نئی عالمی معاشی صف بندیاں

پاکستان کو سیاسی و معاشی چیلنجز سے عہدہ برآ ہونے کے لیے سائنس وٹیکنالوجی کی بہت زیادہ ضرورت ہے


Editorial June 09, 2024
پاکستان کو سیاسی و معاشی چیلنجز سے عہدہ برآ ہونے کے لیے سائنس وٹیکنالوجی کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

وزیراعظم شہباز شریف عوامی جمہوریہ چین کے دورے کے آخری مراحل میں ہیں، گزشتہ روز وزیراعظم پاکستان اور چین کے صدر شی جن پنگ کے درمیان انتہائی اہم ملاقات ہوئی، 2024میں عہدہ سنبھالنے کے بعد چین کے صدر کے ساتھ وزیر اعظم شہباز کی یہ پہلی ملاقات تھی۔

اطلاعات کے مطابق یہ ملاقات بیجنگ کے تاریخی گریٹ ہال آف دی پیپلز میں ہوئی جو خاصی طویل اور تفصیلی ملاقات رہی ہے۔ اس موقع پر وفاقی وزراء اور اعلیٰ حکام بھی موجود تھے۔

میڈیا کی اطلاعات کے مطابق پاکستان کے وزیراعظم اور چین کے صدر نے افغانستان، فلسطین اور جنوبی ایشیا سمیت علاقائی اور عالمی امور بشمول مقبوضہ جموں و کشمیرمیں انسانی حقوق کی سنگین صورت حال پر تبادلہ خیال کیا اور ایک دوسرے کے بنیادی امور پر اپنی دیرینہ حمایت کا اعادہ کیا۔

پاکستان اور چین کے تناظر میں یہ ملاقات انتہائی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس میں جنوبی ایشیا کے معاملات پر دونوں رہنماؤں کے درمیان تبادلہ خیالات ہوا ہے۔ افغانستان، مقبوضہ جموں وکشمیر، بھارت اور فلسطین جیسے ایشوز پر دونوں رہنماؤں نے نئے حالات کو سامنے رکھ کر مشاورت کی ہے۔

وزیراعظم شہبازشریف نے چین کے صدر شی جن پنگ کے ویژنری بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو اور گلوبل ڈویلپمنٹ انیشیٹو کو سراہتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ بی آر آئی کے فلیگ شپ منصوبے کے طور پرچین پاکستان اقتصادی راہداری نے پاکستان کی سماجی و اقتصادی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ دونوں رہنماؤں نے سی پیک کے تحت جاری بڑے منصوبوں کی بروقت تکمیل، سی پیک کی اپ گریڈیشن اور دوسرے مرحلے میں سی پیک کے تحت ترقیاتی منصوبے آگے بڑھانے پر اتفاق کیا۔

چین کے صدر شی جن پنگ نے وزیر اعظم کے اعزاز میں عشایئے کا بھی اہتمام کیا۔ اس سے قبل وزیراعظم شہبازشریف نے چینی ہم منصب لی چیانگ سے وفود کی سطح پر ملاقات کی۔ یہ ملاقات بھی گریٹ ہال آف دی پیپلز میں ہوئی جہاں وزیراعظم کے اعزاز میں استقبالیہ تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔ وزیراعظم پاکستان کو گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ چین کے وزیر اعظم لی چیانگ نے بھی وزیر اعظم پاکستان شہبازشریف کو پرتکلف ظہرانہ دیا۔

میڈیا کی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ دونوں وزرائے اعظم نے باہمی اعتماد اور مشترکہ اصولوں پر مبنی اسٹرٹیجک شراکت داری پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اہم معاملات پر ایک دوسرے کی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ اورسی پیک کے اعلیٰ معیار کی ترقی کے لیے مسلسل عزم کا اظہار کیا۔

ان ملاقاتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیراعظم پاکستان کا دورہ چین علاقائی تناظر میں ہی نہیں بلکہ عالمی صف بندی میں بھی نئے راستے تلاش کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ معیشت کے حوالے سے بھی چین کی حکمت عملی سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پاکستان میں مزید سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ وزیراعظم میاں شہباز شریف کے اس دورے میں پاکستان اورچین کے درمیان 23 معاہدوں اورمفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے۔

