بُک شیلف
ادبی کتابوں کا دلچسپ مجموعہ
پیام نو
شاعر: محمد شعیب لودھی، قیمت:1200روپے، صفحات:176
ناشر: بک ہوم، مزنگ روڈ ، لاہور(03014208780)
شاعری ادب کی سب سے خوبصورت صنف ہے جس میں شاعر اپنے دل کی بات بڑے دلفریب انداز میں دوسروں تک پہنچاتا ہے، چاہے اس کا وہ پیغام مسکراہٹوں سے لبریز ہو یا غم و اندوہ سے بھرا ہوا ، شعر میں ہونے کی وجہ سے دل کو چھو جاتا ہے ۔ زیرتبصرہ کتاب میں شاعر نے اپنے جذبات دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ کتاب میں حمد و نعت کے علاوہ مختلف موضوعات پر شعر پیش کئے گئے ہیں ۔ سیاسی رخ کو بھی موضوع بنایا گیا ہے جیسے اقوام متحدہ کے عنوان سے کہتے ہیں
واہ بنا ڈالی وہ جال سارے یورپ والوں نے
جس کے ذریعے پھانستے ہیں وہ حلال مرغ بان
دانہ دنکا ڈالتے ہیں پیار سے پچکار کے
او شکار معلوم ہے ؟ تیری قیمتی ہے کتنی جان
جو شکار آئے نہ ہاتھ حال اس کا وہ کرتے ہیں
باندھ کر پر کاٹتے ہیں پھر مزے سے کھاتے ہیں ران
اسی طرح اسرائیل اور مسلم کے عنوان سے دو نظمیں ہیں جن میں اسرائیل کے شر اور مسلمانوں کی غفلت کا رونا رویا گیا ہے ۔ شاعر نے زندگی کے ہر پہلو کو نمایاں کرنے کی کو شش کی ہے، وہ جو محسوس کرتے ہیں بلاکم کاست بیان کر دیتے ہیں ، ان کی یہی سادگی ان کی شاعری میں نمایاں ہے ۔ ان کی کاوش ادب میں اچھا اضافہ ہے۔ مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
لوحِ اظہار (ادبی تنقیدی جائزے اور رپورتاژ)
مصنف: سید شبیر احمد، قیمت: 1200 روپے
ناشر:مثال پبلشرز، فیصل آباد۔ رابطہ: 03006668284
جناب سید شبیر احمد کھڑی، میرپور(آزادکشمیر) کے ایک روحانی، علمی و ادبی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یونائیٹڈ بینک میں مختلف اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز رہے۔ حساب کتاب کا کھیل ان کے اندر موجود علم و ادب سے محبت کو ماند نہ کرسکا۔ اس کی شمع فروزاں رہی۔ پڑھتے رہے اور لکھتے رہے۔ بینک سے ریٹائرمنٹ ہوئی تو سیدھے حج کے سفر پر روانہ ہوئے۔
واپسی پر ' جب مسجد نبوی کے مینار نظر آئے' کے عنوان سے سفرنامہ حج لکھا۔ صرف یہی نہیں، مختلف جگہوں پر مضامین بھی لکھتے رہے جو ' مشاہدات و تاثرات' کے عنوان سے مجموعہ بنے اور شائع ہوئے۔ گزشتہ برس پنجابی کلاسیکی صوفی اور شعرا پر تحقیقی کتاب ' مکتب عشق' شائع ہوئی۔
زیر نظر کتاب' لوح اظہار' دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ کم و بیش دو درجن کتابوں کے ادبی تنقیدی جائزوں پر مشتمل ہے۔ ان میں 'سب رنگ ڈائجسٹ' میں شائع ہونے والی عالمی کہانیوں کا مجموعہ 'سب رنگ کہانیاں' ، کرشن چندر کا ناول' میری یادوں کے چنار'، ڈاکٹر امجد ثاقب کی 'چار آدمی'، شاہد صدیقی کی' پوٹھوہار۔۔۔ خطہ دل ربا' ، ماہ پارہ صفدر کی' میرا زمانہ میری کہانی'، سجاد جہانیاں کی ' ادھوری کہانیاں'، ام المنان طاہر کی 'کیمپ کمانڈر دتیال'، علی عدالت کا پہاڑی زبان میں لکھا ناول 'جاسوس'، یاسر جواد کی ' کتاب کہانی'، حنا جاوید کا ناول' ہری یوپیا' اور ڈاکٹر حسن منظر کی ' گزرے دن' سمیت متعدد کتابوں کے جائزے شامل ہیں۔ ان کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ یہ سب جائزے خشک مضامین نہیں ہیں، ایسے دلچسپ اور معلومات افروز جائزے کم ہی پڑھنے کو ملتے ہیں۔
