تکریم ابن آدم
مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مواد گستاخانہ خاکے مغرب کا سب سے بڑا ہتھیار ہے
ڈاکٹر شجاع صغیر خان کے آباؤاجداد کا تعلق علی گڑھ، سکندرا راؤ سے تھا۔ ڈاکٹر شجاع 6 دسمبر 1966ء کوکراچی میں پیدا ہوئے، ان کے والد صغیرخان CNA میں ملازم تھے اور والدہ قرآن کریم کی حافٖظہ تھیں۔
ڈاکٹر شجاع نے ابتدائی تعلیم گرین ووڈ اسکول جمشید روڈ نمبر 3 سے حاصل کی۔1981ء میں میٹرک سکینڈ ڈویژن میں پاس کیا، انٹرمیڈیٹ اسلامیہ کالج کراچی سے سیکنڈ ڈویژن سے پاس کیا۔ بی اے جامعہ کراچی سے سیکنڈ ڈویژن میں پاس کیا، جامعہ کراچی سے ایم اے سکینڈ ڈویژن سے پاس کر کے عملی زندگی میں قدم رکھا۔ ہومیوپیتھی کا ڈپلومہ اول پوزیشن سے پاس کر کے 1990ء میں نیوکراچی سندھی ہوٹل پر ارحمہ ہومیوپیتھی کلینک کی بنیاد رکھی جو آج تک قائم ہے۔
ڈاکٹر شجاع 14جون 1987ء میں ازدواجی زندگی سے منسلک ہوئے، ان کی5 اولاد ہیں جن میں تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ ڈاکٹر شجاع نے یکم جنوری1987ء میں ایک سرکاری محکمے میں ملازمت اختیارکی، جہاں وہ آج ایک اعلیٰ عہدے پر فائز ہے۔ صحافتی اور سماجی خدمات کے صلے میں متعدد میڈل، ایوارڈز اور اسناد حاصل کرچکے ہیں۔
ڈاکٹر شجاع صغیر خان بیک وقت سماجی اسکالر، دانشور، اینکر پرسن،کالم نگار اور ہومیو پیتھی ڈاکٹر ہیں۔ حال ہی میں بیک وقت ان کی دوکتابیں تکریم ابن آدم اور آواز ابن آدم منظر عام پر آئی ہیں جبکہ قبل ازیں ان کی پہلی کتاب حوا کی بیٹی کے امراض تھی جو شعبہ ہومیوپیتھی میں مددگار ثابت ہو رہی ہے۔ ان کے کالم ایک موقر روزنامہ میں شائع ہوتے ہیں، جنھیں قاری پسندکرتے ہیں۔
اس وقت ڈاکٹر شجاع کی ایک کتاب بنام تکریم ابن آدم میرے زیر مطالعہ ہے، جو ان کے مختلف مضامین کا مجموعہ ہے۔288 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں ان کے 67 مضامین شامل ہیں جوکہ اسلامی نظریات، ملکی و غیر ملکی اور سماجی حالات پر مبنی ہیں، اس کتاب کو ایف جے پبلشر لاہور نے شائع کیا ہے۔ کتاب کا سرورق دیدہ زیب ہے۔ کتاب کے صفحہ اول پر بسم اللہ الرحمن الرحیم اور دوسرے صفحہ پرکچھ اشعار لکھے ہیں جو ان کی سوچ و فکرکی عکاسی کرتے ہیں۔ اشعار ملاحظہ کریں۔
میں نے مانا میری آواز نہیں جائے گی
در ودیوار سے ٹکرا کر پلٹ آئے گی
مصنف اس کتاب کے ایک مضمون بعنوان کرپشن سے پاکستان ایک خواہش۔ میں لکھتے ہیں کہ'' قیام پاکستان کے لیے بانیان پاکستان اور ہجرت کر کے پاکستان کو پاکستان بنانے والوں نے جو لازوال قربانیاں دی ہیں، میں نے ان کا بغور مطالعہ کیا ہے۔ مجھے دنیا کا کوئی ملک پسند نہیں ہے، نہ مجھے وہاں جانے کا کوئی شوق ہے۔
مجھے کسی ملک کی ترقی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، بس اپنے ملک کو ترقی یافتہ دیکھنا چاہتا ہوں، میں چاہتا ہوں اور میری خواہش ہے کہ میرے ملک میں انصاف کا بول بالا ہو، سرکاری ملازمین، حکمران اپنے آپ کو قوم کا خادم سمجھیں، رشوت اورکرپشن سے پاک پاکستان ہوجائے، لسانیت اور فرقہ واریت سے ملک پاک ہوجائے، میرے ملک کے غریب کو جینے کا مکمل حق حاصل ہو، ایک تعلیمی نظام رائج کیا جائے، امیری اور غریبی کے فرق کو ختم کیا جائے، تمام نوکریاں میرٹ اور اہلیت کی بنیاد پردی جائیں،کرپشن کرنے والوں اور بچوں سے زیادتی کرنے والوں اور انہیں قتل کرنے والوں کو سزائے موت دی جائے۔ میرے آقا میرے سرکارﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے واجب القتل قرار دیے جائیں، شادی بیاہ کو آسان بنایا جائے، جہیز پر مکمل پابندی لگا دی جائے۔
مصنف جنریشن وارکی کہانی ابن آدم کی زبانی میں لکھتے ہیں کہ موجودہ حالات جو چل رہے ہیں یہ نہایت خطرناک ہیں، آج بہت چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر ان لوگوں کو جو سارا دن سوشل میڈیا پر لگے رہتے ہیں،کیونکہ یہ 5thجنریشن وارکا دور ہے۔
یہ وار جنگی میدان میں لڑنے کے بجائے اذہان ( ذہنوں ) میں لڑی جاتی ہے، اس جنگ کے ذریعے عوام کو ذہنی طور پر ریاست کے خلاف کر کے ریاست کی بنیادوں اور اندرونی طور پر کھوکھلا کیا جاتا ہے، یہ ایک ایسی جنگ ہے جس کی کوئی سرحد نہیں، اس لیے اس جنگ کے تحت مذہبی سطح پر جنگ بھڑکانے کے لیے حساس معلومات میں نفرت انگیز مواد پھیلایا جاتا ہے۔
نفرت انگیز تقاریر اور بیانات بھی 5th جنریشن وارکا اہم ہتھیار ہے، اس ہتھیارکے ذریعے باقاعدہ سازش کے تحت مذہبی شخصیات اور دیگر مذہبی مقدس مقامات کی شان میں گستاخانہ بیانات، تحریر، تقریر اور خاکوں کے ذریعے خاص طور پر مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا جاتا ہے۔ یہ سارا پروپیگنڈا ایک منظم طریقے سے پھیلا کر معاشرے میں اسلامو فوبیا کی ترغیب دی جاتی ہے، جس سے معاشرے میں انتہا پسندی کو فروغ ملتا ہے۔
مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مواد گستاخانہ خاکے مغرب کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ میرے نوجوانو ... ! ٹیکنالوجی کا درست استعمال کرو، یاد رکھو اپنے قلم سے اپنے ملک کا سپاہی بنو، اپنے قلم سے سوشل میڈیا پر دشمنوں کا پروپیگنڈا بے نقاب کرو۔
مصنف اپنے ایک مضمون بعنوان'' اے اللہ پاکستان پر رحم فرما میں رقم طراز ہیں کہ، اے ابن آدم ایک طرف ملک میں جاری عدم استحکام، مہنگائی، معاشی وسیاسی عدم استحکام ملک کے اداروں میں عدم استحکام، دوسری طرف بارشوں سے تباہی، یہ وقت اللہ ہی سے رجوع کرنے کا ہے۔ رات کو خواب میں قائداعظم تشریف لائے، بے حد فکر مند نظر آرہے تھے، سب سے زیادہ وہ سوشل میڈیا کو برا بھلا کہنے لگے۔
ارے برخوردار، کسی نے میری فوٹوکو عمران خان کے ساتھ لگا کر لکھا ہے کہ قائداعظم ثانی،کوئی لکھ رہا ہے، قائداعظم کا وارث، جبکہ عمران میاں کو تو تحریک آزادی کی الف ب کا بھی پتا نہیں ہے۔آزادی کس طرح سے حاصل ہوتی ہے، اسے کیا پتا وہ توکرکٹ ٹیم کا کپتان تھا، اس قوم اور ملک کی اسٹیبلشمنٹ نے پہلے اس سے سیاسی پارٹی بنوائی پھر اس کو الیکشن میں کامیاب کرا کر ملک کا وزیر اعظم بنا دیا۔ اس نے ہر تقریر میں میرا نام استعمال کیا، مگر میرے کسی ایک اصول پر بھی کام نہیں کیا۔
اسی طرح کتاب تکریم ابن آدم کے دیگر مضامین قاری کو غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں جنھیں آپ فکر انگیز کہہ سکتے ہیں۔ مصنف ڈاکٹر شجاع صغیرخان اپنے ہر ایک مضمون میں راسخ العقیدہ مسلمان اور محب الوطن پاکستانی نظر آتے ہیں جو اس کی شخصیت کو چار چاند لگاتے ہیں۔ الغرض یہ کہ یہ کتاب ہر اس شخص کو پڑھنی چاہیے، جنھیں اپنے مسلمان ہونے پر فخر ہے جس کے دل میں وطن عزیز پاکستان کی محبت ہے۔