ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
عمران خان نے اپنے جیل کی صورتحال کا جو خاکہ پیش کیا اس پر تو ہر انسان کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔
گزشتہ دنوں پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے مبینہ طور پر ایک غیر ملکی صحافی کو انٹرویو دیا ہے جس میں انھوں نے حسب عادت یو ٹرن پر یوٹرن لیتے ہوئے سیاسی و عسکری قیادت سے متعلق بہت سی باتیں کی ہیں۔
مبینہ طور پر اس غیر ملکی صحافی نے بانی پی ٹی آئی کو بذریعہ خط سوالات اڈیالہ جیل بھیجے تھے۔ سوالات اورجواب کو ایک انٹرویو کی شکل میں اس صحافی نے اپنی ویب سائٹ پر اپلوڈ کیا ہے۔ قارئین پہلے اس انٹرویو کے چند اقتباسات پڑھ لیں پھر اس انٹرویو کے اصلی یا نقلی ہونے اور اس کے اثرات پر گفتگو کریں گے۔
بانی پی ٹی آئی نے سوالات کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ''مجھے اپنے دور اقتدار کا واحد پچھتاوا یہ ہے کہ میں نے جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ پر اعتماد کیا۔'' خان صاحب نے اپنی سزا کو بھی انھیں پر ڈال دیا ہے اور فرمایا ہے کہ انھوں نے یہ سب کچھ اپنی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے کیا ہے۔
ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اب بھی یقین رکھتے ہیں کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ انھیں عہدے سے ہٹانے کے عمل میں ملوث تھی؟ تو انھوں نے اس کی تمام تر ذمے داری بھی جنرل باجوہ پر عائد کی اور کہا کہ انھوں نے تن تنہا یہ کام کیا ۔موصوف نے مزید فرمایا ہے کہ عوام میں میری مقبولیت کی وجہ یہ ہے کہ انھیں معلوم ہے کہ "میں ان سے کبھی جھوٹ نہیں بولوں گا، وہ جانتے ہیں کہ کوئی مجھے خرید یا تبدیل نہیں کر سکتا، وہ جانتے ہیں کہ میں جھکوں گا، نہ انھیں مایوس کروں گا۔" عمران خان نے اپنی قید اور جیل میں سہولیات سے متعلق اس انٹرویو میں فرمایا کہ '' میں ڈیتھ سیل میں ہوں، یہ ایک چھوٹی سی الگ تھلگ جگہ ہے جو عام طور پر دہشت گردوں کے لیے مخصوص ہوتی ہے۔ مجھے قیدیوں کے بنیادی حقوق سے بھی محروم رکھا گیا ہے کیوں کہ وہ میری روح کو توڑنے کے لیے نفسیاتی حربے استعمال کر رہے ہیں لیکن میرا اللہ پر یقین کامل وہ وجہ ہے جس نے مجھے مضبوط رکھا ہوا ہے۔ میں ورزش اور مطالعے کے ذریعے خود کو مصروف اور ذہنی طور پر تیز رکھتا ہوں اور اللہ کی طاقت مجھے مضبوط اور مطمئن رکھتی ہے۔''
اگر اس انٹرویو میں عمران خان کی باتوں کو ان کے ماضی کے بیانات کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جائے تو یہ تضادات اور کہہ مکرنیوں کا مجموعہ ہے مگر فی الحال ہم صرف اس مبینہ انٹرویو میں موجود تضادات پر غور کرتے ہیں۔
عمران خان نے اپنے جیل کی صورتحال کا جو خاکہ پیش کیا اس پر تو ہر انسان کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ مگر اسی انٹرویو میں وہ فرماتے ہیں "میں ورزش اور مطالعے کے ذریعے خود کو مصروف اور تیز رکھتا ہوں" پتہ نہیں وہ کونسا ڈیتھ سیل ہے جہاں ورزش اور مطالعہ کی سہولت دستیاب ہوتی ہے؟ دوسری طرف ان سے ہفتہ میں کئی بار ملنے والے صحافیوں، وکلا ، خاندان کے افراد اور پارٹی راہنماؤں کے مطابق عمران خان جیل میں شاہی مہمان ہیں، اور ایک نہیں 8 سیل ان کے استعمال میں ہیں، مبینہ طور پر دیسی گھی میں پکے دیسی مرغ اور بکرے کی رانوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں، باقاعدہ چہل قدمی کرتے ہیں، منی جم میں باقاعدہ ورزش کرتے ہیں لیکن اگر ان سب کو جھوٹ مان کر انٹرویو میں بیان کیے گئے خاکے کو صحیح مان لیا جائے تو یہ بات ہمیں کون سمجھائے گا کہ ان کڑے حالات میں محترم صحافی صاحب کے سوالات خاں صاحب تک کیسے پہنچے اور عمران خان کے جواب مذکورہ صحافی کو واپس کیسے ملے؟
ان حالات میں قوم کس کی بات مانے، غیرملکی صحافی کی یا ان سب کی جو ہفتے میں کئی بار ان سے ملتے ہیں؟اس صحافی اور عمران خان دونوں کو بتانا پڑے گا کہ انٹرویو میں بیان کیاگیا موقف جھوٹ ہے یا سرے سے ہی یہ انٹرویو جعلی اور جھوٹا ہے یا دونوں جھوٹ ہیں؟
عمران خان اپنی پسند کا جھوٹ ہمیں بتا دیں تاکہ حسب سابق ان کے فالوورزاس کو سچ مان کر سینے سے لگا لیں۔ اگر عمران خان کو انٹرویو کی سہولت دستیاب ہے تو وہ یہ انٹرویو اپنے ملک کے کسی چہیتے صحافی یا یوٹیوبر کو دے سکتے تھے مگر سائفر لہرا کر انھوں نے جو بیانیہ بنایا اسے پاکستانی قوم نے تو امریکا کی روایتی دشمنی کے چکر میں قبول کیا مگر اس کی تشہیر کی وجہ سے امریکا بہادر ان سے ناراض ہوا یا تعلقات میں گرم جوشی نہیں رہی، اب آقا اور غلام کے اس تعلق کو سدھارنے کے لیے بانی تحریک انصاف نے غیر ملکی صحافی کا انتخاب کیا تاکہ اپنی صفائی امریکا کے بااثر طبقے تک آسانی سے پہنچائیں۔
اس نئے بیانیہ کا ٹارگٹ امریکا اور مغربی ممالک کے حکمران ہیں' جس کا مقصد ان طبقوں کی ہمدردیاں حاصل کرنا ہے ۔انھوں نے اپنی غلطیوں کا سارا ملبہ جنرل باجوہ پر ڈالا اور خود معصوم بننے کی کوشش کی حالانکہ حکومت سے ہٹنے کے بعد عمران خان کنٹینر پر چڑھ کر گلا پھاڑ پھاڑ کر امریکا کو مورد الزام ٹھہراتے رہے اور ان کے اسی بیانیے کی بنا پر ان کے حامیوں کی زبانوں پر یہ جملہ مچلتا تھا کہ "کیا ہم غلام ہیں"۔ لیکن اب " نکے" نے سارا ملبہ اس پر ڈال دیا جو اسے اقتدار میں لائے تھے۔
اس انٹرویو نے پی ٹی آئی کے ان کارکنوں کو بڑی مشکل میں ڈال دیا ہے جو امریکا کو مخاطب ہو کرکہتے تھے "کیا ہم کوئی غلام ہیں؟" مگر اس انٹرویو کے ذریعے ان کے قائد نے امریکا اور مغربی ممالک سے جو اپیل کی ہے کہ وہ مداخلت کرکے ہماری جان چھڑائیں۔ انھوں نے اب نیا نعرہ دیا کہ "ہاں! ہم غلام ہیں" وہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ سے بھی مدد کی اپیل کررہے ہیں۔ عوام کو تاثر تو اسٹیبلشمنٹ کو آنکھیں دکھانے کا دے رہے ہیں مگر درحقیقت "نکا" ایک بار پھر فرمانبردار بن کر ملتمس ہے کہ اسٹیبلشمنٹ دوبارہ اس کے سر پر دست شفقت رکھ دے۔ بہر حال بانی پی ٹی آئی کے اس مبینہ انٹرویو میں عقلمندوں کے لیے نشانیاں ہی نشانیاں ہیں۔ اس لیے عوام آنکھیں اور کان کھلے رکھیں کیونکہ، ہیں کواکب کچھ ، نظر آتے ہیں کچھ۔