فطرت سے پیار ماحولیاتی مسائل حل کرنے کیلئے رویے بدلنا ہونگے

ماحولیات کا عالمی دن ۔۔۔ہماری زمین، ہمارا مستقبل


فضائی آلودگی کم کرنے کیلئے قانون سازی کی جا رہی ہے، پلاسٹک بیگز، بوتل، دھواں چھوڑنے والی ٹرانسپورٹ اورانڈسٹری کے بارے میں اصلاحات لائی جا رہی ہیں

5 جون کو دنیا بھر میں ہر سال ماحولیات کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کی مناسبت سے ''ایکسپریس فورم'' میں خصوصی مذاکرہ کا انعقاد کیا جاتا ہے۔

اس روایت کو برقرا ر رکھتے ہوئے اس سال بھی خصوصی نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، اکیڈیمیااور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

راجہ جہانگیر انور

(سیکرٹری محکمہ تحفظ ماحولیاتو موسمیاتی تبدیلی پنجاب)

پلاسٹک برا نہیں ، نقصان کا انحصار اس بات پر ہے کہ استعمال کیسے کیا جاتا ہے۔ پاکستان کی اربوں روپے کی عالمی تجارت پلاسٹک میں ہے۔ ہم 385ملین ڈالر کی پلاسٹک پراڈکٹس ایکسپورٹ کرتے ہیں اور دنیا سے پلاسٹک ویسٹ کی امپورٹ بھی کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں مسئلہ ایک مرتبہ استعمال ہونے والے پلاسٹک ہے جو بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ پنجاب میں سالانہ 15.324 ملین میٹرک ٹن کوڑا اکٹھا کیا جاتا ہے جس میں سے 1.5ملین میٹرک ٹن پلاسٹک ہے۔

پلاسٹک بیگ دوبارہ استعمال نہیں ہوتا ، اسے کوئی اکٹھا نہیں کرتا، اسی لیے ہر جگہ یہ بیگز بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بائیو ڈیگریڈ ایبل بیگز کے نام سے ایسے بیگز بنائے جا رہے ہیں جو مٹی میں شامل ہوکر کینسر کا باعث بن رہے ہیں، اس حوالے سے اقدامات اٹھانے کاجائزہ لیا جا رہا ہے۔

پلاسٹک بیگز کی وجہ سے زمین خراب، نالے بند اور دریا متاثر ہو رہے ہیں۔ اگر 2040 تک دریاؤں کو ریسکیو نہ کیا گیا تو سنگین مسائل پیدا ہوجائیں گے۔ اگر دریائے سندھ میں پلاسٹک بیگز پھینکنا بند نہ کیے گئے تو وہاں کی آبی زندگی ختم ہوجائے گی۔ بھارت میں روزانہ 20 گائے پلاسٹک بیگز کھانے کی وجہ سے مر رہی ہیں۔ اس وقت کینیا دنیا کا واحد ملک ہے جہاں پلاسٹک بیگ کا استعمال یا لے جانا جرم ہے، اس پر جیل بھیج دیا جاتا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ کینیا کی معیشت کا انحصار سفاری جنگل پر ہے، اگر جنگلی حیات اور جنگلات کو نقصان ہوا تو ان کی زندگی کیلئے مسائل پیدا ہوجائیں گے۔ دنیا کو پلاسٹک بیگز کے حوالے سے کینیا کے ماڈل کو فالو کرنا چاہیے۔ ہمارے ہاں پلاسٹک بیگز پر پابندی کے حوالے سے بارہا کوشش ہوئی۔ ہم بھی اس حوالے سے قدم اٹھانے جا رہے ہیں۔ ہمارے ہاں 10سے 20 مائیکرون موٹائی والے شاپنگ بیگز بنائے جا رہے ہیں۔

