جو ڈر گیا‘ وہ مر گیا
لاہور ایئر پورٹ سے لے کر مینار پاکستان تک سڑکوں پر ہزاروں لوگ محترمہ کا استقبال کرنے کے لیے موجود تھے
ضیاء الحق کا دور تھااور محمد خان جونیجو وزیراعظم اور نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے۔یہ 1986ء کی بات ہے'محترمہ بے نظیر بھٹو لندن میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہی تھیں' ضیاء الحق پیپلز پارٹی سے جس قدر نفرت کرتے تھے'وہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے بخوبی عیاںہے' عدلیہ کا بھی پیپلز پارٹی سے تعصب ڈھکا چھپا نہیں تھا' ضیاء الحق پورے جاہ و جلال میں تھے' ملک میں ان کی مرضی کے بغیر پتا نہیں ہل سکتا تھا' محمد خان جونیجو اتنے ہی طاقتور وزیراعظم تھے جتنے آجکل ممنون حسین صدر مملکت ہیں۔ان پر آشوب حالات میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے 10 اپریل 1986 کو وطن واپسی کا اعلان کر دیا۔
ضیا حکومت کے لیے ان کی واپسی ایک بم سے کم نہیں تھی کیونکہ وہ عوام کی محبوب لیڈر تھیں' ضیاء الحق کا اقتدار ختم ہو سکتا تھا' مشورے شروع ہوئے کہ کیا کیا جائے' مختلف آپشنز زیر بحث آئے لیکن آخر میں فیصلہ کیا گیا کہ محترمہ کی واپسی کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جائے ۔پھر آسمان نے وہ منظر دیکھا جب 10 اپریل 1986ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو لاہور ایئر پورٹ پر اتریں' وہاں سے باہر آئیں' ایک ٹرک پر سوار ہوئیں اور کئی گھنٹوں کا سفر طے کرکے مینار پاکستان کے سائے تلے پہنچیں جہاں انھوں نے لاکھوں کے جلسے سے خطاب کیا' یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا استقبال تھا۔
لاہور ایئر پورٹ سے لے کر مینار پاکستان تک سڑکوں پر ہزاروں لوگ محترمہ کا استقبال کرنے کے لیے موجود تھے ۔میں ان دنوں کالج کا طالب علم تھا' لاہورکے مال روڈ سے میں بھی اس جلوس میں شامل ہوا اور مینار پاکستان تک پہنچا' پورے راستے کوئی ٹریفک سگنل ٹوٹا' نہ کوئی پتھر پھینکا گیا بلکہ یوں کہیں کہ مال روڈ کی گرین بیلٹ میں پھول تک نہیں توڑا گیا۔ وہ لاکھوں کے جلوس کے ہمراہ انتہائی پرامن انداز میں مینار پاکستان تک پہنچیں۔ ضیاء الحق جیسے آمر نے ان کی آمد ' جلوس کے راستے اور جلسہ گاہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی اور سارا معاملہ خوش اسلوبی سے طے ہو گیا۔یہ بہترین حکمت عملی تھی۔
تیس برس پرانا یہ منظر مجھے طاہر القادری کی پاکستان آمد اور حکومت کی بے مثال اور تاریخی گھبراہٹ اورسراسیمگی دیکھ کر یاد آیا۔ طاہر القادری نے پروگرام کے مطابق اسلام آباد ایئر پورٹ اترنا تھا لیکن راولپنڈی اور اسلام آباد میں حکومت نے جو کچھ کیا' ٹیلی ویژن اسکرینوں پر عوام نے سب دیکھ لیا ہے' اسلام آباد اور راولپنڈی میں حفاظتی اقدامات کی حدت و شدت کا اندازہ یوں لگائیں کہ موبائل فون سروس تک جام کردی گئی' پھر ان کے طیارے کو اسلام آباد ایئر پورٹ پر اترنے نہیں دیا گیا ۔ان کا طیارہ لاہور ایئر پورٹ پر اترا' یہ سب کچھ ہالی ووڈ کی کسی سنسنی خیز مووی کا سین لگتا ہے لیکن ہمارے ملک میں یہ فلمی نہیں حقیقی منظر ہے۔
مجھے ابھی تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ مسلم لیگ ن کی قیادت ڈاکٹر طاہر القادری سے اتنی خوفزدہ کیوں ہے؟ بدحواسی اور خوف نے سانحہ لاہور کو جنم دیا جو بدنامی کا ایسا داغ ہے جو سو برساتوں کے بعد بھی نہیں دھلے گا۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے جہاز کا رخ موڑ کر اسلام آباد سے لاہور پہنچانے کی بدنامی بھی بدقسمتی سے ن لیگ کے حصے میں آئی ہے' جمہوری حکومتیںایسا نہیں کیا کرتیں۔
