طلعت حسین کمال کی شخصیت
وہ اپنے کام سے اور اداکاری سے ہمیشہ زندہ رہیں گے۔یہ ہی بڑے آدمی کی نشانی ہے جو طلعت حسین میں خوب پائی جاتی تھی
مر بھی جائوں کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے مرے ہونے کی گواہی دیں گے
ہمارا بچپن اور ہماری جوانی پی ٹی وی کے عہد میں اور اس سے جڑے ڈراموں میں گزری ہے ۔ کیا کمال کے ڈرامے اور فن کار تھے۔ ڈراموں کا معیار اور اداکاروں کی پرفارمنس واقعی کمال ہوا کرتی تھی ۔پی ٹی وی پر ڈرامہ ہو اور ہم نے نہ دیکھا ہو ایسا ممکن نہیں ہوتا تھا۔ 8بجے کا ڈرامہ یا 10بجے رات ہونے والا لانگ پلے ہماری ترجیحات کا حصہ ہوتا تھا۔
جب بھی پی ٹی وی ڈراموں کی تاریخ لکھی جائے گی تو طلعت حسین کے ڈرامے اور مختلف کرداروں کو زیر بحث لائے بغیر یہ تاریخ مکمل نہیں ہوسکے گی ۔ریڈیو، فلم، تھیٹر،ٹی وی سے شہرت پانے والے طلعت حسین کی حقیقی مشہوری اس کی پی ٹی وی میں چلنے والے ڈرامے ہی تھے کیونکہ وہ سب دیکھنے والوں کی رسائی میں تھے ۔
ہوئے ناموربے نشان کیسے کیسے
زمین کھا گئی آسماں کیسے کیسے
موت برحق ہے ، ہر کسی نے جانا ہے ۔لیکن جانے والوں میں سے کچھ کردار ایسے ہوتے ہیں جو محض اپنے خاندان تک ہی نہیں بلکہ معاشرے کے مختلف طبقات میں اپنی یادوں کا رنگ بکھیر جاتے ہیں ۔ طلعت حسین کا نام اوران کا فن ہمیشہ ان کے چاہنے والوں کے دلوںمیں زندہ بھی رہے گا۔
ایک بار جب طلعت حسین سے کسی نے پوچھا کہ آپ مختلف کرداروں میں خود کو کیسے تیار کرتے ہیں تو ان کے بقول مجھے جو بھی کردار ملتا ،پہلے اسے پڑھتا یا دیکھتا اور پھر اس کردار میں کئی کئی ہفتوں اور مہینوں اپنے اوپر طاری کرتا او رمحسوس کرتا ہوںکہ یہ کردار مجھ سے کیا تقاضہ کرتا ہے ۔
طلعت حسین نے اپنے فن کا آغاز ریڈیو پاکستان سے1964میں کیا ۔ٹی وی پر کام کا آغاز1967میں کیا ۔ بنیادی طور پر لٹریچر کے طالب تھے اور اسی شوق کی بنیاد پر انھوں نے لندن اکیڈمی آف میوزک اینڈ ڈرامیٹک آرٹ سے تھیٹرو آرٹس میں تربیت حاصل کی۔
طلعت حسین کے ڈراموں میں آنسو، ارجمند، ہوائیں ،پرچھائیاں،انسان اور آدمی، تھوڑی خوشی تھوڑا غم،طارق بن زیاد اور دیس پردیس، بندش،فنون لطیفہ، درد کا شجر،ایک امید سمیت کئی ڈرامے شامل ہیں۔ فلموں میں دیکھیں تو چراغ جلتا رہا ،انسان اور آدمی، قربانی، گمنام، بھارتی فلم سوتن کی بیٹی اور عالمی شہرت یافتہ فلم جناح بھی شامل تھی۔
طلعت حسین نے اداکاری ہی نہیں بلکہ ہدایت کاری میں بھی اپنی صلاحیتوں کومنوایا اور پھر نئے لوگوں کو اداکاری کے جوہر سکھائے، وہ معروف اکیڈمی ناپا میں تھیٹر و آرٹس کے شعبہ میں بانی فیکلٹی ممبر تھے۔ طلعت حسین تھیٹر اور ڈرامہ کو سماجی تبدیلی کے طور پر دیکھتے تھے ۔ پانچ برسوں پر محیط ان کا دور تھا او ر ان کا یہ سفر بڑی شان سے گزرا اور اپنے کردار میں لفظوں کی آدائیگی اس انداز سے کرتے کہ لوگوں کے دلوں کو چھو لیتے تھے۔ اسی کمال ہی کی بنیاد پر ان کو پاکستانی ڈراموں کا شیکسپیر یا ان کی اداکاری کے جوہر کو بھارت کے معروف اداکا ر دلیپ کمہار سے جوڑتے تھے۔
ان کا ایک شاندار ڈرامہ 1980میں ٹائپسٹ بھی تھا اس کو لکھا بھی خود طلعت حسین او راس میں اداکاری میں ان کے ساتھ مرحومہ خالدہ ریاست تھیں جو خود ایک بڑی فن کار تھیں۔اگرچہ انھوں نے زیادہ تر سنجیدہ ڈرامے کیے مگر کامیڈی بھی کی اور وہ ڈرامہ ا ن کا فنون لطیفہ تھا جس میںانھوں نے کمال کی اداکاری کرکے اپنا یہ رنگ بھی دکھایا۔