اس تقریب میں وزیراعظم شہباز شریف، آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر اور چینی وزیراعظم لی چیانگ نے شرکت کی۔ جن معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے ان میں مشترکہ فلم سازی، خبروں اور اطلاعات کے تبادلے اور تعاون، پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن اور چائینہ میڈیا گروپ کے درمیان مفاہمتی یادداشت، سی پیک میں تھرڈ پارٹی کی شراکت داری کے حوالے سے ضابطہ کار پر دستخط کے علاوہ ڈیرہ اسماعیل خان ، ژوب قومی شاہراہ کی فزیبیلٹی اسٹڈی، مظفرآباد، میرپورمنگلا ایکسپریس وے کی فزیبیلٹی اسٹڈی، مانسہرہ چلاس قومی شاہراہ پر بابو سر کے مقام پر ٹنل کی تعمیر، کراچی حیدر آباد موٹر وے ایم 9کے حوالے سے فزیبیلٹی اسٹڈی، قراقرم ہائی وے کی ری الائنمنٹ کی مفاہمتی یادداشتوں پردستخط کیے گئے۔

مزید برآں 2022کے صنعتی تعاون کے فریم ورک کے نفاذ کے حوالے سے ایکشن پلان ، سائنسی اور تکنیکی شعبوں میں سرویئنگ، میپنگ اور جیو انفارمیشن کے حوالے سے پروٹوکول پر دستخط کیے گئے۔زراعت کے شعبے میں تعاون بڑھانے،توانائی کے مؤثر مینجمنٹ سسٹم کے حوالے سے اسٹڈی، اجارہ داری کے خاتمے میں تعاون کے حوالے سے مفاہمتی یادداشت، گورننس کے شعبے میں استعداد کار بڑھانے کے حوالے سے ورکشاپ کا لیٹر آف انٹینٹ، انڈسٹریل پارک کی تعمیر کے حوالے سے ورکشاپ کا لیٹر آف انٹینٹ، ساتویں جوائنٹ ورکنگ گروپ کے سی پیک کے تحت صنعتی شعبے میں تعاون بڑھانے کے اتفاق کی توثیق ،پاک چین دوستی اسپتال گوادر کی حوالگی کا سرٹیفیکیٹ ،گوادر میں سمندری پانی کو میٹھا کرنے کے پلانٹ کی حوالگی کا سرٹیفکیٹ، سندھ میں پرائمری اسکولوں کی دوبارہ تعمیر کا لیٹر آف ایکسچینج، لیڈی ہیلتھ ورکرز ورک اسٹیشن کے منصوبے کا لیٹر آف ایکسچینج، جوناکو کلٹیویشن ڈیمانسٹریشن اینڈ پروجیکشن کے منصوبے کا لیٹر آف ایکسچینج شامل ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف اور چین کی نیشنل پیپلز کانگریس کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین ژاؤ لیجی کے درمیان بھی ملاقات ہوئی۔

چین اپنی معیشت کی تیزرفتار ترقی کے لیے چین کے جنوبی صوبے سنکیانک میں بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ اس صوبے کو مشرقی ترکستان کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ چین اس وسیع وعریض خطے میں جو مینوفیکچرنگ یونٹ لگا رہا ہے اور عالمی سرمایہ کاروں کو بھی اس علاقے میں سرمایہ کاری کے لیے راغب کر رہا ہے، چین اپنی اس حکمت عملی کامیابی اسی وقت حاصل کر سکتا ہے جب اس کا روڈ اینڈ بیلٹ منصوبہ کامیاب ہو جاتا ہے اور گوادر ایک جدید بندرگاہ اور شہر کا درجہ حاصل کر لیتا ہے۔

پاکستان کے راستے جنوبی چین کی فیکٹریوں کا سامان انتہائی کم وقت میں بحیرۂ عرب کے ذریعے مشرق وسطیٰ سے افریقہ تک پہنچ سکتا ہے۔ پاکستان چین کے لیے انتہائی ضروری ملک بن چکا ہے۔ پاکستان کو اپنی اس پوزیشن سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اسی طرح مشرق وسطیٰ اور بحر ہند کے ممالک کو وسط ایشیا میں تجارتی منڈیوں تک رسائی بذریعہ پاکستان مل سکتی ہے۔ پاکستان میں جس قدر امن ہو گا اور سرمایہ کاری کے لیے اچھا ماحول ہو گا تو پاکستان کی معیشت اتنی ہی تیزرفتاری سے ترقی کرے گی۔

