جوہری ہتھیاروں کا پھیلاؤ اور موسمیاتی تبدیلی
اس کی وجہ سے دنیا کے ایک بڑے حصے میں پانی کی قلت اور اس کے نتیجے میں زرعی پیداوار میں کمی واقع ہو رہی ہے۔
امریکی صدر جوبائیڈن نے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی شرائط سے متعلق ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر دیے ہیں۔ سینئر معاون وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ امریکا کو چین اور روس سے بڑھتے ہوئے خطرات کا سامنا ہے، امریکا اسٹرٹیجک جوہری ہتھیاروں کی تعیناتی بڑھا سکتا ہے۔ دوسری جانب روسی صدر نے سینٹ پیٹرز برگ انٹرنیشنل اکنامک فورم سے خطاب میں کہا کہ مغربی ممالک کے ایٹمی ہتھیار روس کے ایٹمی ہتھیاروں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔
درحقیقت ایسے اقدامات اس بات کی علامت ہے کہ انسانیت کو کتنا بڑا خطرہ موجود ہے۔ حالیہ دہائیوں میں جوہری خطرات کے ساتھ ساتھ اس میں ماحولیاتی بحران اور وبائی امراض سے پیدا ہونے والے خطرات بھی شامل ہوچکے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں فوسل فیول یعنی حیاتیاتی ایندھن کے بڑے پیمانے پر استعمال سے ہونے والے کاربن کے اخراج میں اضافے کی وجہ سے زمین کے درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
اس کی وجہ سے دنیا کے ایک بڑے حصے میں پانی کی قلت اور اس کے نتیجے میں زرعی پیداوار میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ جنگلوں میں آگ لگنے کے بڑھتے ہوئے واقعات بھی بہت تشویش ناک ہیں۔ برطانوی محکمہ موسمیات کا ماننا ہے کہ 2024 کے اختتام تک اوسط عالمی درجہ حرارت صنعتی عہد سے قبل کے مقابلے میں 1.34 سینٹی گریڈ سے 1.58 سینٹی گریڈ کے درمیان ہوگا۔ ایک مستند رپورٹ کے مطابق ایل نینو اور موسمیاتی تبدیلیاں ممکنہ طور پر باہم مل جائیں گی، ماہرین کا کہنا تھا کہ درجہ حرارت کے نئے ریکارڈز بننے کی وجہ انسانوں کے باعث ہونے والی موسمیاتی تبدیلیاں ہیں۔
گلوبل وارمنگ کی وجہ سے سمندروں کی سطح پر درجہ حرارت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کا اثر یہ ہوا ہے کہ اب بادلوں میں پانی کے بخارات کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے، جب ان بادلوں کو سازگار درجہ حرارت ملتا ہے تو یہ بھرپور بارش برساتے ہیں۔ پاکستان میں 2022 کے سیلاب کے بعد سے بارشوں کی اوسط میں بے پناہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ جب بارش زیادہ برس جاتی ہے اور پانی کو زمین میں جذب ہونے کا موقع نہیں ملتا۔ کیوں کہ شہری منصوبہ بندی کے فقدان کی وجہ سے بارش کے پانی کی ماضی کی گزرگاہوں پر کنکریٹ کی سڑکیں اور عمارتیں بن چکی ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوںکے سبب فصلوں اور باغات کی پیداوار پر اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ موسم کی تبدیلی کے باعث آم کی فصل کو لگنے والی بیماری تیلہ ابھی تک قابو میں نہیں آ رہی۔ آم کی پیداوار کے حوالے سے پاکستان کا شمار دنیا کے بڑے ملکوں میں ہوتا ہے اور ہر سال ہزاروں ٹن آم بیرونِ ملک برآمد کیا جاتا ہے۔ کاشت کاروں کا یہ بھی شکوہ ہے کہ یہ ایک انتہائی اہم فصل ہے، لیکن موسمیاتی تبدیلیوں سے بچاؤ کے لیے کسانوں کو اس حوالے سے کوئی خاص رہنمائی نہیں دی جا رہی۔ سردیوں میں دھند کا دورانیہ بھی زیادہ رہا ہے۔ دھند نے بھی آم کے باغوں کو اچھا خاصا متاثر کیا ہے۔