شاہ صاحب مختلف علمی و ادبی سرگرمیوں کی خاطر برطانیہ بھی گئے، کتاب کے دوسرے حصے میں ان کا احوال ہے۔ مثلاً وہ ولیم شیکسپیئر کے آبائی گھر گئے، وہاں ایک دن گزارا۔ انگریزی کلاسیک ناول نگار برونٹے سسٹرز کے گاؤں جا پہنچے، وہاں ایک دوپہر گزاری اور پھر ان کا نہایت دلچسپ احوال بیان کیا۔ اسی طرح مصنف مختلف ادبی سرگرمیوں میں شریک ہوتے رہے۔ وہاں جو کچھ پڑھا، سنا اور دیکھا، سب اس حصے میں شامل کر دیا۔
'لوح اظہار' ایسی کتابیں ہمارے معاشرے میں زندگی کی علامت ہوتی ہیں کیونکہ ان میں ادب اور ادیب زیر بحث آتے ہیں، ان میں کتابوں کے بارے میں باتیں ہوتی ہیں۔ اپنے گھر کے کتب خانے میں یہ کتابیں رکھیے، اپنی نسلوں کو زندگی اور خوب صورتی عطا کیجیے۔
''میں بھناں دلی دے کنگرے،،
(بھگت سنگھ بارے ایک ناول)
ناول نگار: مستنصر حُسین تارڑ، ناشر: سنگ میل پبلیکشنز، لاہور
یہ ایک پنجابی میں لکھا گیا ناول ہے یہ ناول اردو میں ہوتا تو شائد میں وہ لطف نہ پاتا جو پنجابی میں پڑھتے ہوئے پایا کہ اس کے تمام کردار پنجابی تھے۔ میں اس کا تعارف صرف اس لیے اردو میں لکھ رہا ہوں کہ جہاں یہ اپنی مٹی سے محبت میں ڈوبی ایک داستان ہے وہیں یہ ناول اپنے تاریخی حوالوں کی وجہ سے ایک تاریخی دستاویز ہے۔ دہلی (برصغیر) پر انگریز کی حکومت تھی اور پنجاب دھرتی سے بھگت سنگھ نامی ایک کامریڈ نوجوان اٹھا جس نے انگریز غلامی کو اس دلیری سے للکارا کہ انگریز سرکار کی سو سالہ حکومت کی تاریخ میں وہ للکار پہلی دراڑ ثابت ہوئی۔
جلیانوالہ باغ اجڑ چکا تھا اور ایسے اجڑا تھا جیسے کبھی کوئی باغ پہلے نہ اجڑا ہوگا۔ انگریز نے سینکڑوں کے حساب سے انسانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا تھا۔
بھگت سنگھ بارہ سال کا ہے اور اس کا چاچا اسے نیند سے اٹھاتا ہے۔
اٹھ بھگتیا ہم نے امبرسر جانا ہے۔
پر کیوں۔۔۔ دربار صاحب متھا ٹیکنے جانا ہے؟
نیئں بھگتیا! متھا ٹیکنا اے پر دربار صاحب نئیں۔ اس جلیانوالہ باغ کی لہو میں ڈوبی رت رنگی مٹی نوں سجدہ کرنا اے۔ اٹھ میرے پتر۔
یوں بھگت کو بغاوت کی گڑھتی چھوٹی عمر سے گھر سے ہی ملی تھی۔
بھگت سنگھ سو برس بعد ایک دن کے لیے اپنے گاؤں اور لاہور واپس آتا ہے۔ وہ تمام جگہیں دیکھنے کی خواہش میں جہاں جہاں وہ انگریزوں کے خلاف بغاوت کے لیے لڑا بھاگا اور ان پر حملے کیے۔
