سیاسی اور جمہوری راستوں کو بند کرنے کی پالیسی
جب ہم مضبوط معیشت کی بات کرتے ہیں تو اس کا ایک علاج بھی سیاسی استحکام کے ساتھ ہی جڑا ہوا ہے
ہمیں بنیادی طور پر یہ طے کرنا ہے کہ اس ریاستی نظام کوجمہوری، آئینی و قانونی بنیاد پر چلانا ہے یا کنٹرولڈ نظام کو بنیاد بنا کر جمہوری راستوں سے دور کرنا ہے ۔ تضادات پر مبنی کوئی بھی نظام اپنی سیاسی ساکھ قائم نہیں کرسکے گا۔
آئین و قانون کی بنیاد جمہوری نظا م ہے جب کہ ہمارا طرز عمل جمہوری رویوں کی برعکس ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہم حقیقی جمہوری نظام سے بہت دور ہیں۔اس طرز کی بحثوں کو بھی طاقت دی جاتی ہے کہ ہمارا مستقبل جمہوریت سے نہیں بلکہ مضبوط معیشت سے جڑا ہوا ہے ۔اس سوچ وفکرکے پیچھے بنیادی تھیوری یہ ہی ہے کہ لوگوں کو جمہوریت سے دور کیا جائے۔
سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی جو اب '' عوام پاکستان '' کے نام سے اپنی باقاعدہ سیاسی جماعت کا اعلان کرنے والے ہیں ۔ ان کے بقول ''ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم نے ماضی میں رہنا ہے یا آگے بڑھنا ہے ۔ سب کو ساتھ بیٹھنا ہوگا، عدلیہ اور فوج کو بھی ساتھ بٹھائیں۔ خاقان عباسی کی سوچ یہ ہے کہ ماضی کو دیکھنا ضروری ہے مگر اس میں رہنا ضروری نہیں ۔ہم نے اپنی تاریخ چھپارکھی ہے۔
ایک ٹروتھ کمیشن بناکر عوام کو آگاہی دی جائے کہ ملک میں آخرہوا کیا ہے اورکون اس کے ذمے داران ہیں ۔''شاہد خاقان عباسی پاکستان کی سیاست کا ایک سنجیدہ نام ہیں، وہ وزیر اعظم کے منصب پر بھی رہے ہیں اور جانتے ہیں کہ اقتدار کے کھیل کے تانے بانے کیسے بنائے جاتے ہیں ۔اس لیے اگر وہ موجودہ نظام کو ایک '' ہائبرڈ نظام کی بنیاد پر '' تشبیہ دے رہے ہیں تو سوچنا اور سمجھنا ہوگا کہ ہمارا سیاسی نظام کہاں کھڑا ہے۔
ایک زمانے تک ریاست میں موجود لوگوں سے بہت کچھ چھپایا جاتا رہا ہے ۔ مگر اب حالات بدل گئے ہیں اور جدید میڈیا نے بہت کچھ بے نقاب کردیا ہے ۔ بظاہر ایسے لگتا ہے تمام سیاسی اور غیر سیاسی اسٹیک ہولڈرز اپنی اپنی سطح پر بقا کی جنگ لڑرہے ہیں ۔ یہ صورتحال کسی بھی طریقے سے ریاست اور شہریوں کے مفاد میں نہیں۔
بنیادی طورہم سے غلطی یہ ہورہی ہے کہ ہم سیاسی تنازعات کو سیاسی فورمز یا سیاسی حکمت عملی کے بجائے کی عدالتوں میں طے کررہے ہیں یا پھر صرف اسٹیبلشمنٹ سے معاملات طے کرنے کو فوقیت دے رہے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ ہم بدلہ کی سیاست کررہے ہیں اور اس ہی میں الجھ کر رہ گئے ہیں ۔قومی مزاج یہ بن گیا ہے کہ ہر فریق مسئلہ کے حل میں کردار اداکرنے کے بجائے مسائل کو اور زیادہ بگاڑنے کے کھیل میں حصہ دار بن گیا ہے۔
ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ آج کی دنیا ایک گلوبل سطح کی دنیا ہے جہاں ہم اپنے داخلی معاملات یا اس میں موجود خرابیوں کو عالمی دنیا سے کیا خود اپنے اندر کے نظام میں بھی نہیں چھپاسکتے۔لوگ معلومات تک رسائی کے جدید طور طریقے بھی اختیار کرچکے ہیں ۔ اس لیے لوگوں میں اور بالخصوص ہماری نئی نسل میں بہت زیادہ غصہ ، نفرت، تعصب اور مزاحمت کا پہلو واضح طور پر نظر بھی آرہا ہے ۔لوگوں کو سوالوں سے نہیں روکا جاسکتا اور اگر روکنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس کا ردعمل منفی بنیادوں پر دیکھنے کو ملتا ہے ۔
