مزاحمتی سیاست ہی مقبولیت کا راز
بھٹو صاحب سقوط ڈھاکا کے بعد بچے کچے پاکستان کے وزیراعظم بن گئے۔
ہماری قوم کی یہ خصلت اور کمزوری ہے کہ اُسے ہمیشہ مزاحمتی سیاست ہی پسند اور مرغوب ہوتی ہے، جس کسی سیاستدان نے مزاحمتی سیاست کو اپنا اصول اور وطیرہ بنایا وہی عوام الناس میں سب سے زیادہ مقبول ومعروف ہوا۔ جناب ذوالفقارعلی بھٹو کو ہی لے لیجیے وہ جب تک فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کی کابینہ میں وزیر رہے عوام میں اُن کی مقبولیت کوئی اتنی زیادہ نہیں تھی۔
وزیر خارجہ کی حیثیت میں گرچہ انھوں نے ساری دنیا میں اچھی خاصی پذیرائی اور شناسائی حاصل کیں لیکن وزیراعظم کے عہدے پر سرفراز ہونے کے لیے انھیں اپنے عوام کی حمایت درکارتھی، لٰہذا ستمبر1965ء کی پاک بھارت جنگ کے اختتام پر جب انھوں نے دیکھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ عوام میں جا کر اپنے ہی صدر کے خلاف جسے وہ کبھی اپنا ''ڈیڈی ''کہا کرتے تھے ایک بھرپور تحریک چلائیں۔
معاہدہ تاشقند کے ایشو پر انھوں نے عوام میں جانے کا فیصلہ کیا اور بہت جلد زبردست کامیابی حاصل کی۔ انھیں عوام کی دکھتی نبض کا پتا تھا اور انھیں بولنا بھی بہت اچھا آتا تھا، وہ تقریر کا عوامی انداز اختیار کرکے بہت جلد ایک کامیاب سیاسی رہنما کے طور پر پہچانے جانے لگے۔ عوام کاسمندر اُن کے پیچھے چل پڑا اور نتیجتاً اس وقت کے حکمراں کو استعفیٰ دیکرگھر لوٹنا پڑا۔ اس کے بعد جوکچھ ہوا وہ ہماری تاریخ کا ایک بہت ہی تلخ اور سیاہ باب ہے جسے یاد کرکے یا دہرا کے ہم اپنے پرانے زخموں کو یہاں تازہ کرنا نہیں چاہتے۔
بھٹو صاحب سقوط ڈھاکا کے بعد بچے کچے پاکستان کے وزیراعظم بن گئے۔ اپنے سوشلسٹ نظریات کو لے کر انھوں نے ایک نئے پاکستان کی بنیاد رکھی اوراپنے انقلابی فیصلوں سے پاکستان کی معیشت کا رخ بدل ڈالا۔ تمام نجی اداروں، بینکوں اور فیکٹریوں کو یہاں تک کے پرائیویٹ اسکولوں تک کو سرکاری تحویل میں لے لیا۔ اس کا نتیجہ ملک کی معیشت کے لیے بہت ہی نقصان دہ رہا۔ سرکاری ادارے کا روپ دھارنے کی وجہ سے ملازمین نے کام کرنا چھوڑ دیا اوراپنے اصل مالکان کے خلاف سینہ تان کے کھڑے ہوگئے۔
اسکولوں میں اساتذہ نے بھی پڑھانے کے بجائے صرف حاضریاں لگانے کوضروری سمجھا اور معیار تعلیم زوال اورپستی کاشکار ہوگیا۔ بینکوں میں بھی افسران نے دل لگا کے کام کرنے کے بجائے کام چوری کادھندہ شروع کردیا۔ اور تو اور یونین سازی نے فیکٹریوں اوربینکوں میں ایک تناؤ کا ماحول پیدا کردیا۔ اُن دنوں ہمارے اکثر بینک ڈاکخانوں جیسا منظر پیش کر رہے تھے۔ شلوار قمیض میں ملبوس پان تھوکتے افسران اپنے فرائض منصبی سے زیادہ مال بنانے کی فکر میں سرگرداں دکھائی دے رہے تھے۔
سونے پہ سہاگہ یونین کی سپورٹ کی وجہ سے انھیں کام نہ کرنے کی صورت میں اپنے فارغ کیے جانے کا ڈر اور خوف بھی نہیں رہا تھا۔ ہاں تو بات ہو رہی تھی کہ مزاحمتی سیاست کو اپنا اصول اور ہتھیار بنانے والوں کی۔ بھٹو صاحب نے خود ایوب خان کے خلاف یہ ہتھیار استعمال کر کے اقتدار تو حاصل کر لیا لیکن پھر وہ اپنے خلاف کسی اورکو یہ ہتھیار استعمال کرنے کی اجازت کے روادار نہیں رہے۔ ساڑھے پانچ سال تک بلا روک ٹوک انھوں نے اپنے نظریات کے مطابق بڑے بڑے فیصلے کیے اورکسی اور کو مد مقابل کے طور پر برداشت نہیں کیا۔