صوبہ پنجاب میں آم کی فصل 14 ٹن فی ہیکٹر ہے جب کہ سندھ میں یہ شرح چھ ٹن فی ہیکٹر ہے۔گزشتہ سال پاکستان نے ایک لاکھ 46 لاکھ ٹن آم برآمد کیا تھا، اِس بار کا ہدف زیادہ ہے ۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کے مطابق دنیا میں کاربن کے اخراج میں تعمیراتی صنعت کا مجموعی حصہ 38 فیصد ہے۔ اسی طرح کنکریٹ سے بنائی جانے والی عمارتیں کاربن کے سات فیصد تک اخراج کی ذمے دار ہیں۔ پیرس ماحولیاتی معاہدے (2015) کے تحت 2050 تک اس اخراج کو صفر تک لانے کا ہدف حاصل کرنے کے لیے اس شعبے میں ماحول دوست اقدامات خاص طور پر ضروری ہیں۔
ماحولیاتی تغیرات کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات سے پاکستان کو سالانہ چار ارب ڈالرزکا نقصان ہو رہا ہے۔ پاکستان کا شمار موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے دس سر فہرست ممالک میں ہوتا ہے لیکن پاکستان کا شمار کلائمٹ فنانس حاصل کرنے والے دس سرفہرست ممالک میں نہیں ہوتا۔ پاکستان میں مناسب اور بہتر مربوط موسمیاتی مالیاتی نظام کے قیام میں محدود پیش رفت ہوئی ہے، جو مالی وسائل تک موثر رسائی کے لیے سازگار ہو سکتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے ایکٹ 2017کے تحت قائم کردہ ماحولیاتی تبدیلی کے اداروں کو فعال اور بااختیار بنانے کی ضرورت ہے اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں افقی اور عمودی دونوں طرح سے، گورننس میں موسمیاتی نظام کو مربوط کرنے کے بنیادی محرک ہونے کی ضرورت ہے۔
دوسری جانب یہ خبر خوش آیند ہے کہ آئی ایم ایف کے مطالبے پر موسمیاتی تبدیلی کے لیے بجٹ میں بڑے اضافے کی تیاری کر لی گئی ہے۔ اوسط درجہ حرارت میں اضافے اور جنگلات کی کٹائی کے باعث، ملک کے بڑے شہروں میں اور ان کے آس پاس کا ماحول مزید غیر مستحکم ہوگیا ہے۔ یہ عمل فضا میں حرارت کے غیر متوقع دھاروں کی تشکیل کا باعث بنتا ہے جس کے نتیجے میں غیر متوقع طور پر فضا میں طیاروں کو ہنگامہ خیزی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، خاص طور پر کراچی اور لاہور جیسے بڑے ہوائی اڈوں کے ارد گرد۔
موسمیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کے بین الحکومتی پینل (آئی پی سی سی) نے خبردار کیا ہے کہ دنیا بھر کے بیشتر شہر اور آبادیاں شدید موسمی حالات سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں۔ انسانی تحفظ اور مالی نقصانات سے بچاؤ کے لیے ایسی تعمیرات کو فروغ دینا ہوگا جو ماحولیاتی اعتبار سے پائیدار ہوں۔ موسمیاتی تبدیلی کو روکنے اور اس کے اثرات سے نمٹنے کے لیے کنکریٹ کی جگہ کم آلودگی پیدا کرنے والا متبادل درکار ہے۔