جڑانوالہ کے قریب جب وہ اپنے گاؤں میں داخل ہوتا ہے تو دیکھتا ہے چند چھوٹے بچے ایک کتے کے بچے کے گلے میں کپڑے کی لیر ڈالے اسے گاؤں میں گھسیٹتے پھرتے ہیں اور وہ کتورہ بچوں کے اس کھیل سے ادھ موا ہواان کے پیچھے گلیوں میں گھسٹتا چلا جا رہا ہے۔
بھگت کو اس کتورے پر ترس آتا ہے اور وہ بچوں کو دبکا کر اس کتورے کے گلے سے کپڑے کا پھندا نکال دیتا ہے۔ وہ کتورہ بھگت سنگھ کو اپنا محسن جانتے ہوئے اس سے کہتا ہے۔
بچے میرے گلے میں لیر ڈال کر گلی گلی دھروندے پھر رہے تھے تم نے مجھے اس پھندے سے نجات دلائی۔ ویسے بھی تم مجھے بھاگ والے لگتے ہو ۔ میں تو اور پھاہ برداشت نہیں کر سکتا یہ بچے دوبارہ میرے گلے میں لیر کا پھاہ ڈال کر مار دیں گے۔ مجھے اپنے ساتھ لے چل۔
کہتے ہیں جس نے لاہور نہیں دیکھا او جمیا نہیں۔
پر جیہڑا لہور نہیں مریا، او وی مریا ای نہیں
اس شہر نے بھگت کے اندر انگریزوں کی غلامی کے خلاف جو نفرت بھری اسی نے اس انقلاب کو آواز دی تھی جس نے تخت دہلی کے کنگرے شکر وانگوں بھور دیے تھے۔
بریڈ لے ہال لاہور ۔
چل ڈب کھڑبیا مطلب کتورا بریڈ لے ہال چلیے۔
بریڈلے ہال جہاں انگریز سرکار کے خلاف لوگ، مولانا ظفر علی خان، عطا اللہ شاہ بخاری کی تقریریں سننے کو اکٹھے ہوتے تھے۔ اسی ہال میں جواہر لال نہرو، سیف الدین کچلو، میاں افتخار الدین، ڈاکٹر محمد اشرف، ہرن جی ایسے لوگوں نے انگریز سرکار کے احکامات کو جوتی کی نوک پر رکھتے دیکھا۔
چل ڈب کھڑبیا (کتورا)! چل چلیں سورج غروب ہوتے ہی میں نے ڈوب جانا ہے ابھی پورا لاہور پڑا ہے۔
30 اکتوبر 1928 سائمن کمیشن کے ممبرز لاہور اکٹھے ہوئے۔ لہوریوں نے اس کمیشن کی بیٹھک کے باہر ایک بہت بڑے اکٹھ کا فیصلہ کیا۔ جس کی صدارت ڈاکٹر محمد عالم نے کی۔ پنڈت موہن، لالہ لاجپت رائے، مولانا ظفر علی خان، مولانا عبدالقادر، رائے زادہ ہنس راج گوپی چند اور عطاء اللہ شاہ بخاری جیسے شعلہ بیاں مقرروں نے اپنی تقریروں سے لہوریوں میں انگریز سرکار کی غلامی کے خلاف نفرت میں مزید آگ بھڑکا دی۔ لہور کے انگریز پولیس افسر سکاٹ جس کو لہوری نفرت سے چٹا باندر یا سور سے تشبیہہ دیتے تھے۔ اس نے پولیس کو اس مجمعے پر لاٹھی چارج کے ساتھ گولی چلانے کا بھی حکم دیا۔ لالہ لاجپت رائے پر اتنا لاٹھی چارج ہوا کہ وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوگئے۔
بھگت سنگھ اسی مجمعے میں شامل تھا۔ اس نے اس موت اور ظلم کا جواب دینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
،،تخت دہلی دے کنگرے شکر وانگوں بھورن دا ویلا آگیا سی،،
کتورا اور بھگت سنگھ چلتے چلتے وہاں سے پولیس لائن کے سامنے تھڑے پر آبیٹھے تھے۔
کتوریا۔۔۔ بھگت سنگھ نے پہلی بار اپنے گلے میں کس کے بندھے گلو بند کو ڈھیلا کیا اور اتار دیا۔ دیکھ کتوریا میرے گلے کے گرد لال رنگ کی لاس دیکھ۔ یہ لاس میرا ہار ہے، مجھے اس پر بڑا مان ہے۔ یہ لاس تب پڑی پڑی تھی جب مجھے پھاہے لگایا گیا تھا۔ میری رام کہانی یہیں اس کالج اور پولیس سٹیشن سے شروع ہوئی جو آخر میں مجھے پھانسی کے تختے تک لے گئی۔ اس جگہ میں نے موت کی جھانجریں پہنی تھیں۔ کتوریا سن رہا نا۔
گوالمنڈی کی سوہل سنگھ سٹریٹ میں ایک بیٹھک میں بھگت سنگھ، سکھ دیو سنگھ سنہا،گھوش، چندر شیکھر آزاد، انھوں نے لالہ لاجپت رائے کے قاتل سکاٹ کو مارنے کا پلان بنایا۔
17 دسمبر کا دن اسکاٹ کے قتل کے لیے منتخب ہوا۔
بھگت سنگھ نے لہور شہر کے گلی محلوں میں لگانے کے لیے پوسٹر بنائے جو اسکاٹ کے قتل کے بعد لگائے جانے تھے۔
ان پر درج تھا۔
'' اسکاٹ مرگیا ہے'' انقلاب زندہ باد
17 دسمبر 1928. راج گرو, آزاد، بھگت سنگھ اور جے گوپال پولیس لائن کی طرف چلے۔
شام 4 بجے سپرنٹنڈنٹ پولیس سانڈرس اپنے گارڈ کے ساتھ پولیس لائن سے باہر آیا۔
کتوریا ہم سے بھول ہوگئی ہم پہچان نہ پائے کہ یہ اسکاٹ نہیں ہے۔ کوئی اور گورا افسر ہے۔
راج گوپال نے اشارہ کیا اور راج گرو اپنا ریوالور نکال کر سانڈرس کی طرف چل پڑا۔ نزدیک جاتے ہی راج گرو کے ریوالور سے گولی نکلی اور گولی سیدھی سانڈرس کے کلیجے کے پار اتر گئی۔
کتوریا ! میں بھاگتا ہوا گرے ہوئے سانڈرس کے اوپر پہنچا اور اپنے آٹو میٹک ہپستول کی ساری گولیاں اس کے جسم میں اتار دیں۔
کتوریا مجھے اس وقت لگ رہا تھا یہ گولیاں سانڈرس کے جسم کے اندر نہیں بلکہ پوری انگریز سرکار کے جسم کے اندر اتار رہا ہوں۔
کتوریا! سانڈرس کو مارنے کے بعد ہر طرف ہماری دھوم مچ گئی تھی۔ انگریز سرکار ہر طرف ہمیں کتوں کی طرح سونگھتی پھرتی تھی۔ ہمارے حوصلے بھی بڑھ گئے تھے۔
اب ہم پارلمنٹ میں گھس کر پارلیمنٹ پر بم پھینکیں گے مزید اس دفعہ ہم وہاں سے بھاگیں گے نہیں بلکہ اپنے ہتھیار پھینک کر گرفتاری دیں گے۔
اس کے ساتھیوں نے اس کے گرفتاری دینے کے لائحہ عمل پر اس کے ساتھ کافی بحث کی لیکن بھگت اپنی بات پر اڑا رہا۔
ہم کوئی جرم نہیں کر رہے بلکہ اپنی آزادی کے لیے یہ سب کر رہے ہیں۔ ہم گرفتاری کے بعد اپنا مقدمہ لڑیں گے تاکہ اس مقدمے کی دھوم ہر طرف مچ جائے اور تمام لوگ آزادی کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔
پارلمنٹ میں ہر طرف افراتفری مچی ہوئی تھی۔ کوئی ممبر بھاگ رہا تھا تو کوئی میزوں کے نیچے چھپ رہا تھا۔
بھگت نے نا صرف پارلیمنٹ کے اندر بم پھینکے بلکہ اپنے پسٹل سے ہوائی فائر کرتے ہوئے نعرے لگا رہا تھا اور پمفلٹ پھینک رہا تھا جس پر درج تھا۔
''انقلاب زندہ باد'' ڈاؤن ود برٹش امپریلزم۔
اس ساری افراتفری میں تین لیڈر ایسے بھی تھے جو یہ ساری کاروائی اپنی کرسیوں پر بیٹھے سکون سے دیکھتے رہے۔
یہ تین موتی لال نہرو، رام منوہر مالویا اور محمد علی جناح تھے۔
سارجنٹ ایم ڈی ٹیری نے بھگت اور دت کو ہتھکڑیاں لگائی اور کال کوٹھڑی لے گئے۔ اسی دن سے ان کی پھانسی کے دن شروع ہوگئے تھے۔
''قبراں اڈیکدیاں،جیویں پتراں نوں ماواں''
کتوریا تمھے میرے یارا تمھے پتا ہے جب مجھے پھانسی کی سزا بول گئی تو ہندوستان کے بڑے نامی گرامی لیڈر تھے جنھوں نے چپ سادھ لی تھی۔ گاندھی تو ہمارے خلاف تھا۔آزادی کے لیے ہتھیار اٹھانا وہ گناہ سمجھتا تھا۔
کتوریا اگر آج گاندھی مجھے ملے تو مین اس سے دل کا تمام ساڑ نکالتا اور اسے کہتا کہ باپو جی اگر آپ قیامت کے دن تک بھی ان انگریزوں کے آگے سر جھکائے رکھتے کبھی آزاد نہیں ہوتے۔ یہ تو سبھاش چندر بوس، شاہنواز، اور میرے جیسے سرپھروں کا دبکا تھا جنھوں نے انگریزوں کی ناک سے دھواں نکال دیا تھا۔
اچھا کتوریا ایک لیڈر ایسا بھی تھا جس نے بڑی بے خوفی اور دلیری کے ساتھ ہمارا ذکر کیا وہ محمد علی جناح تھا۔ اس نے پارلیمنٹ میں کھڑا ہوکر ہمارے حق میں دلائل دیے بھرپور تقریر کی تھی۔ ان کے ساتھ بھی بہت بڑا دھوکا کیا گیا۔آزاد ہونے کے بعد ان کی اس تقریر کو دونوں ملکوں کی قوموں نے نہ اپنے نصاب میں شامل کیا نہ ہی تاریخ میں اس تقریر کا کوئی حوالہ زندہ رکھا۔
پھانسی کے دن قریب آنے پر بھگت کی کچھ مانگیں پوری کی گئی جس کا اس جیلر کو لکھے گئے، خط میں خواہش کا اظہار کیا تھا۔
میں کوئی مجرم نہیں ہوں۔ سیاسی قیدی ہوں اس لیے مجھے شیونگ کٹ، صابن، دیسی گھی اور چاول حاصل کرنے کا قانونی حق ہے۔ لیکن ان سب چیزوں سے بڑھ کر مجھے بہت ساری کتابیں چاہیے۔ دنیا کے ہر موضوع کی کتابیں۔ ہر فلسفے بارے تاریخ اکنامکس پولیٹیکل سائنس شاعری ڈرامہ فکشن بس یہی میری مانگ ہے۔
وارڈن نے پھانسی کی اطلاع دینے کے لیے بھگت کو اپنے دفتر نہیں بلایا بلکہ کسی مجرم کی طرح ہاتھ باندھے اس کی کوٹھری کے آگے آ کھڑا ہوا۔
مجھے دوش نہ دینا سردار ۔۔۔۔
میرے بس میں ہوتا تو تمھاری جگہ میں خود پھانسی چڑھ جاتا۔ تمھاری آخری ملاقات آ چکی ہے۔
پھانسی کے پھندے پر کھڑے جیل کا ایک اہلکار چرت سنگھ، بھگت کے پاس آیا اور بولا۔۔۔۔
ُُپتر ابھی تو گوروبانی کے اشلوک پڑھ لو ۔۔۔
بھگت بولا چاچا اب تو یہ کام میں بالکل بھی نہیں کروں گا۔ لوگ کہیں گے بھگت نے موت کے ڈر سے گوروبانی پڑھی۔
پہلے بھگت سنگھ پھر سکھدیو سنگھ، پھر راج گرو نے پھانسی کے پھندوں کو چوما۔
بھگت سنگھ، راج گرو اور سکھدیو کے مردہ جسم پھانسی کے پھندے پر یوں لٹک رہے تھے جیسے لاہور کے تخت پر براجمان ہوں۔
سینٹرل جیل لاہور کے باہر ایک ہجوم تھا جو انقلاب زندہ باد کے نعروں سے گونج رہا تھا۔ مجمع ان تینوں کی لاشیں وصول کرنے کے لیے منہ زور ہو رہا تھا۔
اس مجمعے سے بچنے کے لیے جیلر نے تینوں کی لاشیں قیدیوں کی وین میں رکھ کر قصور دریائے بیاس پر لے جانے کو اپنے اہلکاروں کو حکم دیا اور ساتھ میں ان تینوں کی لاشیں ٹکڑے ٹکڑے کر کے دریا برد کرنے کا حکم دیا۔
جیل اہلکار تینوں کی لاشیں لے کر دریائے بیاس قصور کے کنارے پہنچے۔ لاشوں کے کئی ٹکڑے کیے مگر اسی اثنا میں ہجوم ان کے سر پر آ پہنچا ۔
راوی کنارے تینوں کی چتا کی راکھ مٹھی بھر کر راوی کے پانیوں کے حوالے کی گئی۔
بھگت اور اس کے دوستوں نے تخت دلی کے کنگرے شکر وانگوں بھور دیے تھے۔