ہم نے پلاسٹک بیگ بنانے والوں سمیت دیگر سٹیک ہولڈرز سے میٹنگ کی اور انہیں کم از کم 75مائیکرون موٹائی والا بیگ تیار کرنے کا کہا جس پر یہ کہا گیا کہ ہماری مشینیں تیار نہیں کرسکتی۔ پھر ہم نے یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور سے ماہرین بلائے جنہوں نے مسئلہ حل کر دیا، اب ہمیں مینوفیکچررز کہہ رہے ہیں کہ 125 مائیکرون موٹائی والے بیگز بھی تیار ہوجائیں گے لہٰذا 5 جون سے 75 مائیکرون موٹائی سے کم والے تمام شاپنگ بیگز پر پابندی لگائی جا رہی ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ موٹے شاپنگ بیگز ایک سے زائد مرتبہ استعمال ہوسکیں گے اور کچرا کم ہوگا۔ ہم ہر سال کے ٹو پہاڑ جتنے کچرے کے دو پہاڑ بناتے ہیں، ہمیں ویسٹ مینجمنٹ پر بڑا کام کرنا ہوگا۔ ہم نے 25 بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ساتھ پلاسٹک کے استعمال کو کم، دوبارہ استعمال اور ری سائیکلنگ کے حوالے سے میٹنگ کی جس کے مثبت نتائج سامنے آئے ۔ ہمیں ان کمپنیوں نے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ ایک سال میں وہ پلاسٹک بوتلوں کی 100 فیصد ری سائیکلنگ پر چلی جائیں گی۔

ہمارے ہاں فضائی آلودگی ایک اہم مسئلہ ہے۔ سال میں چار ماہ سموگ رہتی ہے جس میں ٹریفک کا بڑا عمل دخل ہے، ہماری زندگیاں متاثر ہو رہی ہیں، لوگ بیمار ہوتے ہیں اور شعبہ صحت پر بھی اثر پڑتا ہے۔ کوڑے کو آگ لگا دی جاتی ہے، کسان بھی فصلوں کی باقیات کو آگ لگاتے ہیں جس سے فضا آلودہ ہوتی ہے۔ اسی طرح فیکٹروں، دفاتر ، دکانوں اور گھروں میں جنریٹر چلائے جاتے ہیں جس کا دھواں بڑا مسئلہ ہے۔

اس ضمن میں سب کو پابند کیا جارہا ہے کہ وہ جنریٹر کے ساتھ دھواں کنٹرول کے آلات لگائیں۔ ہمارے ہاں موٹر بائیکس کی بڑی تعداد ہے جو دھواں بھی چھوڑ رہی ہیں، موٹر سائیکل کے ساتھ دھواں کنٹرول کرنے کا آلہ لازمی قراردیا جا رہا ہے، اس کے بغیر جرمانہ کیا جائے گا۔سموگ جیسے مسائل سے نمٹنے کیلئے 200 ماحول دوست بسیں لائی جا رہی ہیں، ای بائیکس بھی متعارف کرائی گئی ہیں جو طلبہ کو دی جائیں گی۔ ہم تحفظ ماحولیات کے حوالے سے ایک نئے ماڈل پر جا رہے ہیں جو دنیا میں رائج ہے۔

جو فیکٹری ماحول خراب کرنے میں جتنا زیادہ کردار ادا کر رہی ہے، اتنا ہی کردار اسے بہتر بنانے میں بھی ادا کرے گی۔اس حوالے سے قانون سازی کی جا رہی ہے جس کے بعد انڈسٹری درخت لگانے کی پابند ہوگی جن کی تعداد کا تعین فیکٹری سے خارج ہونے والی کاربن کی مقدار کے مطابق کیا جائے گا۔

محکمہ جنگلات پلانٹ فار پاکستان مہم کے تحت درخت لگا رہا ہے، اس وقت تک 20 لاکھ سے زائد پودے لگائے جاچکے ہیں ، 2 لاکھ پودے لاہور کینال روڈ پر لگائے جائیں گے، روڈا میں بھی لگائے جا رہے ہیں، راوی بیلٹ کے ساتھ بڑی تعداد میں پودے لگائے جائیں گے۔ یہ باعث افسوس ہے کہ پاکستان ماحول اور موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک میں پانچویں نمبر پر ہے۔ اس کی وجہ سے ہمارے ہاں سیلاب آتے ہیں اور کبھی موسم شدید گرم ہوجاتا ہے۔

سندھ میں درجہ حرارت 54 ڈگری سینٹی گریڈ تک چلا گیا۔ ہماری لائف لائن متاثر ہو رہی ہے۔ اس گرمی سے گلیشئرز وقت سے پہلے پگھلیں گے، سارا سائیکل خراب ہوجائے گا اور پھر سیلاب آئیں گے۔ ماحول کا تحفظ موجودہ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے اور اس پر بڑے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