2010کے بعد چین کی معیشت جس تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے، دنیا کا کوئی بھی دوسرا ملک اس کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے۔ پاکستان بھی اس موقع سے فائدہ اٹھا سکتا تھا لیکن پاکستان کی پالیسیوں کا فوکس معیشت پر بہت کم تھا۔ چین کی قیادت نے اپنے ملک کو عالمی تنازعات میں الجھنے سے بچائے رکھا اور اپنی پوری توجہ معاشی بہتری پر دی۔ یوں چین دنیا کے تیزرفتار ترین ترقی کرنے والے ممالک میں شامل ہو گیا۔

2024میں چین کے معاشی اہداف خاصے بڑھے ہیں۔ اب چین کو مغربی ممالک ہی نہیں بلکہ ایشیائی ممالک کے ساتھ بھی تجارتی مقابلے کا سامنا ہے۔ ایشیا میں جاپان اور جنوبی کوریا کے بعد بھارت بھی بڑی معیشت کا روپ دھار چکا ہے۔ افریقہ میں بھی تنزانیہ، سینی گال اور یوگنڈا عالمی سرمایہ کاروں کے لیے اچھی مارکیٹ بن گئی ہے۔

عالمی شماریاتی اداروں کی ایک ریسرچ کے مطابق 2050تک ایشیائی ممالک کی معیشت یورپ امریکا سے بھی آگے نکل جائے گی، جس میں چین لیڈنگ رول ادا کر رہا ہوگا، اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ چین عالمی معیشت میں پہلے نمبر پر آ جائے گا، امریکا دوسرے نمبر پر چلا جائے گا، ان کے بعد جاپان، جرمنی، برطانیہ اور فرانس کا نمبر آئے گا۔

بین الاقوامی اداروں کی رپورٹ کو سامنے رکھتے ہوئے باآسانی کہا جا سکتا ہے کہ مغربی ممالک کی قومی پیداوار 35% تک رہ جائے گی جب کہ ترقی پذیر ملکوں کی معیشت ورلڈ GDP میں 65% تک بڑھ جائے گی۔ 16 ایشیائی ممالک جن میں بھارت، جاپان، انڈونیشیا، کوریا، ترکی، ویتنام، فلپائن، ایران اور بنگلہ دیش شامل ہیں وہ ایشیا کی معیشت میں انتہائی اہم حیثیت اختیار کر جائیں گے۔

عالمی ماہرین افریقہ کے ممالک کو بھی مستقبل میں ترقی کرتا دیکھ رہے ہیں۔ جنوبی افریقہ، مراکش اور الجزائر ترقی کے اعتبار سے بہت بہتر پوزیشن میں ہیں۔ روانڈا، موریطانیہ اور ایتھوپیا کی حکومتیں بھی غیرملکی سرمایہ کاری کے لیے خاصی رعایتیں دے رہی ہیں۔ ان ممالک میں اب امن وامان کی صورت حال بھی خاصی بہتر ہو گئی ہے۔ اس لیے آنے والے دنوں میں کئی افریقی ممالک ترقی کی دوڑ میں خاصا آگے بڑھ جائیں گے۔ ایسے حالات میں پاکستان کہاں کھڑا ہو گا؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

وزیراعظم پاکستان کا دورہ چین اسی حوالے سے اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان کو سیاسی و معاشی چیلنجز سے عہدہ برآ ہونے کے لیے سائنس وٹیکنالوجی کی بہت زیادہ ضرورت ہے اور پاکستان کی یہ ضرورتیں چین پوری کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی میں بڑی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو ایسی خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے جس میں معیشت اور معاشی تعلقات کو زیادہ اہمیت حاصل ہو۔ پاکستان کو جنوبی ایشیا میں بھی معاشی حوالے سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