اینگرو پاور جن تھر کے واجبات 76ارب روپے سے متجاوز آپریشنز متاثر ہونیکا خدشہ

کمپنی نے سینٹرل پاور پرچیز ایجنسی سے 29مئی تک واجبات کی ادائیگی کا مطالبہ کردیا، کمپنی تھر کے کوئلے سے بجلی بناتی ہے


Business Reporter May 29, 2024
ایک سال میں واجبات 39.5ارب سے بڑھ کر 76ارب ہوگئے، سپلائرز اور پارٹنرز کو ادائیگیوں میں مشکلات کا سامناہے، خط فوٹو: فائل

تھر کے کوئلے سے بجلی بنانے والی کمپنی اینگرو پاور جن تھر کے بجلی کی مد میں واجبات کی مالیت 76ارب روپے سے تجاوز کرگئی، کمپنی نے سینٹرل پاور پرچیز ایجنسی سے 29مئی 2024 تک واجبات کی ادائیگی کا مطالبہ کر دیا۔

اینگرو پاور جن تھر نے سینٹرل پاور پرچیز ایجنسی کو ارسال کردہ خط میں کہا ہے کہ ایک سال کے عرصے میں کمپنی کے واجبات 39.5ارب روپے سے بڑھ کر 76ارب روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں، جس کی وجہ سے کمپنی کے مالیاتی مسائل میں اضافہ ہوا ہے اور اپنے سپلائرز اور پارٹنرز کو ادائیگیوں میں شدید مشکلات کا سامنا ہے، جس سے پاور پلانٹ کے آپریشنز متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ واجبات کی عدم ادائیگی کی وجہ سے کمپنی کی ریکوری کا تناسب جو سینٹرل پاور پرچیز ایجنسی کی جانب سے سی پی کے پراجیکٹس کے لیے 89سے 90فیصد پر برقرار رکھی گئی تھی، اب کم ہوکر 86فیصد پر آچکی ہے جبکہ رواں سال کی اب تک اوسط ریکوری کی شرح 75 فیصد ہے، واجبات کی عدم ادائیگیوں کی وجہ سے کمپنی کی اپنے قرض داروں اور سپلائرز بشمول فیول سپلائرز کو ادائیگیوں میں مشکلات کا سامنا ہے۔

اینگرو پاور جن تھر نے اپریل 2024میں بھی سینٹرل پاور پرچیز ایجنسی کو ہنگامی مکتوب میں اپنی اور سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی کی مئی 2024 میں واجب ہونے والی مالی ذمہ داریوں سے آگاہ کرتے ہوئے 42ارب روپے کی فوری ادائیگی کا مطالبہ کیا تھا، تاہم پاور کمپنیوں کو 350ارب روپے کی مجموعی ادائیگیوں میں سے اینگرو پار جن تھر کو 24مئی 2024تک صرف 17ارب روپے کی ادائیگیاں کی گئیں جو اینگرو پاور جن تھر اور سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی کے واجبات کی ادائیگی کیلیے ناکافی ہیں۔

اینگروپاورجن تھر نے سینٹرل پاور پرچیز ایجنسی سے مطالبہ کیا ہے کہ 29مئی 2024 تک واجبات کی ادائیگی کو یقینی بنایا جائے اور 75ارب روپے کے پچھلے واجبات کے ساتھ 15ارب روپے کی اضافی ادائیگیاں کی جائیں تاکہ کمپنی اپنی مالی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے اپنے آپریشنز جاری رکھ سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں