وہی رہیں گے ۔ قوم کی عقیدت اور محبت ان کے لیے غیر مشروط رہی ہے۔ گو کہ چند بونے سیاستدانوں نے ان کی سادگی اور معصومیت کا سہارا لے کر ان کوسیاست میں استعمال کرنے کی کوشش بھی کی لیکن وہ کسی نہ کسی حد تک اس میدان کارزار میں اپنا دامن بچانے میں کامیاب رہے۔
میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ذوالفقار علی بھٹو سے شروع ہونے والا ایٹمی سفر ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کی ٹیم کی ایٹمی میدان میںکامیابی سے ہمکنار ہو کر میاں نواز شریف تک پہنچ گیا۔ جنھوں نے کمال جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان کی جانب سے ایٹمی دھماکے کر کے دشمن کو منہ توڑ جواب دیا ۔
یہ ایٹمی دھماکے پاکستان کی سالمیت کے لیے انتہائی ضروری تھے کہ دشمن کو ہمارے طاقت کا علم تو تھا لیکن اسے باضابطہ اطلاع دینی بھی از حد ضروری تھی۔ پاکستان نے ایٹمی ملک بن کر دشمن کو للکار دیا لیکن اس کے عزائم ہر گز جارحانہ نہیں تھے بلکہ پاکستان کی سلامتی اور بقاء کے لیے تھے ۔ جب سے پاکستان ایٹمی طاقت بنا ہے، ہمارے تمام دشمنوں کے ارادے خاک میں مل گئے ہیں۔ آج کا پاکستان ایک بڑی طاقت ہے جو اپنی حفاظت کرنا جانتا ہے۔