پاکستانی پاسپورٹ اتنا کمزور کیوں
ہم چونکہ اپنے اعمال و افعال کی ذمے داری نہیں لیتے، اس لیے ملک کو موردِ الز ام ٹھہرانا ہمارا وطیرہ بن گیا ہے
ہم پاکستانی بھی ایک زبردست جذباتی قوم ہیں،اپنے ہی ملک کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں۔آئے روز اپنے ملک پر کوئی نہ کوئی پھبتی کستے رہتے ہیں۔ گلہ کرتے ہوئے،شکایت کرتے ہوئے کبھی اس کا احاطہ نہیں کرتے کہ جس معاملے کو لے کر پھبتی کسی جا رہی ہے ، کیونکر ہوا،کس نے کیا،کیسے اسے ٹھیک کیاجا سکتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس میں ہمارا اپنا کتنا حصہ ہے۔
ایک گروپ ایک پوسٹ شیئر کرتا ہے اور پھر یہ پوسٹ ایک کے بعد دوسرے گروپ کے ذریعے گردش کرتی رہتی ہے۔چند دنوں سے ایسی ہی ایک پوسٹ گردش کر رہی ہے کہ پاکستان کا پاسپورٹ دنیا کے کم ترین حیثیت رکھنے والے پاسپورٹوں میں سے ایک ہو گیا ہے۔
ایسی پوسٹوں کا مقصد اصلاح اور خیر نہیں بلکہ اپنے ملک پاکستان پر پھبتی کسنا ، اسے برا بھلا کہنا اور بدنام کرنا ہوتا ہے۔یہ کرتے ہوئے ہمیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ خدا نخواستہ ملک نہ رہے تو بے وطن لوگوں کا کیا حال ہوتا ہے یا دوسروں کے زیرِ نگین ہونے سے کس ذلالت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ہم چونکہ اپنے اعمال و افعال کی ذمے داری نہیں لیتے، اس لیے ملک کو موردِ الز ام ٹھہرانا ہمارا وطیرہ بن گیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ہمارا پاسپورٹ پچھلی ایک دہائی سے کم ترین حیثیت والے پاسپورٹوں میں شمار ہو رہا ہے۔اس میں کوئی بہتری نہیں آئی۔جناب عمران خان صاحب نے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد اس صورتحال کا نوٹس لیا تھا لیکن ان کے اور بہت سے نوٹسوں کی طرح یہ نوٹس بھی رائیگاں گیا۔
بانی پی ٹی آئی نے کشمیر ہائی وے کے بالکل ساتھ گولڑہ موڑ پر بننے والے ٹاور اپارٹمنٹس کے سلسلے میں پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے ٹاور سائٹ کا دورہ کیا اور ہدایت دی کہ اسے جلد از جلد مکمل کیا جائے۔وزیرِ اعظم کی واضح ہدایت کے باوجود کوئی پیش رفت نہ ہوئی بلکہ وہاں لگی کرینیں بھی کچھ عرصے بعد ہٹا لی گئیں۔عمران خان اپنی ہر تقریر، پریس کانفرنس اور انٹرویو میں پاکستان کو ایسا ملک قرار دیتے تھے، جس میں ہر طرف کرپشن ہی کرپشن ہے۔
پاکستان کے پاسپورٹ کی بین الاقوامی رینکنگ یو کے کی ایک فرم نے 2023کے لیے جاری کی ہے۔اس فرم کی رینکنگ کو ساری دنیا میں مانا جاتا ہے ۔یہ رینکنگ اس بات کا جائزہ لے کر جاری کی جاتی ہے کہ کسی ملک میں کیا حالات ہیں۔امن و امان کی صورتحال کیسی ہے۔ملک کا نظام جمہوری ہے یا نہیں، اس ملک کے دوسرے ممالک کے ساتھ کیسے تعلقات ہیں، یہ ملک بین الاقوامی میدان میں کتنی عزت کا حامل ہے۔یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ اس ملک کے باشندے بیرونِ ملک کتنا سفر کرتے ہیں۔سفر کرتے ہوئے ان کے رویے کیا ہوتے ہیں۔عادات و اطوار کیسی ہیں۔
کیا یہ لوگ بیرونِ ملک پہنچنے کے بعد ویزے کی میعاد کے دوران ہی واپس اپنے ملک چلے جاتے ہیں یا غیر قانونی طور پر اوور سٹے overstay کرنے کے عادی ہیں۔ کیا اس ملک کے باشندے اپنے ملک میں رہنے پر خوش ہیں یا پھر یہ ملک سے بھاگنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ لوگوں کی اکثریت کا تعلیمی اور پروفیشنل معیار کیا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس پاسپورٹ پر دنیا کے کتنے ممالک میں ویزا لیے بغیر سفر کیا جا سکتا ہے۔یہ آخری فیکٹر باقی تمام فیکٹرز پر بھاری ہوتا ہے۔
پاکستان سے نیچے صرف تین ممالک ہیں۔ افغانستان،شام اور عراق،یہ تینوں ممالک بیرونی جارحیت اور خانہ جنگی کی لپیٹ میں آ کر تباہی و بربادی سے دوچار ہو چکے ہیں۔افغانستان کی کم ترین رینکنگ کی وجہ طالبان حکومت اور اس کی رجعت پسندی پالیساں ہیں، اسی لیے اقوامِ عالم نے طالبان کی حکومت کو تسلیم ہی نہیں کیا،اس لیے افغانستان کا پاسپورٹ دنیا میں چلتا ہی نہیں۔اگر کسی وقت افغانستان کی حکومت کو دنیا کے اکثر ممالک نے تسلیم کر لیا تو افغان پاسپورٹ کی رینکنگ بہتر ہو سکتی ہے۔
پاکستان کے پاسپورٹ پر ہم دنیا کے 32ممالک کا بغیر ویزا سفر کر سکتے ہیں، ان میں سے زیادہ تر افریقی ممالک اور چند چھوٹے جزائر ممالک ہیں۔پاکستانی پاسپورٹ کی رینکنگ میں یہ تنزلی پچھلی چار دہائیوں میں ہوئی ہے۔1984سے پہلے یورپین یونین کے اکثر ممالک میں پاکستانیوں کو ہوائی اڈے پر اترتے ہی ویزا مل جاتا تھا لیکن اب ان ممالک کے ویزے کا حصول بہت ہی مشکل ہو چکا ہے۔میں نے خود 80کی دہائی میں تھائی لینڈ کا سفر کیا اور بغیر ویزے کے گیا۔بنکاک ہوائی اڈے پر ہی تین مہینے کا ویزہ جاری کر دیا گیا۔اسی طرح 90کی دہائی میں سویڈن کا سفر بغیر ویزے کے کیا اور اسٹاک ہوم ہوائی اڈے پر ویزا جاری ہو گیا۔اب ایسا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔
ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت سے پہلے پاکستانی پاسپورٹ کے حصول میں کوئی دو سال لگ جاتے تھے۔پولیس،آئی بی،اسپیشل برانچ جیسی ایجنسیاں بہت سی جانچ پڑتال کے بعد کلیرنس دیتی تھیں تب جا کے پاسپورٹ جاری ہوتا تھا اور جس کو پاسپورٹ مل جاتا تھا وہ اسے ذرا سا جیب سے باہر رکھتا تھا تا کہ لوگ مرعوب ہوں۔بھٹو صاحب نے مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں ملازمتوں کے مواقع پیدا ہونے پرپاکستا نیوںکے لیے پاسپورٹ کا حصول بہت آسان بنا دیا۔
اس سے بہت فائدے ہوئے، لاکھوں پاکستانیوں کو بیرون ملک روزگار ملا، پاکستان میں خوشحالی آئی لیکن محکمہ پاسپورٹ اور شناختی کارڈ کے افسروں اور اہکاروں نے پیسے کے لالچ میں پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈز کو ہر بازار میں اسٹال پر رکھ کر عید اور سالگرہ کے کارڈز کی طرح برائے فروخت رکھ دیا۔کوئی بھی غیرملکی بڑے آرام سے پیسے دے کر پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ حاصل کرلیتا ہے۔ آج کے دن کا تو پتہ نہیں لیکن کچھ عرصہ پہلے تک تمام افغانیوں کے پاس پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ تھے، بیرون ممالک ان کی بد اعمالیاں اور سنگین جرائم پاکستان کے کھاتے میں پڑتے رہے ہیں۔
افغان باشند ے اور ان کے پاکستانی پاٹنرز منشیات اسمگلنگ میں بھی بیروں ملک گرفتار ہوتے رہتے ہیں۔ سب افغانوں کے پاس پاکستانی پاسپورٹ ہوتا ہے۔وہ جب پکڑے جاتے ہیں تو ان کا شمار پاکستانی کے طور پر ہوتا ہے۔ باہر کی دنیا تو تفاصیل سے آگاہ نہیں ہوتی،وہ تو پاسپورٹ دیکھتی ہے۔اب اس کا کیا کیا جائے کہ نادرا اور پاسپورٹ آفس کے لوگ ہی نہیں بلکہ غیرملکی باشندوں کے کاغذات کی تصدیق کرنے والے مقامی افسر اور منتخب نمائندے بھی ملوث ہیں ورنہ کسی غیرملکی کا پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بننا ممکن ہی نہیں ہے ۔ہماری قومی ایئر لائن کا اسٹاف بیرونِ ملک ہوائی اڈے سے باہر نکل کر غائب ہو جاتا ہے۔اوور سٹے کرتے ہیں۔دنگے فساد کرتے ہیں۔
مذہب کا سفر سے کوئی تعلق نہیں۔ہم ڈاکومنٹس میں ہیرا پھیری اور دو نمبری کرتے ہیں۔سرکاری اور ڈپلومیٹک پاسپورٹ کے اجرا میں بے پروائی برتتے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کون کر رہا ہے۔کیا بیرونی ممالک سے لوگ ہمارے یہاں آ کر ہمارے خلاف سازش کررہے ہیں۔کیا دوسرے ممالک کے لوگ ہمارے نادرا اور پاسپورٹ آفس میں بیٹھے ہیں۔
افغانوں، برمیوں کو پاسپورٹ دینے کے لیے کیا ہمارے دشمن ممالک ہمیں مجبور کر رہے ہیں۔یہ سب کچھ ہمارا اپنا کیا دھرا ہے اور ہم ہی واویلا مچا رہے ہیں کہ ہمارا پاسپورٹ اپنی حیثیت کھو چکا ہے۔ہمیں خود یہ سب ٹھیک کرنا ہے تبھی ہمارے پاسپورٹ کی عزت بحال ہو گی۔