اب پاکستان میں ڈرامہ بھی بدل گیا اور ڈرامہ لکھنے والے ، ڈرامہ کرنے والے سب ہی بدل گئے یہاں تک کہ ڈرامہ کی کہانی بھی بدل گئی اور جو ہمارا مقامی کلچر، تہذیب ،تمدن ، ادب و آداب ، شائشتگی یا رشتوں کا جو احترا م تھا وہ بھی بدل گیا۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارا ڈرامہ اور اس بڑے اداکار بھی کہیں کھوگئے ہیں یا اب جو ڈرامہ ہے اس کو پرانی کہانی ، پرانے کردار یا اداکاروں کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس کی جگہ اب گلیمر نے لے لی ہے اور ڈرامہ ہماری زمین اور مقامی کرداروں سے نکل کر باہر کی دنیا یا وہاں کے گلیمر کا شکار ہوگیا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہم جیسے پرانی سطح کے لوگوں کا ڈرامہ اور ٹی وی اسکرین سے رشتہ بھی کمزور ہوگیا ہے۔
طلعت حسین جیسی آوازیں کم ہوتی جارہی ہیں او رنہ ہی ان جیسے ڈائیلاگ بولنے والے رہے او رنہ ہی باتوں میں کوئی اثر باقی بچا۔پڑھنے لکھنے والوں کی پہلے ہی کمی ہے اور جو اس منزل تک پہنچتا ہے اسے ریاستی سطح پر کوئی پزیرائی دینے کے لیے تیار نہیں۔ کیونکہ علم کی بنیاد پر تبدیلی ہمارا مسئلہ نہیں ہم ایک ایسی ڈور کا شکار ہیں کہ بس ڈور ہی رہے ہیں۔
بلاشبہ طلعت حسین کا دور ایک شاندار عہد تھا او رایسا عہد جس پر مجھ سمیت بہت سے لوگوں کو ناز ہے ۔کیونکہ انھوں نے فن میں معیارات کو بنیاد بنایا اور اسی بنیاد پر اپنی پہچان بھی ۔ کیونکہ جو بھی شائشتگی کی بنیاد پر اپنے اسلوب کو اختیار کرے گا وہی اپنا نام بھی بناتا ہے اور طلعت حسین ان ہی لوگوں میں سے ہیں جن پر ہم سب فخر کرسکتے ہیں۔
جب ان سے ایک بار پوچھا گیا کہ الفاظ کی آدائیگی پر آپ خوب توجہ دیا کرتے تھے تو وہ کہتے تھے کہ الفاظ کی ایک طاقت ہوتی ہے اور اگر الفاظ میں منفی پہلو نمایاں ہو یا اس میں گہرا پن نہ ہو او رایسے لگے جیسے مصنوعی طور پر لفظوں کو ادا کیا گیا ہے تو اس کا دیکھنے والوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا ۔
طلعت حسین نے حقیقی معنوں میں اپنے فن سے اس شعبہ میں ایک بڑے لیڈر کے طور پر قیادت کی ہے۔ اگرچہ ان کے عہد میں ڈراموں کی سطح پر اور بھی بڑے نام گنے جاسکتے ہیں ان میں شفیع محمد،فردوس جمال، لطیف کپاڈیا، سکینہ سموں، روحی بانو، عظمی گیلانی ، شہناز شیخ، مرینہ خان ،وسیم عباس، جمیل فخری، قومی خان، عابد علی ، بشری انصاری ، راحت کاظمی ،معین اختر، خالدہ ریاست ،جمال شاہ ، لیلی زبیری ،محمود علی ، عرش منیر، آصف رضامیر وغیرہ شامل ہیں۔
طلعت حسین ایک سیلف میڈ انسان تھے اور سونے کا چمچہ لے کر پیدا نہیں ہوئے تھے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ انھوں نے مختلف ادوار میں بہت سے نشیب فراز دیکھے ، مگر ہمت نہ ہاری۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اپنی محنت کی بنیاد پر انھوں نے کامیابی حاصل کی اور نام کمایا۔مجھے کئی بار بھارت اپنے رشتہ داروں سے ملنے جانا ہوا اور وہاں بھی میں نے موجود لوگوں سے جہاں پاکستان کے ڈراموں کی تعریف سننے کو ملتی تھی وہیں طلعت حسین کے کام کو بھی سراہا جاتا تھا۔
طلعت حسین اب ہم میں نہیں رہے اور ایک ایسی جگہ پر پہنچ گئے جہاں سے لوٹ کر کوئی نہیں آتا مگر وہ اپنے کام سے اور اداکاری سے ہمیشہ زندہ رہیں گے۔یہ ہی بڑے آدمی کی نشانی ہے جو طلعت حسین میں خوب پائی جاتی تھی ۔