مٹی کی عمارتیں ماحول دوست ہونے کے علاوہ زلزلے اور تیز رفتار ہوا کا بہتر طور سے مقابلہ کرسکتی ہیں، کیونکہ ان میں کنکریٹ اور سیمنٹ کے برعکس شدید موسمی کیفیات کے دباؤ کو تقسیم کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ ایسی عمارتیں شدید بارش اور سیلابی ریلے سے بھی تحفظ مہیا کرتی ہیں کیونکہ ان میں نمی جذب کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے اور مٹی کی تہیں عمارتی ڈھانچے کو بیرونی طور پر زیادہ محفوظ رکھتی ہیں۔ بلوچستان کے موسمیاتی حالات کو دیکھا جائے تو مستقبل میں ایسی ہی عمارتوں کی ضرورت ہوگی۔
موسمیاتی تبدیلی نے پاکستان کی معیشت اور زرعی شعبے کے لیے بہت بڑے خطرات پیدا کردیے ہیں جس کے تباہ کن نتائج حالیہ سیلابوں کے بعد سامنے آئے ہیں۔ حالیہ برسوں کے دوران آنے والے سیلابوں نے ہر طرف تباہی مچائی، اہم انفرا اسٹرکچر کو تباہ کیا اور زراعت کو بری طرح نقصان پہنچایا۔ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اس کے جغرافیائی محل وقوع اور زراعت پر انحصار کی وجہ سے مزید بڑھ جاتے ہیں، کیونکہ آبادی کے ایک بہت بڑے حصے کا روزگار زراعت سے وابستہ ہے اور جی ڈی پی میں بھی اس کا حصہ بہت زیادہ ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سیلاب، خشک سالی اور گرمی کی لہروں جیسے شدید موسمی واقعات زیادہ تواتر سے رونما ہو رہے ہیں اور ان کی شدت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جس سے زراعت کے شعبے کو درپیش چیلنجز شدید تر ہوتے جا رہے ہیں۔ اس مسئلہ سے نمٹنے کے لیے قومی اور بین الاقوامی سطح پر مشترکہ کوششوں کی فوری ضرورت ہے کہ موسمیاتی لحاظ سے لچکدار بنیادی ڈھانچے، سیلاب سے بچاؤ، پانی کے سسٹم کے بہتر انتظام اور شدید موسمی واقعات سے لاحق خطرات کو کم کرنے کے لیے ان شعبوں میں سرمایہ کاری انتہائی ضروری ہے۔ پائیدار زرعی طریقوں کے فروغ اور معیشت کو متنوع بنا کر طویل مدتی اقتصادی ترقی کو فروغ دیا جا سکتا ہے اور موسمیاتی تبدیلیوں سے بھی نمٹا جاسکتا ہے۔
حالیہ برسوں میں، پاکستان نے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق بہت سے واقعات کا تجربہ کیا ہے جیسے کہ درجہ حرارت میں اضافہ، بارشوں کے بے ترتیب نمونوں اور زیادہ بار بار شدید موسمی واقعات۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے پائیدار جنگلات کی کٹائی اور جنگلات کی کٹائی کو روکنے کے لیے کوششوں کو ترجیح دینا ملک کے لیے بہت ضروری ہے۔
پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے اور ملک کے ماحولیاتی اور سماجی و اقتصادی مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے پائیدار جنگلات اور تحفظ کی کوششوں کو ترجیح دینی چاہیے۔ جنگلات کی بحالی، پائیدار زمین کے انتظام کے طریقوں کو فروغ دینے اور جنگلاتی نظم و نسق کو مضبوط بنانے میں سرمایہ کاری کر کے، پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف اپنی لچک کو بڑھا سکتا ہے، حیاتیاتی تنوع کے تحفظ اور ایکو سسٹم کی خدمات کی حفاظت کر سکتا ہے۔ ان اہداف کو حاصل کرنے اور پاکستان کے جنگلات اور ماحولیات کے پائیدار مستقبل کو یقینی بنانے کے لیے حکومتی اداروں، سول سوسائٹی کی تنظیموں اور مقامی کمیونٹیز کے درمیان باہمی اشتراک ضروری ہے۔