زندگی ایک کھیل کی مانند ہے اور اس کو اسی حساب سے لے کر چلنا اچھا ہوتا ہے۔ کھیل اس لیے کہ ہم کسی ایک غم کو دل سے لگا کر نہیں بیٹھ سکتے اور نہ ہی کسی کامیابی کو حرف آخر تصور کرسکتے ہیں۔ فی زمانہ ترقی کا معیار ہر کسی کےلیے الگ اور مختلف ہے لیکن کچھ چیزیں ایسی ضرور ہیں جنہیں مکمل نہیں تو کسی حد تک نظر انداز کرکے ہم زندگی کے اصلی رنگوں سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔
مہلک رشتے
انسان معاشرتی حیوان ہے اور اس اعتبار سے وہ تنہا زندگی بسر نہیں کرسکتا۔ لیکن ہماری زندگی میں جہاں بہت سے اچھے رشتے ہوتے ہیں جن سے ہم اپنے دل کی بات کہہ سکتے ہیں، اپنی محبت کا اظہار کر سکتے ہیں، وہیں بہت سے رشتے ایسے ہوتے ہیں جو ہمیں مجبوری میں نبھانا پڑتے ہیں۔ یہ رشتے ہماری ذہنی صحت اور گروتھ پر منفی اثر ڈالتے ہیں۔ مثلاً کوئی دوست ہمیشہ ہمیں تنقید کا نشانہ بناتا ہے، ہماری کوئی چیز اس کےلیے قابل تعریف نہیں ہوتی تو ایسے حالات میں ہماری ترقی کے چانسز کم ہونے لگتے ہیں۔ ہمیں مہلک رشتوں کو اپنی زندگی میں رکھنے سے گریز کرنا چاہیے لیکن اگر ایسا ناممکن ہو تو حتی الامکان مہلک رشتوں کو نظر انداز کرنا چاہیے۔ مثبت خصوصیات کے حامل رشتوں کو زندگی میں رکھنے سے ہم زندگی میں آگے بڑھتے ہیں۔
حد سے زیادہ سوچنا
سوچ بچار ایک اچھا اور مثبت ذہنی عمل ہے لیکن کسی بھی چیز یا صورتحال پر حد سے زیادہ سوچنا ہمیں مفلوج کر دیتا ہے۔ ہم کوئی اچھا فیصلہ نہیں کر سکتے اور بے سوچے سمجھے کوئی کام کرلیتے ہیں کیونکہ ہم کسی بھی چیز سے متعلق ضروری معلومات حاصل نہیں کرتے اور حد سے زیادہ سوچنا ہمیں منفی یا غلط فیصلوں کی طرف مائل کر دیتا ہے۔
ناکامی کا خوف
زندگی میں کامیابی کےلیے بہت سے رسک لینا پڑتے ہیں تب ہی ہمارے خواب مکمل ہوتے ہیں اور حقیقت کا روپ دھارتے ہیں۔ لیکن ہم بسا اوقات ناکامی کے خوف سے رسک ہی نہیں لیتے اور لگی بندھی روٹین پر ہی چلتے ہیں جس سے جمود کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انسان اتنا ناکام کام نہ کرنے سے نہیں ہوتا جتنا وہ منفی سوچنے سے ہوتا ہے، یعنی کسی بھی کام کو کرنے سے پہلے غلظ اندازے لگا لینا ہمیں ناکام کرنے کےلیے کافی ہوتا ہے۔ جنگ جیتنے کےلیے میدان میں اترنا پڑتا ہے اس کے بعد ہی فتح یا شکست کا مرحلہ آنے کی نوبت آتی ہے۔
سوشل میڈیا کا حد سے زیادہ استعمال
سوشل میڈیا آج کے دور کی ایک اہم ضرورت ہے لیکن سوشل میڈیا کا حد سے زیادہ استعمال ہم میں حسد، رقابت اور ضد کے عناصر پیدا کرتا ہے۔ دوسروں کی پرسکون زندگی کو دیکھ کر ہم رشک یا حسد میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور پھر انہی جذبات کے زیر اثر ہم میں منفی خیالات پیدا ہونے لگتے ہیں۔ اگرچہ ہم جانتے بھی ہوتے ہیں کہ سوشل میڈیا کی دنیا ایک جھوٹی شان و شوکت کی دنیا ہے، فریب کاری یا محض شوشا ہی ہے لیکن پھر بھی ہم اس سے بہت جلدی متاثر ہوجاتے ہیں اور دوسروں کی دیکھا دیکھی بجائے اپنے آپ میں تبدیلی پیدا کریں، اپنے سوشل میڈیا پروفائلز پر ایک سے بڑھ کر ایک خودنمائی کے عناصر ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ جبکہ ہمیں چاہیے کہ ہم اس مصنوعی دنیا سے باہر نکلیں، مطالعہ کی عادت اپنائیں اور جسمانی سرگرمیوں میں حصہ لیں۔
غیر حقیقی توقعات وابستہ کرنا
توقعات دو طرح کی ہوتی ہیں ایک تو وہ جو ہم دوسروں سے وابستہ کرتے ہیں اور ایک جو خود سے، لیکن دونوں کا حقیقی ہونا بہت ضروری ہے۔ اپنے دوستوں اور رشتوں سے یہ توقع کرنا کہ وہ ہر موقع پر ہمارا ساتھ دیں گے یہ حقیقی توقع نہیں کیونکہ وہ بھی انسان ہیں اور ان کی بھی بہت سی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ اسی طرح امتحان میں بہت اعلیٰ گریڈز حاصل کرنا یا کم استطاعت ہوتے ہوئے مستقبل کے سہانے سپنے دیکھنا بے وقوفی نہیں تو اور کیا ہے۔
خود سے منفی باتیں کرنا
خود سے منفی باتیں کرنا انسان کو آسانی سے ناکامی کے منہ میں دھکیل دیتا ہے۔ خود سے مثت باتیں کرنا اور اپنے آپ کو بہتر بنانے کی کوشش کرنا سب سے اہم ہے۔ نفسیات کے مطابق انسان خود سے جو باتیں کرتا ہے اس کا براہ راست اثر انسان کے دماغ پر ہوتا ہے اور دماغ اسی حساب سے عمل کرنے لگتا ہے، لہٰذا خود سے ہمیشہ اچھی اور پرامید باتیں کرنا چاہئیں۔
کمفرٹ زون سے باہر نہ نکلنا
ہم ایک ہی نوکری کو محض کمفرٹ سمجھتے ہوئے کبھی بھی آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ کمفرٹ زون سے نہ نکلنا ہمیں بہت حد تک حالات کا پابند بنا دیتا ہے اور ہماری ترقی کی راہیں مسدود کر دیتا ہے۔
دوسروں سے موازنہ کرنا
دوسروں سے تقابل اور موازنہ سوائے ذہنی کوفت کے اور کچھ نہیں دے سکتا۔ کسی کے اچھے گھر، لباس اور کھانے پینے کو دیکھ کر حسد یا رشک کرنا انسان کو ناشکری میں مبتلا کردیتا ہے۔
مادیت پرستی
حد سے زیادہ مادیت پرستی بھی کوئی اچھی عادت نہیں ہے۔ آج کے زمانے میں دیکھیں تو لوگوں کے پاس کھانے کے پیسے بے شک نہ ہوں لیکن موبائل مہنگا ترین ضرور ہونا چاہیے۔ مادیت پرستی انسان کا سکون چھین لیتی ہے۔
اگر زندگی میں آگے بڑھنا ہے تو ان سب چیزوں سے مکمل تو نہیں لیکن کسی حد تک اجتناب ضروری ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