ہم آج کے جدید گلوبل دنیا سے جڑے نظاموں میں اپنے نظام کی کیا تصویر کھینچ رہے ہیں اور لوگ دنیا میںہماری جمہوریت یا ریاستی نظام پر جو سوالات اٹھارہے ہیںان کو کیسے دبایا جاسکتا ہے۔ دنیا سمجھتی ہے کہ ہم جمہوریت یا جمہوری نظام کو ایک مخصوص مقصد یا اسے '' بطور ہتھیا ر'' کے طور پر استعمال کررہے ہیں او رمقصد جمہوریت کی مضبوطی نہیں بلکہ دولت مند طبقات کی حکمرانی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آج دنیا میں جو بھی جمہوریت کا جائز ہ لینے والے عالمی سطح پر موجود ادارے ہیں وہ ہماری جمہوری ساکھ پر سوال اٹھارہے ہیں ۔
اسی بنیاد پر سیاسی قوتوںکا بھی مقدمہ ہے او ران کے بقول ہمیں آزادانہ بنیادوں پر نہ تو حکومت دی جاتی ہے او رنہ ہی حکومت کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ یعنی اختیار کسی اور کا ہوتا ہے اور ذمے داری کسی اور پر ڈالی جاتی ہے ۔ سیاسی قوتیں بھی ان حالات کی براہ راست ذمے دار ہیں کیونکہ یہ جماعتیں اپنے سیاسی مفادات یا اقتدار کے لیے اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ مل کر سہولت کاری کا کھیل کھیلتی ہیں۔
پی ٹی آئی آج بھی ضد ہے کہ وہ سیاسی قوتوں کے ساتھ مذاکرات نہیں کرے گی بلکہ جن کے پاس طاقت ہے، ان سے بات کرے گی۔ اس لیے اگر آج ہم ہائبرڈ یا کنٹرولڈ جمہوری نظام کا حصہ ہیں تو ا س کھیل میں سیاسی جماعتوں کا کردار بھی شامل ہے جو جمہوری نظام کی کمزوری کا بھی سبب بنا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہم سیاسی اور جمہوری نظام کو مضبوط بناسکیں گے یا یہ ہماری بڑی ترجیحات کا حصہ بن سکے گا۔کیونکہ جمہوریت کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنے کا عمل مشکل بھی ہے اور دشوار بھی ۔لیکن اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی اور سیاسی آپشن موجود نہیں کیونکہ جمہوری عمل کو نظرانداز کرنے کا مقصد ملک میں غیر جمہوری قوتوں یاسوچ وفکر کو مضبوط بنانا ہے ۔
جب ہم مضبوط معیشت کی بات کرتے ہیں تو اس کا ایک علاج بھی سیاسی استحکام کے ساتھ ہی جڑا ہوا ہے ۔جو لوگ بھی سرمائے کی بنیاد پر کچھ کرنا ہے تو اس کی پہلی شرط سیاسی استحکام اور امن و امان کو بہتر بنانا ہوتا ہے ۔اس لیے سیاسی راستوں اور سیاسی حکمت عملیوں کا راستہ بند نہ کیا جائے اور سیاسی لوگ اسی کنجی کو بنیاد بنا کر ملک میں موجود جمہوری نظام کو مضبوط بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
کیونکہ جب سیاست او رجمہوریت تقسیم ہوگی اور سیاسی وجمہوری لوگ مل کر کام کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے بارے میں دشمنی پر مبنی پالیسی کو اختیار کرلیں گے تو اس کا فائدہ بھی غیر سیاسی قوتوں کو ہوگا او رپھر اس کی ذمے داری بھی سیاسی لوگوں کوقبول کرنا ہوگی ۔