ہمارے پاس ڈینگی کنٹرول کرنے کی کامیاب مثال موجود ہے کہ کس طرح تمام محکموں نے مل کر اس پر قابو پایا۔ آج بھی ایسے ممالک موجود ہیں جہاں لوگوں نے ڈینگی کے ساتھ رہنا سیکھ لیا ہے۔ اسے مدنظر رکھتے ہوئے سینئر وزیر مریم اورنگ زیب نے کثیر الجہتی سٹرٹیجی بنائی ہے جس میں محکمہ ٹرانسپورٹ، توانائی، لوکل گورنمنٹ، تحفظ ماحولیات و موسمیاتی تبدیلی، ٹریفک، تعلیم سمیت دیگر محکموں کو شامل کیا گیا ہے تاکہ سب تحفظ ماحولیات میں اپنا انفرادی اور اجتماعی کردار ادا کریں، اس حوالے سے کارکردگی اور اقدامات کا جائزہ بھی لیا جارہا ہے۔ ہمارے ہاں ایک بڑا مسئلہ ریسرچ کا ہے۔

سموگ کے حوالے سے ایک بھی خاطر خواہ ریسرچ موجود نہیں، ایسی تحقیق کی گئی کہ سموگ میں ٹریفک و دیگر شراکت دار ہیں۔ ہمیں سائنٹفک ریسرچ کی ضرور ت ہے، ہماری یونیورسٹریز کو تھنک ٹینک کا کام کرنا ہے جیسے دنیا میں ہوتا ہے۔ ہم نے 100 ارب روپے کا انڈومنٹ فنڈ قائم کیا ہے جو ہم اکیڈیما کو ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کیلئے دیں گے۔ ہم ایسے انٹرپرینیورز جو پلاسٹک کی ری سائیکلنگ جیسے کام کر رہے ہیں انہیں فنڈز، گرانٹ اور قرض بھی دیا جائے گا۔

پروفیسر شکیل امجد

(ماہر تعلیم)

ملک کو درپیش موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی مسائل میں ضروری ہے کہ ہر فرد اپنا اپنا کردار ادا کرے۔ اس ضمن میں سکولوں پر خصوصی توجہ دی جائے، طلبہ کو بائیو ڈائیورسٹی، ایکوسسٹم اور ماحولیاتی تحفظ کے بارے میں آگاہی دی جائے۔ ہم نے سول سوسائٹی کے تعاون سے اپنے 20 کے قریب سکولوں میں 60 سے زائد تربیتی سیشنز منعقد کیے ہیں جن میں بچوں کو تحفظ ماحولیات کے حوالے سے خصوصی تربیت دی گئی۔ ہم نے اپنے سکولز میں گرین کلب بنائے ہیں.

ان کے تحت شجرکاری کی گئی، اب ہمارے تمام سکولز میں یہ کلب قائم ہوچکے ہیں جن کے ذریعے طلبہ ماحولیاتی تحفظ میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہم نے بچوں کو ویسٹ مینجمنٹ کی تربیت بھی دی ہے اور تین مختلف طرح کے کوڑا دان بھی متعارف کروائے ہیں۔ہم طلبہ کو زیادہ سے زیادہ پودے لگانے کی ترغیب دے رہے ہیں۔

ہم نے انہیںخالی جگہ کو پودے لگا کر 'گرین' کرنے کا کہا ہے۔ میرے نزدیک ہمیں ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے نصاب میں ایک الگ مضمون شامل کرنا چاہیے، اس حوالے سے یہ یقینی بنانا چاہیے کہ یہ صرف پڑھانے کی حد تک نہ ہو بلکہ عملی طور کام بھی کیا جائے۔ اس حوالے سے طلبہ کے والدین کو بھی شامل کیا جائے اور بچوں کو خصوصی نمبرز دیے جائیں ۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں آگاہی کا فقدان ہے۔ ہم میں احساس ذمہ داری اور اپنائیت ختم ہوگیا ہے۔ ہم گاڑی میں سفر کرتے ہیںمگر شاپر سڑک پر پھینک دیتے ہیں ۔ ہمیں پلاسٹک بیگز کا خاتمہ کرنا ہے۔

یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ تعلیم یافتہ اور ان پڑھ، دونوں ہی کچرا پھینکتے ہیں، ہمیں سب کی بلا تفریق تربیت کرنی ہے۔ اس حوالے سے تمام سٹیک ہولڈرز کی شمولیت کے ساتھ ایک جامع آگاہی مہم کی ضرورت ہے ، اس میں میڈیا و سوشل میڈیا کو استعمال کرناچاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ سکولوں میں ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ طلبہ کے ذریعے ہر گھر تک پیغام پہنچایا جاسکے۔ ہمارے ہاں ایک مسئلہ قانون سازی، عملدرآمد اور ول پاور کا ہے۔

ان تینوں میں ہی مسائل درپیش ہیں جنہیں دور کرنا ہوگا۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ کوئی بھی حکومت، محکمہ یا ادارہ اکیلے مسائل کا خاتمہ نہیں کر سکتا، اس کے لیے من حیث القوم سب کو اپنا اپنا کردار احسن انداز میں ادا کرنا ہوگا۔

احمر شہزاد

(پراجیکٹ منیجر، پاک مشن سوسائٹی)

پاک مشن سوسائٹی 2005ء سے سماجی خدمت کا کام کر رہے ہیں۔ کلائمیٹ ایکشن کے حوالے سے ہمارا ایک الگ شعبہ موجود ہے۔ ہم نے ہریالی ہب کے نام سے ایک منصوبے کا آغاز کیا۔ ہم اسلام آباد میں کچرا اکٹھا کرتے ہیں اور اس سے قابل استعمال بناتے ہیں۔ ہم شاپنگ بیگز کو پراسیس کرکے ٹائلز بنا رہے ہیں۔

ہم خواتین کو تربیت بھی فراہم کر رہے ہیں کہ وہ کس طرح کچرے سے جیولری و دیگر اشیاء بنا سکتی ہیں۔دنیا کے ماحولیاتی مسائل میں ہمارا حصہ 0.9 فیصد ہے مگر متاثرہ ممالک میں پانچویں نمبر پر ہیں۔ ہمارے ہاں سیلاب آرہے ہیں، کہیں خشک سالی توکہیں زمین بنجر ہو رہی ہے۔ ہمیں زمین کی بحالی اور اس کا معیار بہتر بنانے پر کام کرنا ہے اورزیادہ سے زیادہ درخت لگانے ہیں۔ ہم نے جنگلات کو تباہ کر دیا ہے۔ ہم ہاؤسنگ سوسائٹیز اور ڈویلپمنٹ کے نام پر درخت کاٹتے جا رہے ہیں جس کا خمیازہ ہماری آنے والی نسلوں کو بھی بھگتنا پڑے گا۔

بدقسمتی سے زیر زمین پانی کے ذخائر کم ہو رہے ہیں، ہمیں واٹر مینجمنٹ کرنا ہوگی اور لوگوں کو بھی آگاہی دینا ہوگی کہ وہ پانی ضائع نہ کریں۔ 8 منٹ شاور سے نہانے میں 165 لیٹر پانی لگتا ہے جبکہ بالٹی کے ذریعے صرف 35 لیٹر پانی خرچ ہوتا ہے، ہمیں ایسے طریقے اپنانے ہیں جن سے پانی کے ضیاع کو روکا جاسکے۔ ماحولیاتی مسائل کا خاتمہ کسی ایک محکمے کا کام نہیں، نہ ہی کوئی اکیلے انہیں ختم کر سکتا ہے۔ تمام محکموں کو چاہیے کہ وہ آپس میں کووارڈینیشن بہتر کریں، مشترکہ پالیسیاں بنائی جائیں اور مل کر مسائل کا خاتمہ کیا جائے، اسی میں سب کی بھلائی ہے۔

سول سوسائٹی کو بھی چاہیے کہ ایسے منصوبے لائے جن سے زمین، پانی، ہوا ، ماحول اور زندگی کو بہتر بنایا جاسکے۔ ہم نے سکول کی سطح پر گرین کلبز بنائے ہیں جہاں بچوں کو ایسی سرگرمیوں میں شامل کیا جاتا ہے جو ماحول کو محفوظ بنانے کیلئے ضروری ہیں، انہیں ماحول بچانے او ر غلط رویے بدلنے کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر سکول کی سطح سے ہی بچوں کی تربیت اور ذہن سازی کی جائے تو بڑی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔

اس میں ایک تجویز یہ ہے کہ داخلے کیلئے تحفظ ماحولیات کے حوالے کام کے اضافی نمبر رکھے جائیں،ا س طرح ہر بچہ اپنا کردار ادا کرے گا۔ حکومت کلائمیٹ چینج پالیسی لا رہی ہے، ہمارا مطالبہ ہے کہ اس میں سول سوسائٹی سے لازمی مشاورت کی جائے۔ اس پالیسی میں بچوں کو ترجیح دینی چاہیے۔

