موبائل فون کی درآمدات میں تیزی سے اضافہ پہلا حصہ
پاکستان میں بھی معاشی فیصلے طاقت کے زور پر کیے جانے لگے
70 کی دہائی سے عالمی سیاسی معیشت نے زور پکڑا اور تیل کی پیداوار نے تیل کی سیاست کا روپ دھار لیا۔ 1974 میں پاکستان نے اپنی کرنسی کو 131 فی صد ڈی ویلیو کردیا تھا۔
1950 میں بھی ایک موقع آیا تھا جب عالمی سیاسی معیشت نے پاکستان پر حاوی ہونے کی کوشش کی تھی۔ دنیا کے کئی ملکوں نے اپنی کرنسی کی قدر گھٹا دی تھی اور پاکستان پر بھی زور دیا گیا کہ وہ بھی کچھ ایسا ہی کرے، لیکن ان دنوں کے معاشی حکام نے پولیٹیکل اکنامی کے بجائے خالص معاشی اصولوں کے تحت فیصلے کیے۔
پاکستان نے انھی معاشی اصولوں کے تحت اپنے کئی منصوبے بنائے جوکہ عالمی سطح پر سراہے گئے۔ کئی ملکوں نے ان معاشی ماڈلز کو اپنا کر مضبوط معیشت کا روپ دھار لیا۔ عالمی سطح پر معاشی فیصلوں میں طاقت کا کردار شامل ہوتا گیا۔
پاکستان میں بھی معاشی فیصلے طاقت کے زور پر کیے جانے لگے۔ معیشت میں جاگیرداروں، سرمایہ داروں، صنعت کاروں، سیاستدانوں، نوکر شاہی، کارخانوں کی سطح پر ٹریڈ یونینز، بڑے بڑے ہول سیل بازاروں کی سطح پر ذخیرہ اندوزی کرنے والے، مال کی شارٹیج پیدا کرنے والے، غلہ منڈی کی سطح پر سیاسی یا مضبوط معاشی کردار جو کبھی آڑھتی کی شکل میں، اور من مانے ریٹس پر نقد آور فصلوں یا سبزیوں یا پھلوں کی قیمت طے کرنے والے اور پھر درآمدات برآمدات کی سطح پر سیاسی اثر و رسوخ کا استعمال، کس طرح گزشتہ کچھ عرصے میں گندم کی درآمد ہوئی اور کافی حد تک خراب بھی درآمد کر لی گئی، پھر ایک قلیل طبقے کے فائدے کے لیے کاشتکاروں کا شدید مالی نقصان، اس طرح ہماری درآمدی مالیت کی تاریخ بھری پڑی ہے کہ کس طرح غیر ضروری، اشیائے تعیشات، خوراک، پھل، حتیٰ کہ چاکلیٹ، بسکٹ، ڈبہ بند دودھ اور سیکڑوں اشیا درآمد کرلی جاتی ہے۔
اس طرح ملک کا درآمدی بل بڑھتا ہے اور برآمدات چونکہ کچھوے کی چال کے تحت ہی بڑھتی ہے لہٰذا درآمدات اور برآمدات کا فرق حد سے زیادہ بڑھ کر تجارتی خسارہ لے کر آتا ہے۔ اب آپ دیکھیں گزشتہ 10 ماہ کی کل برآمدات 25 ارب 28 کروڑ ڈالر اور درآمدات 44 ارب 92 کروڑ ڈالر کے ساتھ تجارتی خسارہ 19 ارب 64 کروڑ ڈالرز کی رہیں، اب کہاں پر کس مد کے لیے کس کے فائدے کے لیے زائد درآمدات ہوکر رہیں، ان تمام کا جائزہ نہیں لیا جاسکتا۔ البتہ ان 19 ارب ڈالر کے خسارے میں ایک ارب ڈالر کا بڑھتا ہوا خسارہ جوکہ موبائل فون کی زائد درآمدات کے باعث پیش آیا۔
چیخ پکار کر رہا ہے، یہ کس قسم کے معاشی فیصلے ہو رہے ہیں جوکہ تجارتی خسارے کو بڑھا رہے ہیں۔ بات کچھ یوں ہے کہ جولائی 23 تا اپریل 24 تک پاکستان میں موبائل فون کی درآمدی مالیت تھی ایک ارب 46 کروڑ27 لاکھ 76 ہزار ڈالرز کی اور گزشتہ مالی سال کے 10 ماہ میں محض 47 کروڑ 32لاکھ 87 ہزار ڈالرز کی درآمدات کے باعث 209 فی صد کا اضافہ اور پاکستانی کرنسی میں 4 کھرب 14 ارب 27 کروڑ60 لاکھ روپے کی موبائل فون کی درآمد گزشتہ 10 ماہ میں جب کہ مالی سال 2022-23 کے 10 ماہ میں ایک کھرب 9 ارب 15 کروڑ80 لاکھ روپے کے موبائل فون درآمد کرکے ملکی ضرورت پوری کرلی گئی تھی، اس طرح 280 فی صد کا اضافہ ان 10 ماہ میں ہوتا۔ اس کی کوئی وجہ تو سمجھ نہیں آئی البتہ معاشی فیصلے سیاست میں لپٹے ہوں، کچھ خاص لوگ ہوں، کوئی مافیا بھی ہو سکتی ہے۔
بہرحال موجودہ حکومت اس بات کو بھی معلوم کر لے کہ ان 10ماہ میں گزشتہ مالی سال کے 8 ماہ کی نسبت 3کھرب 5 ارب 11 کروڑ 80 لاکھ روپے کی زائد درآمدات کی آخر ضرورت کیوں پیش آئی؟ اسی وجہ سے یہ ناچیز یہ کہہ رہا ہے کہ 19 ارب ڈالر کے نقصان میں ایک ارب ڈالر یا 80 کروڑ یا 70 کروڑ ڈالرز کی کمی لائی جاسکتی تھی۔
یہاں پر یہ ضروری ہے کہ گزشتہ 10ماہ کے دوران موبائل فون کی درآمد اور اس کا موازنہ گزشتہ مالی سال کے ماہانہ درآمدات سے کیا جائے اور دیکھا جائے کہ کس قدر فرق تھا۔ کیا پاکستان دنیا کی بہت بڑی معاشی قوت بن چکا ہے، وہ تو ایک غریب ملک ہے جہاں ایک ایک ڈالر سوچ سمجھ کر خرچ کرنا چاہیے۔
البتہ ان درآمدات کا زیادہ ہو جانا کیا معیشت کے لیے سود مند ہے یا ضروری ہے؟ موبائل فون اب اسٹیٹس سمبل بن کر رہ گیا ہے۔ قیمتی سے قیمتی موبائل سے بھی ایک عام آدمی اتنا ہی فائدہ اٹھا سکتا ہے جتنا ذرا کم قیمت موبائل فون خرید کر پیسوں کا ضیاع، ڈالرزکا ضیاع اور شدید ترین بڑھتے ہوئے نقصان پہنچانے والے تجارتی خسارے کو مدنظر رکھ کر موبائل فون کی درآمدات پر حکومت کو گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
اب آپ ملاحظہ فرمائیں کہ موبائل فون کی درآمد پر اچانک کتنی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اپریل 24ء میں 45 ارب روپے کے موبائل فون درآمد ہوئے جب کہ گزشتہ مالی سال اپریل 23ء میں صرف 3 ارب 2کروڑ روپے کی درآمدات کے باعث1400 فی صد زائد درآمد ہوئی۔ آخر کیوں کچھ معلوم ہونا چاہے۔
اب مارچ 2024ء میں بیالیس ارب 66کروڑ روپے کی درآمد اس کے بالمقابل مارچ 23ء کی درآمد محض 4 ارب 16 کروڑ روپے کی درآمد کے ساتھ 925 فی صد کا اضافہ ہوا۔ (جاری ہے)