مظلوم فلسطینیوں کا نام لینا جرم کیوں

پاکستان اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہے، ہمارے ملک کو اسلام کے قلعے کے نام سے جانا اور پہچاناجاتا ہے۔


[email protected]

"حکمرانو! اِن لاشوں اور گوشت کے ٹکڑوں کو دیکھ کر تمہیں غصہ کیوں نہیں آتا؟ تم کیسے سوتے ہو؟ تم کیسے کھاتے ہو؟ تم کیسے پیتے ہو؟ تم کیسے زندگی گزارتے ہو؟ تم کب جاگو گے؟ وہ بے چارے فریاد کرر ہے ہیں، بُلا رہے ہیں تمہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس مخلص گروہ کے لیے کوئی اٹھتا نہیں ہے"۔

کرب و درد اور غم و اضطراب میں ڈوبے ہوئے یہ الفاظ جماعت اسلامی کے سابق سینیٹر مشتاق احمد خان کے ہیں، جوغزہ کے مظلوم مسلمانوں کے لیے کبھی اسلام آباد تو کبھی پشاور میں دھرنے دیتے، غزہ کیمپ لگاتے، احتجاج کرتے ہیں اور حکمرانوں سمیت پوری قوم کو جھنجھوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر بجائے حمایت کرنے کے اُن کے خلاف مقدمات درج ہو رہے ہیں، کبھی اُن کے کیمپ پر تیز رفتار گاڑی چڑھ دوڑتی ہے، کبھی پولیس انھیں دھمکیاں دیتی ہے۔ سینیٹر مشتاق احمد اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ یہ سلوک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہو رہا ہے۔

پاکستان اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہے، ہمارے ملک کو اسلام کے قلعے کے نام سے جانا اور پہچاناجاتا ہے۔ پاکستانی قوم کئی دہائیوں سے مہنگائی کی چکی میں پس رہی ہے لیکن اس قوم نے جوہری پروگرام اور میزائل ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا تاکہ حکمران امت مسلمہ کی امیدوں پر پورا اتریں۔ مگر افسوس، صد افسوس کہ ہمارے حکمرانوں نے گزشتہ آٹھ ماہ سے اسرائیلی جبرو استبداد اور ظلم بربریت کے شکار فلسطینیوں کے زخموں پر پھاہا تو کیا رکھنا تھا، الٹا فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے والوں کو زخم دے رہے ہیں۔ کیا مسئلہ فلسطین کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی میں کوئی ابہام ہے؟ یا ابہام پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے؟

آئیے مسئلہ فلسطین پر ہماری ریاستی پالیسی پر ایک نظر ڈالتے ہیں، وطن عزیز پاکستان کے بانیان خصوصاً بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح اور مصور پاکستان علامہ محمد اقبال کے وژن کی بدولت برصغیر کے مسلمانوں کو آزادی نصیب ہوئی۔ دونوں شخصیات صرف برصغیر ہی نہیں دنیا بھر کے مسلمانوں اور اسلام کو درپیش چیلنجوں پر نظر رکھتے تھے۔

اُن کی اس دور میں عالمی ایشوز پر جو رائے سامنے آئی وہ آج بھی عین حق اور سچ ثابت ہو رہی ہے۔ ضروری تھاکہ ہم اہل پاکستان عمومی زندگی اور پاکستان کی پالیسیوں کے حوالے سے اِن بانیان کی سوچ اورنقطہ نظر کو اپنے لیے ایک لائحہ عمل کے طور پر دیکھتے۔ اسی طرح خارجہ معاملات کے بارے میں بھی اُن کے وژن اور خیالات اہل پاکستان کے لیے قولِ فیصَل کی حیثیت رکھتے ہیں۔

حکیم الامت علامہ اقبال نے اپنے انتقال سے صرف ایک سال پہلے ایک برطانوی رہنما کو فلسطینی مسلمانوں کے حق میں خط لکھا اور برطانوی حکومت پر زور دیا کہ ''عربوں سے ناانصافی نہ کی جائے''۔ علامہ اقبال کا یہ خط اعلان بالفور کے بعد فلسطین پر صیہونی قبضے کی کوششوں اور وہاں پر ایک ناجائز اسرائیلی ریاست کے قیام سے پیدا شدہ صورت حال کے حوالے سے تھا۔ بعد ازاں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس جو کہ لکھنو میں 15 اکتوبر 1937 کو منعقد ہوا تھا' اس میں قائد اعظم نے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے برطانوی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔

"مسئلہ فلسطین کا تمام مسلمانوں پر گہرا اثر پڑا ہے۔ حکومت برطانیہ کی پالیسی رہی ہے کہ اس نے شروع سے لے کر اب تک مسلمانوں کو دھوکا دیا اور عربوں کی اعتبار کر لینے والی فطرت سے پورا پورا فائدہ اٹھایا ہے۔ برطانیہ نے عربوں کو مکمل آزادی دینے کے حوالے سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے بلکہ ہوا یہ کہ برطانیہ نے جھوٹے وعدے کر کے خود فائدہ اٹھایا اور بدنام زمانہ اعلان بالفور کے ذریعے خود کو ان پر مسلط کر دیا اور یہودیوں کے لیے قومی وطن بنانے کی پالیسی بنانے کے بعد برطانیہ اب فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرنا چاہتا ہے۔

رائل کمیشن کی سفارشات نے اس الم ناک داستان کا آخری باب لکھ دیا ہے۔ اگر یہ نافذ کر دیا گیا تو عربوں کی اپنے آزاد وطن کی تمناؤں اور آرزوؤں کا خون ہو جائے گا۔ اب ہمیں یہ کہا جا رہا ہے کہ اصل واقعات (زمینی حقائق) پر غور کریں لیکن سوال یہ ہے کہ یہ حالات پیدا کس نے کیے؟ میں حکومت برطانیہ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر اس نے مسئلہ فلسطین کا تدبر، جرات اور دلیری وانصاف کے ساتھ فیصلہ نہ کیا تو یہ برطانیہ کی تاریخ میں ایک تازہ انقلاب کا دروازہ کھول دے گا۔ مسلمانان ہند عربوں کے اس منصفانہ اور جرات مند جہاد میں ان کی ہر ممکن مدد کریں گے"۔

پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد بلا تفریق و امتیاز ہر حکومت نے فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ اگرچہ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ پاکستان کے عوام کے جذبات اس قدر شدید ہیں کہ کوئی حکومت اب تک ان جذبات کی ترجمانی کا حق ادا نہیں کر سکی۔ لیکن یہ اپنی جگہ سچ ہے کہ کسی بھی حکومت نے تمام تر دباؤ کے باوجود اسرائیل کی ناجائز ریاست کو آج تک تسلیم نہیں کیا اور پاکستانی اپنے قائد کی طرح آج بھی اسرائیل کو ناجائز ریاست سمجھتے ہیں۔

اپنے اس اصولی موقف کی پاکستان کو براہ راست اور بالواسطہ دونوں صورتوں میں بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پاکستانی قوم جن امور پر سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں ان میں سے ایک مسئلہ فلسطین اور قبلہ اول کی یہودی تسلط سے آزادی ہے۔ اور حکومتوں کا اس پر ڈٹ جانا اہل پاکستان کے جذبات کی ترجمانی ہے لیکن جب میں دیکھتا ہوں کہ غزہ کے مظلوم مسلمانوں کے حق میں مظاہرہ کرنے والوں پر پولیس لاٹھی چارج کرتی ہے، احتجاج کرنے والوں کو گرفتار کیا جاتا ہے۔

غزہ کیمپ پر ایک تیز رفتار گاڑی چڑھ دوڑتی ہے، کیمپ میں شریک دو شہری شہید اور کئی زخمی ہو جاتے ہیں مگر ایف آئی آر میں ملزم کی مکمل شناخت بھی سامنے نہیں لائی جاتی اور جب میں سنتا ہوں کہ مولانا فضل الرحمن کو حماس کے سربراہ سے ملاقات اور ان کے لیے آواز اٹھانے پر بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کی ناراضگی کا پیغام مل جاتا ہے تو میرا دل خون کے آنسو روتا ہے، ورطہ حیرت میں ڈوب کر سوچتا ہوں کہ یہ کیا ہو رہا ہے بانیان پاکستان نے مظلوم فلسطینیوں کا ساتھ دیا اور گزشتہ آٹھ دہائیوں سے قوم انھی کی سوچ اور فکر کو اپنے سینے سے لگا کر فلسطین کی آزادی اور ارض مقدس کے مظلوم باسیوں کا ساتھ دے رہی ہے۔

آج بھی پوری قوم کے قدم بانیان پاکستان کے نقش پا پر پوری استقامت کے ساتھ موجود ہیں لیکن حکومت کی خارجہ پالیسی ڈگمگاتی ہوئی نظر آ رہی ہے' ٹھوس اور دوٹوک موقف سامنے نہیں آرہا۔ جس وقت امریکا اور یورپ سمیت پوری دنیا فلسطین کے مظلوموں کے ساتھ کھڑی ہے، ہم فلسطینیوں کے لیے احتجاج کرنے والوں کے ساتھ سختی سے نبٹنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس وقت تین یورپی ممالک ناروے، آئرلینڈ اور اسپین نے خوف کے بت توڑ کر فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرلیا، ہماری طرف سے خاموشی کیوں ہے؟ اس صورتحال نے مجھے اور دیگر پاکستانیوں کو شدید اضطراب میں مبتلا کر دیا ہے، حکومت کو ایک لمحہ ضایع کیے بغیرخارجہ پالیسی کے حوالے سے حقائق سے قوم کو آگاہ کرنا چاہیے،کہیں ایسا نہ ہو کہ بہت دیر ہوجائے کیونکہ قوم مزید ابہام میں نہیں رہ سکتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں