کوچۂ سخن

درد جو دل پہ ہیں معمور غزل کہتے ہیں<br /> اشک جب کرتے ہیں مجبور غزل کہتے ہیں


Arif Aziz June 02, 2024
فوٹو: فائل

غزل
درد جو دل پہ ہیں معمور غزل کہتے ہیں
اشک جب کرتے ہیں مجبور غزل کہتے ہیں
ہم کو آتی ہے فقط قافیہ پیمائی بس
لوگ کہتے ہیں کہ مخمور غزل کہتے ہیں
خاک کو پھول بناتے ہیں ہنر سے اپنے
لفظ کردیتے ہیں پرنور غزل کہتے ہیں
یوں تو کہتے نہیں بنتا ہمیں اک بھی مصرع
جب بھی کہتے ہیں تو بھرپور غزل کہتے ہیں
شوق یوں تو نہیں ہے ہم کو غزل گوئی کا
بس ترے واسطے اے حور غزل کہتے ہیں
داد کی پانے کو اجرت ہیں تماشے سارے
ہم نہ شاعر ہیں نہ مزدور غزل کہتے ہیں
(کلیم شاداب۔ آکوٹ، بھارت)


۔۔۔
غزل
تنقید کار، آ مرا اسلوب دیکھ لے
ہر شعر کہہ رہا ہوں بہت خوب دیکھ لے
تجھ سا نہیں ملے گا کوئی، تجھ کو تھا یقیں
تجھ سے بھی اچھا مل گیا محبوب،دیکھ لے
بھیجوں گا اس کو آج میں تصویر اس لیے
ہوتے ہیں کیسے عشق کے مجذوب دیکھ لے
بس اتنا سوچ لے نہیں آؤں گا لوٹ کر
لکھا ہے ایک آخری مکتوب،دیکھ لے
آیا نہ کوئی دل میں ترے بعد پھر کبھی
یہ گھر ہے تیرے نام سے منسوب دیکھ لے
کرتا ہی اپنا بھیج دے اے یوسفِ منیرؔ
رو رو کے ہو نہ جاؤں میں یعقوب،دیکھ لے
(منیر انجم ۔ساہیوال ،سرگودھا)


۔۔۔
غزل
تری قربت کی نگرانی تھی پہلے
جبھی وحشت میں آسانی تھی پہلے
ہمیں تھے اولیں عشاقِ وحشت
ہمیں نے خاکِ غم چھانی تھی پہلے
میرے اشکوں سے زرخیزی ہوئی ہے
یہ ساری جھیل برفانی تھی پہلے
ہوا جامع نگاہوں سے تکلم
مری تمہید طولانی تھی پہلے
ترے ہاتھوں میں اب آئی حکومت
زمیں پر میری سلطانی تھی پہلے
(مستحسن جامیؔ ۔خوشاب)


۔۔۔
غزل
نظر سے نورِ نظر دور ہوئے جاتے ہیں
بس اُن کو دیکھتے جاتے ہیں، روئے جاتے ہیں
چمک دمک وہی پہلے سی چاہنے والو!
یہ داغ کون سے پانی سے دھوئے جاتے ہیں؟
نصیب سے ہی نکلتا ہے کوئی کام کا پھول
بہت سے بیج زمینوں میں بوئے جاتے ہیں
جوانی ہنستے ہوئے کہہ رہی ہے، دیکھو تو
یہ بچے ہار میں کلیاں پروئے جاتے ہیں
خود اپنی باتوں میں لاتے ہیں تذکرے اُس کے
ؒخود اپنے پاؤں میں کانٹے چبھوئے جاتے ہیں
یہ دشت چھاننے والوں کو کچھ ملا بھی ہے؟
کہ صرف قیمتی چیزیں ہی کھوئے جاتے ہیں
خدائے ارض و سما تو ہے تیرے ساتھ زبیرؔ
کہاں سے پھر ترے سورج ڈبوئے جاتے ہیں؟
(زبیرحمزہ۔ قلعہ دیدار سنگھ)


۔۔۔
غزل
نظر لطف و کرم کی جب وہ مجھ پر سے ہٹاتا ہے
تو پائے استقامت کو مرے پھر آزماتا ہے
ادھرمیں ہوں جو اس کے راستے میں گل کھلاتا ہے
اُدھر وہ ہے کہ راہوں میں مری کانٹے بچھاتا ہے
نجانے مسئلہ کیا ہے اسے مجھ سے وگرنہ تو
دھڑلے سے رقیب اس کی گلی میں دندناتا ہے
عضب کا وہ شکاری ہے،جدھر کو جال پھینکے گا
پرندہ آپ اپنے ہی اسی جانب کو آتا ہے
محبت کی اذیت بھی سمندر سے مشابہ ہے
کہ جو انسان کو پہلے ڈبوتا پھر تراتا ہے
مرے جیتے جی کبھی جس نے نہ پوچھاحال میراوہ
مری میت پہ آنسو اب مگر مچھ کے بہاتاہے
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ مانوں یا مکر جاؤں
یقیں اپنی وفاؤں کا مجھے پھر سے دلاتا ہے
اگر بارِ دگر اس نے مجھے چھوڑا تو کیا ہو گا
یہی وہ بات ہے جس سے مجھے اب خوف آتا ہے
(ندیم دائم۔ ہری پور)


۔۔۔
غزل
آگ کا سنسار ہے اور خوف ہے
پھول ہے گلزار ہے اور خوف ہے
یہ تو انسانوں کی بستی ہے کوئی
شہر ہے بازار ہے اور خوف ہے
جن کے ہاتھوں میں کتابیں چاہیے
تیر ہے تلوار ہے اور خوف ہے
جانے گلشن کو نظر کس کی لگی
ایک پہرے دار ہے اور خوف ہے
وصل کے لمحات ہوں یا انتظار
دونوں جانب دار ہے اور خوف ہے
(سیف علی عدیل۔ اسلام آباد)


۔۔۔
غزل
گِرد آنکھوں کے گَرد جمی،اور کچھ نہ سنائی دیتا ہے
جب وہ دیکھے تو دیوار کے پار دکھائی دیتا ہے
دور دشمنوں کی صف میں جو سب سے آگے آگے ہے
یہ تو کوئی اپنا پرانا یار دکھائی دیتا ہے
اسی لیے تو مجھ کو تمہاری آنکھیں اچھی لگتی ہیں
ان آنکھوں میں مجھ کو کلرکہار دکھائی دیتا ہے
پہلے وہ بھی واحد تھا اور میں ہی اس کا واحد تھا
اب تو اس کے چاروں طرف ہی حصار دکھائی دیتا ہے
(اعجازالحق عثمانی ۔کلرکہار)


۔۔۔
غزل
کون سمجھے اشارے زباں بندی ہے
ہوں کنارے کنارے،زباں بندی ہے
سو رہی ہیں صدائیں بڑی مدت سے
منہ میں پاؤں پسارے، زباں بندی ہے
ہاتھ ماتھے پہ دونوں دھرے بیٹھا ہوں
کہہ گئے ہیں ادارے زباں بندی ہے
آستیں کا نظارہ میں کہہ ہی دیتا
یار اک دم پکارے زباں بندی ہے
اس ہوا سے کہوں ناں مرے ہونٹوں سے
آ کے سکری اتارے زباں بندی ہے
اب نہیں کام کے ہم زبانوں کے خط
پھونک ڈالو یہ سارے زباں بندی ہے
کیاپتہ خامشی بھا ہی جائے ساگرؔ
لفظ کر لیں گزارے،زباں بندی ہے
(ساگر حضورپوری۔سرگودھا)


۔۔۔
غزل
یہی سوچ کر تجھے مجھ سے ڈر نہیں لگ رہا
مرا اک بھی تیر نشانے پر نہیں لگ رہا
اسے بے وفائی کا ہے گلہ کسی اور سے
یہ خوشی ہوئی کہ وہ میرے سر نہیں لگ رہا
ترے ساتھ خواب میں پھر رہا ہوں میں دربدر
تو میں سچ میں کیا تجھے ہمسفر نہیں لگ رہا؟
مری آنکھ میں ابھی گرد ہے ترے ہجر کی
مرا دل مجھے تری رہگزر نہیں لگ رہا
مرے دل میں آ ذرا دیکھ خود کو سکون سے
یہ مکان کیا تجھے اپنا گھر نہیں لگ رہا؟
تجھے بے وفا نہیں کہہ رہا مگر آجکل
مجھے تیرے کپڑے کا پورا بَر نہیں لگ رہا
(محسن چاند۔خوشاب)


۔۔۔
غزل
وہ شخص میرے پاس بڑی دیر تک رہا
سو میں بھی بد حواس بڑی دیر تک رہا
وہ بے رُخی کے ساتھ ہی سنتا رہا مجھے
میں محوِ التماس بڑی دیر تک رہا
بکتے تھے واں لباس ہزاروں کے دام میں
لے کر میں سو پچاس بڑی دیر تک رہا
میں بھی غنی تھا پہلے تو لوگوں کا اِک ہجوم
میرے بھی آس پاس بڑی دیر تک رہا
آئی نہ لاش ہاتھ مگر خار زار میں
الجھا ہوا لباس بڑی دیر تک رہا
صحنِ چمن تھا، جام تھا، برکھا تھی، تم نہ تھے
منظر اُداس اُداس بڑی دیر تک رہا
صادقؔ وہ ہوں گے آ کے کسی روز ملتفت
در پر لیے یہ آس بڑی دیر تک رہا
(محمد ولی صادق۔ؔ کوہستان، خیبر پختونخوا)


۔۔۔
غزل
کہیں ایسی ملے مجھ کو دعا کوئی
زمانے میں نہ ہو مجھ سے خفا کوئی
جہاں بھر میں برے ہوں گے بہت لیکن
مرے جیسا نہیں ہوگا برا کوئی
گزاروں زندگی اپنی ریاضت میں
سوا اس کے نہیں ہے التجا کوئی
اگر میں دل کسی کا بھی دکھاؤں تو
ملے مجھ کو عداوت کی سزا کوئی
خدا کی یاد دل میں ہو جمالیؔ کے
نہ کر پائے کسی سے بھی دغا کوئی؎
(احمد یار جمالی۔ بصیرپور ،اوکاڑا)


۔۔۔
غزل
چھوڑ کر جب سہارا جائے گا
زندگانی سے ہارا جائے گا
رات گزرے گی یادِ ماضی میں
دن تڑپ کر گزارا جائے گا
خون رِستا رہے گا لفظوں سے
کوئی مصرعہ سنوارا جائے گا
عشق سارا وَحی کی صورت ہے
پاک دل پر اتارا جائے گا
عشقِ لیلہٰ میں مبتلائے مریض
تُوں بھی مجنوں پکارا جائے گا
میں حسینی ہوں آپ دیکھیں گے
مجھ کو دھوکے سے مارا جائے گا
اُس کو پاکے جو میں نے کھویا ہے
یہ نہ باقیؔ خسارہ جائے گا
(اسد علی باقی ۔لاہور)


۔۔۔
غزل
تم کہاں میری محبت کے لیے آئے ہو
تم تو بس اپنی ضرورت کے لیے آئے ہو
حسرتِ دید میں جلتے ہیں چراغوں کی طرح
پھر نہ کہنا کہ شکایت کے لیے آئے ہو
یہ الگ بات کہ چُپ اوڑھ کے بیٹھے ہو مگر
صاف لگتا ہے رفاقت کے لیے آئے ہو
تم نے الفت کو یہاں کھیل بنا رکھا ہے
دشت میں کس کی عبادت کے لیے آئے ہو
میں تو کہتی ہوں فقط شدتِ احساس اسے
دوسری بار عیادت کے لیے آئے ہو
ایسا لگتا ہے محبت کی ضرورت ہے تمہیں
ایسا لگتا ہے کہ چاہت کے لیے آئے ہو
(بینش اسد۔ لاہور)


سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں