سیاسی بیانئے اور عوام
مسلم لیگ ن کے بلا مقابلہ منتخب صدر میاں نواز شریف اپنی جماعت کے لیے ایک نئے بیانئے کی تلاش ہیں
ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان بیانئے کی جنگ جاری ہے۔ ہر جماعت اپنا سیاسی بیانیہ عوام تک پہنچانے کی کوشش کررہی ہے لیکن کوئی ایسا بیانیہ دینے سے قاصر ہیں جس سے عوام کو دلچسپی ہو ۔گزشتہ کئی دہائیوں سے عوام ان سیاسی جماعتوں کے بیانئے کی بنیاد پر ہی ووٹ کے ذریعے منتخب کرتے آئے ہیں لیکن ایک طویل مدت کے بعد عوام یہ بات اچھی طرح جان اور سمجھ چکے ہیں کہ یہ بیانئے صرف ووٹ کی وصولی کی حد تک ہوتے ہیں اور جیسے ہی کوئی جماعت اقتدار میں آجاتی ہے، اس کا بیانیہ یکسر تبدیل ہو جاتا ہے۔ عوام کی مشکلات اور دکھوں کا مداوا کرنے کے لیے حکمران کی آنکھیں اور کان بند ہو جاتے ہیں جو بالآخر سیاسی جماعتوں کے زہر قاتل ثابت ہوتے ہیں اور اس کا مشاہدہ ہم نے ماضی میں بارہا کیا ہے۔
مسلم لیگ ن کے بلا مقابلہ منتخب صدر میاں نواز شریف اپنی جماعت کے لیے ایک نئے بیانئے کی تلاش ہیں۔ مسلم لیگ ن وفاق اور پنجاب کی حکومت سنبھالے ہوئے ہے۔ حکومت کی حلیف جماعتیں بھی غیر مشروط حمایت کر رہی ہیں اور مقتدرہ کی حمایت بھی حاصل ہے۔حکومت کے ''بدخواہ'' ابھی تک اپنی صفیں درست نہیں کر سکے اور نہ ہی ان کو کوئی لیڈر مل رہا ہے جو ان کی قیادت کر سکے۔
تحریک انصاف کے بانی چیئرمین کو عدالتوں سے ریلیف ضرور مل رہا ہے لیکن ان کی رہائی ابھی نظر نہیں آرہی ۔البتہ ان کی پارٹی کے صدر چوہدری پرویز الٰہی عدالت کے ذریعے رہائی پا چکے ہیں لیکن ابھی تک وہ خاموش ہیں ۔ معلوم ہوا ہے کہ ان کی صحت اتنی اچھی نہیں ہے لیکن وہ وقتاً فوقتاً میڈیا کے ذریعے اپنی پارٹی کے بانی چیئر مین سے محبت کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن ابھی تک گو مگو کی کیفیت میں ہیں اور وہ جلسوں میںحکومت مخالف گرما گرماور زور دار بیانات سے ہی کام چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
خیبر پختونخواہ جو مولانا کا اصل گڑھ ہے وہاں پر ان کا سیاسی مقابلہ تحریک انصاف سے ہے اور موجودہ صورتحال میں تحریک انصاف کے مقتدرہ مخالف سیاسی بیانئے کی وجہ سے ان کی تحریک انصاف کے ساتھ سیاسی گٹھ جوڑ سے کتراہٹ سمجھ میں آتی ہے ۔ ادھر ہمارے دوست فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ حکومت کو تب تک ڈھیل ہے جب تک عمران خان اور مولانا فضل الرحمن اکھٹے نہیں ہوتے ۔ اس اتحاد میں کتنا وقت لگتا ہے یہ آنے والے دنوں میں واضح ہو جائے گا۔
حکومت مخالف سیاسی اتحاد تب ہی پنپ پائے گا جب وہ تما م سیاسی جماعتیں جن میںبلوچستان اور سندھ کی قوم پرست جماعتیں بھی شامل ہیں وہ ایک مشترکہ لائحہ عمل اور ایجنڈے پر متفق ہوں گی اور وہ ایجنڈا گزشتہ انتخابات میں کی گئی مبینہ دھاندلی پر مشتمل ہو گا، یہ وہ ایجنڈا ہے جس پر بادی النظر میں ابھی تک اپوزیشن میںاتفاق نظر تو آتا ہے لیکن مشترکہ جدو جہد کے لیے کوئی پلیٹ فارم نہیں بنایا جا سکا۔ حکومت مخالف متوقع اتحاد کا مقابلہ اکیلے نواز لیگ نے کرنا ہے کیونکہ وفاق اور ملک کے سب سے بڑے صوبے کی حکمران جماعت ہونے کے ناطے وہی اس اتحاد کے نشانے پر ہو گی ۔حکومت کی دوسری اتحادی جماعتیں جن میں پیپلز پارٹی کا سب سے اہم کر دار ہے اس نے ابھی تک حکومت میں شمولیت اختیار نہیں کی ہے اور صرف آئینی عہدوں پر ہی منتخب ہو نے کو ترجیح دی ہے ۔
اس صورتحال میں حکومت مخالف سرگرمیوں کا مقابلہ اچھی حکمرانی اور عوام کو سہولت فراہم کرنے کے بیانئے سے ہی کیا جاسکتا ہے جس کے لیے وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز دن رات ایک کیے ہوئے ہیں ۔ پنجاب کے عوام کے لیے مختلف منصوبہ جات ایک مقررہ مدت میں مکمل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ایک مثبت اشارہ یہ ہے کہ حکومتی اقدامات سے مہنگائی میں کمی دیکھنے میں آرہی ہے اس کمی کا فائدہ عام آدمی کو ہورہا ہے لیکن کسان شدیدناراض ہیں اس ناراضگی کو دور کرنے کے لیے حکومت کو آیندہ فصلوں کی کاشت کے لیے کسان کو ارزاں نرخوں پر بیج، کھاد، ادویات ،بجلی اور ڈیزل کی فراہمی کو ممکن بنانا ہوگا ۔
کسان اپنی فصل کی منڈی میں مطلوبہ قیمت فروخت نہ ملنے سے فصل کی کاشت کی عمل کو روک دے گا یا اس میں کمی کر دے گا جس کا نقصان دوررس ہو گا اور حکومت کو قیمتی زرمبادلہ خرچ کر کے ان فصلوں کو درآمد کرنا پڑے گا کیا ہی اچھا ہو کہ جو خرچ درآمدات پر کرنا ہے اور جس سے چند ساہوکار مستفید ہوں گے اس سے کہیں بہتر ہے کہ وہی پیسہ کسانوں کو فصل کی کاشت کے لیے مطلوب اجزاء کی کم قیمت فراہمی پر خرچ کر دیا جائے تو اس سے کسان خوشحال ہو گا اور اس کی حکومت سے ناراضگی بھی ختم ہو جائے گی۔
دیکھنا یہ ہو گا کہ میاں نواز شریف پارٹی صدر منتخب ہونے کے بعد کیا چمتکار کر پائیں گے جس سے ان کی پارٹی کی عوام میں گرتی ساکھ بحال ہو سکے۔