مسلم لیگ ن کے حامی الزام لگاتے ہیں کہ طاہر القادری اسٹیبلشمنٹ کا کھیل کھیل رہے ہیں' چوہدری پرویز الٰہی پر بھی یہی پھبتی کسی جاتی ہے؟ میں اس مفروضے کو تھوڑی دیر کے لیے مان لیتا ہوں کہ طاہر القادری اسٹیبلشمنٹ کا گھوڑا ہو گا لیکن اس گھوڑے سے اتنا ڈرنے کی ضرورت کیوں ہے؟ڈاکٹر طاہر القادری کی عوامی تحریک اور چوہدری پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت کی مسلم لیگ ق حکومت کا کیا بگاڑ لے گی؟ مسلم لیگ ن بھرپور اقتدار میں ہے' پیپلز پارٹی ان کی اتحادی نہیں بلکہ چھوٹی بہن بن چکی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سانحہ لاہور میں پیپلز پارٹی کے چھوٹوں نے تو روایتی بیان بازی کی لیکن آصف علی زرداری خاموش رہے' بکری کا دودھ پینے کے باعث شاید مفاہمتی جذبے زیادہ مضبوط ہو گئے ہیں' حضرت مولانا بھی وزارتیں لے کر دہی کلچہ کھا رہے ہیں' عمران خان صاحب کا کوئی پتہ نہیں کہ وہ کس کے ساتھ ہیں' جماعت اسلامی والے بھی خیبرپختونخوا کی وزارت خزانہ کے مزے لے رہے ہیں' ایسے حالات میں ڈاکٹر طاہر القادری اور چوہدری صاحبان کا اتحاد حکومت کا کیا بگاڑ لے گا؟ لیکن مسلم لیگ ن کی قیادت نے تو ایسے فیصلے کر دیے کہ یقین نہیں آتا کہ وزیراعظم میاں نواز شریف یا وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے ان کی منظوری دی ہوگی۔
مجھے لگتا ہے کہ بیورو کریسی کے کچھ نگینے اور چند سیاسی خوشامدی حالات کو خراب کرنے میں جتے ہوئے ہیں' بعض وفاقی وزراء کے غیر ذمے دارانہ بیانات نے پہلے اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے درمیان دوریاں پیدا کیں اور پھر پنجاب کابینہ میں بھی ایسے نابغوں کی کمی نہیں ہے' پنجاب کے نئے وزیر قانون رانا مشہود نے نئی منطق جوڑی ہے کہ طاہر القادری کے جہازکو فضائیہ نے اسلام آباد ایئر پورٹ پر اترنے نہیں دیا' ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ اس موقع پر ایسا بیان دینا بنتا ہے۔ سیاسی جوڑ توڑ میں ماہر ہونا اور چیز ہے جب کہ معاملہ فہمی' ذہانت اور زیرکی مختلف چیز ہوتی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کو چاہیے کہ وہ کسی پروفیشنل اور نامور وکیل کو وزارت قانون کی ذمے داری سونپیں ورنہ ان کے لیے مشکلات پیدا ہوتی رہیں گی۔
طاہر القادری کو اسلام آباد اترنے نہ دے کر حکومت نے شاید یہ سمجھ لیا ہے کہ معاملہ دب جائے گا لیکن ایسا نہیں ہو سکتا' پاور گیم میں جو ڈر گیا وہ مر گیا۔ سچ یہ ہے کہ حکومت ڈر گئی ہے' انسانی نفسیات ہے کہ وہ جسے اپنے سے طاقتور سمجھتا ہے' اس کے سامنے آنے سے بچتا ہے اور جو ڈر جائے' اس کی چمڑی ادھیڑ دیتا ہے۔ ماڈل ٹائون سے رکاوٹیں ہٹا کر طاہر القادری کو ڈرانے کی کوشش کی گئی تھی لیکن وہ آپریشن الٹا پڑ گیا' حکومت اسقدر دبائو میں آئی کہ اسے اپنے بااعتماد ساتھیوں کو عہدوں سے ہٹانا پڑ گیا' یہ پسپائی تھی' اب طیارے والا آپریشن ہو گیا ہے' سوچنے والی بات یہ ہے کہ طاہر القادری نے نئے سرے سے لاہور سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کی کال دیدی تو پھر کیا ہو گا؟
کیا حکومت کے پاس اس امر کی ضمانت ہے کہ وہ اس لانگ مارچ کو پرامن انداز سے روک لے گی؟ کیا ماڈل ٹائون لاہور سے بھی بدترین سانحہ نہیں ہو سکتا؟ ایسی صورت میں حکومت کے خلاف ایسا خوفناک ردعمل ہو سکتا ہے جس پر بند باندھنا ممکن نہیں ہو گا۔ آنے والا منظر نامہ بہت گھمبیر ہے؟ حالات کو درست کرنے کی چابی حکومت کے پاس موجود ہے' اسے اس کا اچھی طرح پتہ ہے' تالا کہاں ہے' اس سے بھی وہ بخوبی آگاہ ہے' جنرل پرویز مشرف والے فیصلے کو سامنے رکھ کر سوچیں' منظر نامہ واضح ہو جائے گا۔