کان مزدوروں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے
اسپتال میں ہنگامی صورتحال کے لیے مناسب ادویات اور ضروری آلات دستیاب نہیں ہیں
بلوچستان کے علاقے سنجدی کی کوئلہ کان میں دم گھٹنے سے 11کان کن جاں بحق ہوگئے، جاں بحق ہونے والے محنت کشوں تعلق خیبر پی کے علاقے سوات سے تھا، نعشیں نکال لی گئیں۔ میڈیا نے بتایا ہے کہ حادثے کے بعدکان کو سیل کردیا گیا ۔ جاں بحق ہونے والوں میں منیجر مائنز، ٹھیکیدار اور 9 مزدور شامل ہیں۔
پاکستان میں کاکنی ایک مشکل پیشہ ہے ۔ کانوں میں گیس بھر جانے کے سبب دھماکے و دیگر حادثات کی شرح بڑھ رہی ہے ، کہیں کان بیٹھ جاتی ہے ، ان حادثات کی وجہ سے کاکنوں کی شرح اموات بھی بڑھ رہی ہیں۔ ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ کاکنوں کی حفاظت کے فول پروف انتظامات نہیں کیے جارہے ہیں۔کان کنوں کی اجرت بھی کم ہے اور انھیں علاج و معالجے کی سہولیات بھی کم ہیں۔
کان کن دو وقت کی روٹی اور اپنے بچوں کا مستقبل سنوارنے کے لیے ' کان کے اندر اندھیروں کی دنیا میں تو چلے جاتے ہیں، مگرکچھ پتہ نہیں چلتا کہ وہ اپنے پاؤں پر سلامت آئیں گے یا ان کی لاش کوکوئی کندھا دے کر کان سے باہر لائے گا۔ حادثے کے علاقے سنجدی میں اسپتال قائم کر کے وہاں پر گزشتہ برس لگ بھگ چالیس افراد کا عملہ تعینات کیا گیا تھا، تاکہ ہنگامی صورتحال میں مزدوروں کو جلد علاج و معالجے کی سہولت فراہم کی جائے مگر میڈیا کی اطلاعات کے مطابق یہاں انتہائی کم تعداد میں طبی عملہ ڈیوٹی پر موجود ہوتاہے۔
اسپتال میں ہنگامی صورتحال کے لیے مناسب ادویات اور ضروری آلات دستیاب نہیں ہیں ،کوئی حادثہ رونما ہو تو مزدور شہرکا رخ کرتے ہیں اور سڑک نہ ہونے کی وجہ سے اکثر مزدور دوران سفر لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ پاکستان میں کان کنوں کی بڑھتی اموات کی وجہ مائننگ کا انتہائی فرسودہ نظام بھی ہے۔ حکومتی سنجیدگی اور اقدامات کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اب بھی سوسال پرانا '' بلوچستان مائنز ایکٹ1923'' لاگو ہے اور اس پر بھی عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔
سنجدی کے علاوہ بلوچستان سورینج، ڈگاری، مارواڑ، چمالنگ، دکی، ہرنائی، شاہرگ، کھوسٹ، بولان کے علاقے مچھ و دیگر علاقوں سے کوئلہ نکالا جاتا ہے۔ ان کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی زیادہ تعداد خیبر پختونخوا کے دیر، شانگلا، سوات، بلوچستان کے توبہ اچکزئی، توبہ کاکڑی، قلعہ سیف اللہ، مسلم باغ، سبی اورہمسایہ ملک افغانستان سے آئے مہاجرین اور ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد بھی کان کنی کے شعبے سے منسلک ہیں۔
باعث تشویش امریہ ہے کہ کسی محکمے کے پاس مزدوروں کا مکمل ڈیٹا موجود نہیں ہے۔ کوئلے کی کانوں میں 800 سے 1000 فٹ کے بعد زہریلی گیس والا علاقہ شروع ہو جاتا ہے، جہاں مزید کھدائی کے لیے کان کنوں کو حفاظتی آلات دینے کے ساتھ کانوں کی چھت کو ایک خاص تکنیک سے بنایا جاتا ہے تاکہ دھماکے کی صورت میں اندر پھنسے مزدوروں کو با آسانی نکالا جا سکے، لیکن پاکستان میں کانوں میں اس طرح کی کوئی تکنیک زیر استعمال نہیں ،اسی وجہ سے نقصانات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔
ان علاقوں میں سیکیورٹی کی صورتحال بھی تسلی بخش نہیں ہے ۔ بلوچستان میں چمالنگ، مارگٹ، مارواڑ اور دیگر علاقوں میں مزدوروں کی حفاظت کے انتظامات ناقص ہیں۔ زیادہ ترکان کن پڑھے لکھے نہیں ہیں لہٰذا وہ گہری کانوں میں کھدائی کے لیے لازمی حفاظتی انتظامات سے واقف ہی نہیں ہیں، مزدوروں کی اکثریت سانس اور پھیپھڑوں کی بیماریوں کا شکار ہے مگر کان کی انتظامیہ کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ شدید بیماری میں بھی مزدوروں کوئی میڈیکل الاؤنس نہیں دیا جاتا۔ زیادہ تر کان مالکان نے انتظامات مقامی ٹھیکیداروں کے حوالے کیے ہوئے ہیں، جو خود روزانہ لاکھوں کمانے والے بمشکل 1ہزار یومیہ دیہاڑی دیتے ہیں۔
2018 سے اب تک ہر برس200 سے زائد کان کنوں کی مختلف حادثات میں اموات ہوئی ہیں، مگر ان کی کوئی شنوائی نہیں۔ تربیت کی کمی اور لاپروائی کی وجہ سے تقریباً 25 فیصد مزدور حفاظتی ہیلمٹ پہنتے ہیں، کئی جگہ ہیلمٹ کی سہولت ہی دستیاب نہیں ہے، جب کہ بہت کم تعداد میں کان کن ماسک، دستانے و دیگر حفاظتی سامان استعمال کرتے ہیں۔
مزدوروں کو کان میں گیس بھرجانے یا دیگر حادثات کا پتہ نہیں چلتا۔ اس ضمن میں پاکستان میں کوئی ڈیٹا دستیاب نہیں ہے کیونکہ زیر زمین رونما ہونے والے بیشتر حادثات رپورٹ نہیں ہوتے۔ کان کن حد سے زیادہ کام کرتے ہیں اور انھیں اتنا وقت نہیں ملتا کہ وہ کھانے سے پہلے اپنے ہاتھ دھولیں۔ صحت کی سہولیات کی کمی کی وجہ سے مزدوروں کے بچے بیمار ہوجاتے ہیں۔
حکومت صحت کے مراکز کو مکمل طور پر فعال بنائے۔ کان کنوں کے بچوں کے لیے ایک ماہرِ اطفال بھی مقررکیا جانا چاہیے۔ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے کان کن معمولی رقم ہی کماتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کا مناسب علاج نہیں کروا سکتے۔ کان کنوں میں سے زیادہ تر افراد ٹی بی کا شکار ہیں، اور یہ مرض خاندان کے دیگر افراد تک پھیلتا ہے کیونکہ یہ ایک بیکٹیریل انفیکشن ہے۔
مائننگ ایریاز میں چھوٹی ڈسپنسریاں موجود ہیں، جہاں مزدوروں کو ابتدائی طبی امداد دی جاتی ہے لیکن ان ڈسپنسریوں میں بعض اوقات ادویات دستیاب نہیں ہوتی ہیں۔ ایمبولینس کی سہولت بہت کم ہے، گرد و غبار کی وجہ سے کان کنوں کو سانس لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کم سے کم 10 یا زیادہ سے زیادہ 15 سال کے بعد مزدور کان میں کام کرنے کے قابل نہیں رہتا، اس کے پھیپھڑے اور گردے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں، اس کے بعد بھی کوئی کام پہ چلا جائے تو وہ مرجاتے ہیں۔ ٹھیکیداری کا نظام بھی کان کنوں کی ہلاکتوں میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔
محکمہ مائنز کے پاس مائننگ انجینئرزکی تعداد کم ہے جو چیک اینڈ بیلنس کو قائم نہیں کرسکتے، بڑی کمپنیاں ٹھیکیداروں کو کام دیتی ہیں جو آگے مزید چھوٹے ٹھیکیداروں کو کام دے دیتے ہیں۔ چھوٹے ٹھیکیداروں کے پاس وسائل محدود ہوتے ہیں، ان کے پاس حفاظی آلات موجود نہیں ہوتے، چھوٹے ٹھیکیدار غیر تربیت یافتہ ورکروں کو ڈھائی سے تین ہزار فٹ گہرائی میں کام کرنے کے لیے بھیج دیتے ہیں جس سے ان کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔
کانوں میں گیسوں کی موجودگی کا پتہ لگانے کے لیے ڈیجیٹل ڈیٹیکٹرز ہوتے ہیں لیکن پاکستان میں تاحال پرانے طریقوں کو استعمال کیا جا رہا ہے، اگر کان کے اندر 15 سے 20 فیصد گیس ہو تو اس سے ایک بہت بڑا دھماکا ہوسکتا ہے، جس کی وجہ سے کان کنوں کے بچنے کے مواقعے کم ہوتے ہیں۔ مائنز میں کام کرنے والوں کے لیے صحت اور سلامتی کے لیے جو مجموعی پروٹوکول ہیں ان کا بھی خیال نہیں رکھا جا رہا ہے۔
کان مالکان لیز اپنے نام الاٹ کرانے کے بعد زیادہ تر خود کام نہیں کرتے بلکہ وہ ان کو ٹھیکیداروں کے حوالے کر دیتے ہیں اور پھر بڑے ٹھیکیدار آگے پیٹی ٹھیکیداروں کو یہ کام دے دیتے ہیں۔ چھوٹے ٹھیکیدار کو کم دام میں زیادہ کام کی ضرورت ہوتی ہے ، وہ کان کنوں پر زیادہ خرچ نہیں کرسکتے ، ان کی توجہ کم انوسٹمنٹ سے زیادہ منافع کمانے پر ہوتی ہے۔ ٹھیکیداری نظام کی وجہ سے حفاظتی انتظامات کو یقینی نہیں بنایا جاتا جس کی وجہ سے مزدوروں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہوتے ہیں۔
پاکستان میں کاکن پسماندہ اور قبائلی علاقوں میں واقع ہیں، یہاں قوانین کا نفاذ کمپرومائزڈ ہوجاتا ہے، کوئی حادثہ ہوجائے تو ذمے داروں سزا کم ہی ملتی ہے ۔ جب سزا کا تصور نہ ہو تو وہاں طاقتور لوگ من مانی کرتے ہیںاور قوانین کی کوئی پرواہ نہیں کرتے۔ ٹھیکیداروں کی غیر ذمے داری اور نااہلی اپنی جگہ رہی، سرکاری سطح پر ریسکیو کے بھی انتظامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اگر ریسکیو، مائنز انسپکٹر زاپنا کام ذمے داری اور ایمانداری سے سرانجام دیں تو حادثات پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
کان کن اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کام کرتے ہیں، ان کی تنخواہوں کا تعین اسی مناسب سے حکومت کرے۔ کان کنوں کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کے لیے حفاظتی آلات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ مائنز ایریا میں صحت کی جدید سہولیات سے آراستہ اسپتال بنائے جائیں۔ ہر کان کے قریب ایمرجنسی کے لیے ایمبولینس سروس مہیا کی جائے اور ابتدائی طبی امداد کو یقینی بنایا جائے۔
حادثاتی اموات پر فی کس 10 لاکھ پر معاوضہ ادا کیا جائے اور گروپ انشورنس کو لازمی کیا جائے۔ ملک میں کوئلے کی خدمت کو بطور انڈسٹری تسلیم کیا جائے۔ شدید زخمی اور معذور ہوجانے والے کان کنوں کے معاوضے کا تعین سرکاری سطح پر کیا جائے۔ صوبائی اور وفاقی حکومت کی ذمے داری ہے کہ کان کنوں کو روزگار اور جان و مال کا تحفظ فراہم کرے۔