ان کو مدنظر رکھتے ہوئے اقدامات کرنے چاہئیں اور ان کی شمولیت بھی یقینی بنانی چاہیے۔اس پالیسی میں یہ دیکھنا چاہیے کہ کس طرح بچوں کو ماحولیاتی مسائل کے اثرات سے بچایا جاسکتا ہے، ان کی آواز کو کیسے توانا بنایا جاسکتا ہے، انہیں کس طرح مثبت اقدامات میں شامل کیا جاسکتا ہے اور وہ کیسے ملک کا مستقبل بہتر بنانے میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔ محکمہ تحفظ ماحولیات نے 'سنگل یوز پلاسٹک' کے خاتمے پر خصوصی زور دیا ہے۔ اس بارے میں لوگوں کو آگاہی دینے کیلئے کمیونی کیشن سٹرٹیجی بنائی جائے ۔ موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہمیں بہت نقصان ہو رہا ہے، بچاؤ کیلئے رویے بدلنا ہونگے۔

انعم رؤف

(گرین کلب ایمبیسیڈر، گورنمنٹ اے پی ایس گرلز ہائی سکول، ماڈل ٹاؤن، لاہور )

میں آٹھوں جماعت کی طالبہ ہوں اور گزشتہ ڈیرھ برس سے گرین کلب کی سفیر ہوں۔

ہمارے کلب میں تین ٹیچرز اور 15 طلبہ شامل ہیں جو آب وہوا کے حوالے سے کام کر رہے ہیں۔ نوجوان ملک کا سرمایہ ہیں، اگر ہمیں درست سمت دے دی جائے اور قابلیت سے فائدہ اٹھایا جائے تو تمام ملکی مسائل کا خاتمہ کرکے تقدیر بدلی جاسکتی ہے۔ اس وقت پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی مسائل کا سامنا ہے اگر ایسے میں نوجوانوں کی تربیت کی جائے اور ان میں مثبت رویوں کو فروغ دیا جائے تو بہت فائدہ ہوسکتا ہے۔

اس ضمن میں سکول کی سطح سے کام کا آغاز کرنا چاہیے۔ سکول میں ہفتہ وار خصوصی لیکچرز ہونے چاہئیں جن میں فطرت سے پیار کا جذبہ پید اکیا جائے۔ اساتذہ کو ایسی سرگرمیاں کروانی چاہئیں جن سے طلبہ نہ صرف سکول بلکہ گھر اور علاقے میں بھی ماحول بہتر بنا سکیں۔ انہیں ویسٹ مینجمنٹ کی تربیت دینی چاہیے تاکہ کچرے کو کنٹرول کیا جائے اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل کو کم کیا جاسکے۔ پانی کے ضیاع کو روکنے کیلئے تربیت دینی چاہیے۔

ہمیں موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی مسائل کی روک تھام کیلئے بڑے اور فوری اقدامات کرنے چاہئیں۔ ایسے پودے لگانے چاہئیں جو جلدی بڑے ہوں اور ایسے درخت لگانے چاہئیں جو ماحول کو صاف کریں۔ مثال کے طور پر نیم کا پودہ جلدی بڑا ہوتا ہے اور ماحول سے کاربن ڈائی آکسائڈ بھی زیادہ جذب کرتا ہے جس سے ماحول کو فائدہ ہوتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی مسائل ہمارے لیے بڑے چیلنجز ہیں جن سے نمٹنے کیلئے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے لہٰذا اس حوالے سے پالیسی سازی کی جائے۔

یہاں یہ بات خصوصی طور پر مدنظر رکھنی چاہیے کہ ماحول کے حوالے سے پالیسی بناتے وقت بچوں کو لازمی مدنظر رکھیں، ان کی شمولیت یقینی بنانی چاہیے اور یہ خیال ضرور رکھنا چاہیے کہ بچے کیا سوچتے ہیں، انہیں کیا مسائل ہیں اور ان کے حل کیلئے ان کے پاس کیا تجاویز ہیں۔ تعلیمی نصاب میں بھی موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے کورس کا اضافہ کرنا چاہیے تاکہ طلبہ کو درست آگاہی دی جاسکے۔ ہمیں ایک ذمہ دار شہری کے طور پر عمل کرنا چاہیے۔ ہمیں یہ جذبہ پیدا کرنا چاہیے کہ یہ ہمارا ملک ہے اور ہمیں اسے صاف اور مسائل سے پاک کرنا ہے۔ بقول شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ :

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