مفاہمتی پالیسی کے دہرے معیارات
سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے کی حکمت عملی کارگر نہ ہوسکے گی۔
پاکستان کا مجموعی ریاستی ، سیاسی اور قانونی نظام مفاہمت کی پالیسی کے تناظر میں مختلف نوعیت کے فکری یا سیاسی تضادات میں الجھا ہوا ہے یا مفاہمت کی پالیسی کو ہر فریق اپنے مفادات کے دائرہ کار تک محدود ہوکر دیکھتا ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ ایک طرف سب فریق مفاہمت کی بات کرتے ہیں مگر عملی طور پر ان کا طرز عمل حقیقی مفاہمت کے برعکس ہوتا ہے۔ مفاہمت کی سیاست کے برعکس جو پالیسی ہے وہ ہمیں پہلے سے زیادہ موجود مسائل میں الجھا رہی ہے ۔ہر فریق خود کو مفاہمت کی پالیسی سے جوڑ کر اپنا بیانیہ پیش کرتا ہے لیکن ہر جماعت میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو اس کے برعکس ٹکراؤ کی پالیسی کو بنیاد بنا کر اپنا بیانیہ پیش کرتے ہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسے افراد جو ٹکراؤ یا سیاسی دشمنی کے ایجنڈے کو طاقت بنا کر پیش کرتے ہیں ان کا راستہ کبھی سیاسی قیادت نہیں روکتی اور ظاہر ہوتا ہے کہ جو کچھ مخالفانہ انداز کی بنیاد پر پیش کیا جاتا ہے اسے کسی نہ کسی شکل میں قیادت یا جماعت کی سرپرستی رہتی ہے ۔
اس لیے مفاہمت اور مزاحمت کی بنیاد پر اختیار کی جانے والی حکمت عملی میں کافی تضادات کے پہلو دیکھنے کو ملتے ہیں اور یہ کسی ایک فریق تک محدود نہیں بلکہ ہر فریق کی پالیسی میں الجھاؤ بھی ہے اور تضاد بھی۔ ایک طرف پی ٹی آئی کو دعوت دی جاتی ہے کہ اسے مفاہمت کا راستہ اختیار کرنا ہوگا اور اسی کو بنیاد بنا کر مفاہمت کی طرف پیش رفت کرنا ہوگی ۔ لیکن دوسری طرف پی ٹی آئی کے خلاف منفی پروپیگنڈا زوروں پر ہے ۔حکومت مفاہمت کی بات تو کرتی ہے مگر اس حوالے سے کوئی عملی پیش رفت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ اسٹیبلیشمنٹ اورعمران خان کے درمیان پہلے سے موجود خلیج کو اور زیادہ بڑھنے دیا جائے۔ کیونکہ حکومت سمجھتی ہے کہ اگر پی ٹی آئی اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان تعلقات ٹھیک ہوتے ہیں تو اس کا فائدہ ہمیں نہیں بلکہ پی ٹی آئی کو ہوگا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ سیاسی مفاہمت کی پیش کش کے درمیان حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی مخالف ایجنڈا بھی سرفہرست ہے ۔
پی ٹی آئی کے لوگ خصوصاً عمران خان سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں براہ راست اسٹیبلیشمنٹ سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں اور ان کے بقول سیاسی حکومت یا ان کے سیاسی مخالفین کے پاس نہ تو عوامی مینڈیٹ ہے اور نہ ہی ان کے پاس کوئی اختیار ہے ، ہمیں ریلیف دینے کا۔ اس لیے جس کے پاس طاقت ہے یا فیصلے کا اختیار ہے مذاکرات بھی اسی سے ہوںگے ۔جب کہ اسٹیبلیشمنٹ کا موقف بھی موجود ہے کہ ہم کسی سے مذاکرات نہیں کریں گے اور ہمیں سیاسی ایجنڈے میں نہ دھکیلا جائے۔ پی ٹی آئی کو بھی اپنے اس موقف میں لچک پیدا کرنا ہوگی کہ وہ سیاسی حکومت سے بات چیت نہیں کرے گی ۔کیونکہ اسٹیبلیشمنٹ سے براہ راست مذاکرات ممکن نہیں ہے۔ اگر حکومت کسی بھی سطح پر مذاکرات کا راستہ اختیار کرتی ہے تو پی ٹی آئی کو اپنے ایجنڈے پر زیادہ زور دے کر اپنا دباؤ بڑھانا چاہیے ۔ سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے کی حکمت عملی کارگر نہ ہوسکے گی۔
یوں دیکھا جائے تو ہر فریق کی مفاہمت کی پالیسی ہے تو دوسری طرف مفاہمت کی پالیسی کے نام پر سیاسی ایجنڈے کو مسلط کرنا ہے۔ یہ کہنا کہ اگر مفاہمت ہوگی تو بس ان نکات پر، اسی طریقہ کار کے تحت ہوگی اور فریق کو ہماری شرائط ہر صورت تسلیم کرنا ہوگی وگرنہ کوئی رعایت نہیں ملے گی۔دوسری جانب اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کی کوشش کرنا اور ساتھ ہی اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کو بھی جاری رکھنا، درست حکمت عملی نہیں ہے۔ اگر مفاہمتی پالیسی کا یہ طریقہ کار ہوگا تو مفاہمت کے نام پر دھوکا دہی کی سیاست ہی ممکن ہوسکے گی۔
کچھ لوگ عمران خان کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ مذاکراتی عمل کی بنیاد پر بڑے کا کردار ادا کریں اور ان کو یہ ہی مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ ٹکراؤ کی پالیسی سے گریز کریں اور حکومت یا اسٹیبلیشمنٹ سے مل کر مفاہمت کا راستہ اختیار کریں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا مفاہمت کی سیاست میں رکاوٹ عمران خان ہی ہیں اور باقی سب مفاہمت کی عملی سیاست میں واقعی سنجیدہ ہیں۔ جو مشورہ عمران خان کو دیا جارہا ہے اسی طرح کا مشور ہ دینے والے حکومت کے بارے میں کیونکر خاموش ہیں۔ادھر عمران خان اور ان کے ساتھی بھی بیانات دیتے وقت جس غیرذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہیں، اس کا بھی انھیں ہی نقصان پہنچ رہا ہے۔ غیرذمے دارانہ اور اشتعال انگیز بیانات پی ٹی آئی کے ان لوگوں کے مصائب میں اضافہ کررہے ہیں، جو مختلف الزامات کے تحت جیلوں میں بند ہیں یا عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں۔
عدالتوں سے ریلیف ملنے کے باوجود ان قیدیوں کو رہائی نہیں ملتی بلکہ انھیں کسی اور مقدمے میں گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ ان پر دہشت گردی کے مقدمات درج ہیں۔ یہ جو پی ٹی آئی پر بطور جماعت پابندی کی باتیں کی جارہی ہیں ، ان کو سمجھا جانا چاہیے۔ کیا صرف عمران خان کو یا پی ٹی آئی کو بیک فٹ پر جانا ہے یا باقی دیگر سیاسی و غیر سیاسی فریقین کو بھی اپنی اپنی پوزیشن کا تجزیہ کرکے نئی حکمت عملی کو اختیار کرنا ہے ۔
یہ جو حالات میں ہمیں بگاڑ نظر آرہا ہے ،یہ محض سیاست تک محدود نہیں بلکہ اس کو ایک بڑے کینوس کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے ۔ یہ بحران کسی ایک فریق یا کسی ایک جماعت کا پیدا کردہ نہیں بلکہ سب ہی سیاسی اور غیر سیاسی افراد یا اداروں نے ان خرابیوں میں اپنا اپنا حصہ کم یا زیادہ ڈالا ہے ۔اس لیے اگر واقعی مفاہمت کی سیاست کو آگے بڑھانا ہے تو اس کی ذمے داری کسی ایک فریق پر نہ ڈالیں بلکہ اس ذمے داری کو سب ہی فریقوں کو اپنی اپنی سطح پر لینی ہوگی ۔اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ہم کسی ایک فریق پر اس بحران کا بوجھ ڈال کر آگے بڑھ سکیں گے تو یہ تجربہ ماضی میں بھی ناکام رہا ہے اور اب بھی ناکام ہوگا۔مفاہمت کا عمل کھلے ذہن یا کھلے دماغ کے ساتھ ہوگا اور اس میں ایک دوسرے کے لیے سیاسی لچک پیدا کرنا ہوگی۔
غلطیاں سب سے ہوئی ہیں اور ہورہی ہیں کسی ایک کو ٹارگٹ کرکے مسائل کا حل تلاش کرنا دانش مندی نہیں بلکہ اس میں جذباتیت یا تلخی کا پہلو نمایاں ہے جو ختم ہونا چاہیے ۔ یہ باتیں بھی کی جارہی ہیں کہ کوئی ایک اور سانحہ 9مئی چاہتا ہے، یہ باتیں کیوں کی جارہی ہیں اور کون لوگ ایسا کرنا چاہتے ہیں، ان کے بارے میں حقائق سامنے آنے چاہیے کیونکہ اس قسم کی باتیں یقینی طور پر پہلے سے موجود سیاسی تقسیم کو اور زیادہ گہرا کریں گی اور اس کا نتیجہ مزید سختی کی صورت میں سامنے آئے گا۔
اسی طرح مسئلہ محض عمران خان تک محدود نہیں ہے بلکہ اب مولانا فضل الرحمن ، محمود خان اچکزئی اور جماعت اسلامی بھی قریب آرہے ہیں، یہ جماعتیں اور شخصیات بھی عمران خان اور پی ٹی آئی کے فروری 8کے انتخابات کے بارے موقف کے حامی ہیں ۔میڈیا اور ججوں میں بھی جو تحفظات ہیں ان کو بھی نظرانداز کرنا ممکن نہیں رہا ۔اس لیے ان حالات میں جب مجموعی طور پر معاملات میں الجھاؤ اور ٹکراؤ ہے تو ایسی صورت میں حقیقی مفاہمت ہمیں آگے بڑھنے کا راستہ دے سکتی ہے۔ کیونکہ جب بھی بندگلی کا راستہ کھولنا ہو تو غیر معمولی اقدامات کی بنیاد پر ہی آگے بڑھا جاتا ہے ۔ ہم ایک ایسے ہی موڑ پر کھڑے ہیں جہاں سب کو ذمے داری کے ساتھ اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، وگرنہ کسی کے ہاتھ میں کچھ نہیں آئے گا اور اس بگاڑ کے ہم سب ہی کسی نہ کسی شکل میں ذمے دار ہونگے۔