جس غیر جمہوری حکمراں کے خلاف مزاحمتی جنگ لڑ کے اقتدار حاصل کیا تھا، معزول ہوتے ہوئے بھی اسی جیسے ایک دوسرے پیٹی بھائی کے ہاتھوں محروم اقتدار ہوئے لیکن اپنے سیاسی بھائیوں کو ہمیشہ نیچا دکھاتے رہے۔ آج بانی پی ٹی آئی بھی یہی کچھ کررہے ہیں۔ جس غیرجمہوری حلقوں کے ساتھ مل کر 2018 ء میں اقتدار کے منصب پر سرفراز ہوئے تھے آج ایک بار پھر انھیں حلقوں سے معرکہ آرائی پر بضد اور مصر ہیں۔ جن پر جاتے ہوئے تنقید کرتے رہے۔ آج ایک بار پھر وہ انھی حلقوں سے مذاکرات کرنے پراڑے ہوئے ہیں۔
سیاستدانوں سے مذاکرات کے وہ پہلے بھی حامی نہیں تھے اورآج بھی نہیں ہیں۔ اپنے دور حکومت میں بھی وہ سیاستدانوں سے مذاکرات کرنا اپنی توہین سمجھتے تھے اورآج بھی یہ کہہ کرکہ انھوں نے ہمارا مینڈیٹ چرایا ہے،لہٰذا اُن سے مذاکرات نہیں ہوسکتے وہ بات چیت سے انکاری ہیں۔دراصل اس مزاحمتی سیاست کا ایک سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ عوام کی حمایت مسلسل حاصل رہتی ہے، جس دن خان صاحب نے یہ مزاحمتی سیاست ترک کردی وہ عوام کی اس بھرپور حمایت سے محروم ہوجائیںگے۔ میاںنوازشریف بھی جب تک مزاحمتی سیاست کرتے رہے مقبول ومعروف رہنما کا درجہ حاصل کرتے رہے، جس دن سے انھوں نے مصالحت کا رویہ اختیارکیا ہے اُن کی مقبولیت ماند پڑتی گئی اور ان کی جگہ مسٹر خان نے لے لی۔
2017ء میں محروم اقتدار اور تاحیات نااہل ہونے کے بعد جب انھوں نے جی ٹی روڈ سے اپنا مزاحمتی مارچ شروع کیا تھا وہ ہمارے عوام کے ہردلعزیز رہنما بنتے چلے گئے ۔ حالانکہ اُن کے ایک دیرینہ ساتھی نے انھیں اس مزاحمتی تحریک چلانے سے روکا بھی تھا لیکن انھوں نے چپ رہنے اور خاموشی سے رائے ونڈ منتقل ہونے کے بجائے سڑکوں پرتحریک شروع کرنے کا فیصلہ کیاجس میں انھیں وقتی کامیابی بھی حاصل ہوئی مگر مشکلات بھی بڑھیں لیکن وہ ڈٹے رہے۔ آج یہی کچھ خان صاحب بھی کررہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ مزاحمتی سیاست میں ہی ان کی کامیابی اوربقا ہے۔
وہ جیل میں رہتے ہوئے بھی اپنی ساری سیاست اسی طرح چلا رہے ہیں جیسے وہ زمان پارک میں چلایا کرتے تھے۔ علی امین گنڈاپور اُن کے سب سے بڑے مزاحمتی محرے ہیں۔ وہ ہرروز ایک اشتعال انگیز بیان دیکر خان کے ارادوں کی بھرپور ترجمانی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ کوئی انھیں وزارت اعلیٰ سے زبردستی فارغ کر دے اور اس طرح وہ ایک مضبوط اورمقبول سیاستدان کے طور پر ابھر کر سامنے آسکیں۔اُن کی بطور وزیراعلیٰ نامزدگی بھی خان کی مزاحمتی سیاست کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اس منصب کے لیے اور بھی کئی شریف النفس لوگوں کے نام تجویزکیے گئے تھے لیکن قرعہ علی امین گنڈا پور کے نام نکلا۔اسی کو دیکھ کر ہم خان کے ارادوں اورعزائم کا بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں۔ وہ کبھی بھی مفاہمتی سیاست نہیں کرینگے۔ مفاہمت کرنا ہوگی تو وہ صرف اورصرف مقتدر حلقوں ہی سے کرینگے۔ اپنے جیسے سیاستدانوں کو تو وہ کسی خاطر میں نہیں لاتے۔جنھوں نے انھیں یہ مقام دلایا ہے وہ انھیں سے مذاکرات کریں گے۔
دوسری جانب انھیں یہ بھی پتا ہے کہ موجودہ حکومت کواگر مزید وقت مل گیا تو وہ ملک کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر پھر سے گامزن کردے گی ۔سیاسی عدم استحکام پیدا کر کے ہی اسے ایسا کرنے سے روکا جاسکتا ہے۔ ابھی جب صرف تین ماہ ہی گزرے ہیں اور ملک کی معیشت سدھرتی دکھائی دینے لگی ہے۔ پھر اگر اسے مزید وقت مل گیا تو پھر ہماری سیاست کا کیا ہوگا۔ اسی ڈر کی وجہ سے وہ مزاحمتی سیاست کیے جا رہے ہیں۔