کراچی تاریخ کے آئینے میں
جیسے تیسے برسوں بعد وہ خون آشام دور ختم ہوا تو اب کراچی چور ڈاکوؤں کے ہتھے چڑھ گیا ہے
چند سال قبل کراچی قتل و غارت گری، ہڑتالوں اور پولیس مقابلوں میں عالمی اخبارات کی سرخیوں کا محور بنا ہوا تھا۔ یہ سلسلہ پورے 35 سال تک چلتا رہا، کتنے گھر اجڑ گئے، کتنے معصوم دہشت گردی کا نشانہ بن گئے، اس کا کوئی حساب ہے اور نہ جواب۔
جیسے تیسے برسوں بعد وہ خون آشام دور ختم ہوا تو اب کراچی چور ڈاکوؤں کے ہتھے چڑھ گیا ہے۔ کراچی میں پرانے وقتوں سے آباد کچھ بزرگوں کا کہنا ہے کہ '' تقسیم سے قبل کا کراچی کہاں کھوگیا؟ ہمیں تو وہی پیارا لگتا تھا کوئی ہمیں اسے واپس لوٹا دے تو ہم اس کے بہت شکر گزار ہوں گے۔''
کراچی کا ماضی بہت شان دار اور تابناک تھا۔ نہ چوریاں تھیں نہ ڈکیتیاں، قتل و غارت گری کا تو کوئی کیس کبھی سال دو سال میں ہی رپورٹ ہوتا تھا وہ لوگوں کی باہمی چپقلش کا نتیجہ ہوتا یا پھر غیرت کے نام پر واردات ہوتی۔ کہا جاتا ہے کہ جب تقسیم ہند کا واقعہ رونما ہوا تو ہندوستان سے مسلم مہاجر کراچی کی جانب آ رہے تھے اور کراچی کے ہندوؤں کو بھارت جانا تھا تو کراچی کے ہندو کراچی چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے۔
قائد اعظم کے گیارہ اگست 1947 کے تاریخی خطاب نے کراچی کے ہندوؤں کے حوصلوں کو اور مضبوط کر دیا تھا۔ پھر کراچی میں ایک بڑا فساد برپا ہوا جس میں کراچی کے کئی ہندو محلے نشانہ بنائے گئے ۔ اس کے بعد وہ مجبوراً کراچی کو چھوڑ گئے۔
انگریز حکومت کے قوانین سخت تھے، ان پر عمل درآمد بھی کیا جاتا تھا چنانچہ جرائم نہیں تھے، 1947 میں کراچی کی آبادی تین لاکھ کے قریب تھی جو چند ہی مہینوں میں گیارہ لاکھ اور پھر چند ہی سالوں میں ایک کروڑ سے تجاوز کرگئی اور اب تو یہ شہر تین کروڑ سے بھی زیادہ آبادی کا حامل ہے۔ اتنی بڑی آبادی کو سنبھالنا آسان نہیں ہے ۔
آج کل کراچی کی تاریخ پر خاصا تحقیقی کام جاری ہے۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ کراچی کی کوئی تاریخ ہی نہیں ہے۔ صرف الیگزینڈر بیلی نے 1890 میں اس شہر کی تاریخ پر "Karachi Past Present & Future" نامی ایک کتاب تصنیف کی تھی۔
1947 میں محمودہ رضویہ نے اس وقت کے حالات '' ملکہ مشرق '' نامی کتاب یا کتابچے میں درج کیے تھے۔ پھر عظیم الشان حیدر نے کراچی کی تاریخ پر کراچی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا، ان کے مقالے کا نام "History of Karachi" ہے۔ اس کتاب میں کراچی کی تاریخ کو برٹش دور سے شروع کیا گیا ہے مگر اس سے پہلے کی تاریخ کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔
1985 میں خاکسار نے کراچی کی قدیم تاریخ تلاش کرنے کا آغاز کیا۔ مسلسل دس سال کی عرق ریزی کے بعد میری کتاب '' کراچی تاریخ کے آئینے میں'' منظر عام پر آئی جس میں کراچی کی تاریخ کو پتھر، لوہے اور تانبے کے دور سے شروع کر کے 1947 پر ختم کیا گیا ہے۔ یہ کتاب آج کل کراچی یونیورسٹی میں کراچی پر تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے ایک ریفرنس بک کے طور پر کام آ رہی ہے۔
گزشتہ دنوں کراچی آرٹس کونسل میں رمضان بلوچ کی کتاب '' ایک لاپتا شہر کا سراغ '' کی تقریب رونمائی منعقد ہوئی، اس تقریب میں بھی کراچی کی تاریخ کے حوالے سے ''کراچی تاریخ کے آئینے میں'' کا بھی ذکر ہوا۔