عراق اور شام میں فرقہ واریت
عراق میں خود کش حملوں میں تیزی اور متشدد رجحان نے عام مسلمانوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے
فرقہ وارانہ کشیدگی عراق میں جس قدر ہیبت ناک طریقے سے پھیل رہی ہے اسے عالمی طاقتوں کی جانب سے کنٹرول کرنے کے بجائے اشتعال انگیزی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ 2003ء کے بعد2013کو سال کا سب سے زیادہ خونی قرار دیا گیا ہے اور امریکی انخلا ء کے بعد فرقہ وارنہ تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
عراق میں خود کش حملوں میں تیزی اور متشدد رجحان نے عام مسلمانوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے، دیالی صوبے کے حوالے سے صورتحال یہ ہے کہ تمام مسالک دہشت گردی کے نشانے پر ہیں ، دو مذہبی گروہوں کی مساجد ، جنازے اور فٹ بال کے میدان دہشت گردی کا نشانہ بنتے ہیں، اس صوبے کو مسلکی جنگ کا اکھاڑہ بھی کہاجاتا ہے۔عراق میں فرقہ وارانہ تشدد کا ذمے دار وزیر اعظم نوری المالکی کو قرار دیا جاتا رہاہے جن پر الزام ہے کہ وہ ایک مخصوص گروہ کی قیادت کرتے ہیں ، 2011ء میں امریکی انخلاء کے بعد تشدد کی حالیہ لہر کو بد ترین تشدد قرار دیا جارہاہے۔
اسی طرح عراق کے شمالی شہر کرکوک میں ماہ جولائی میں متعدد بم دہماکوں اور فائرنگ کے واقعات میں تیس افراد سے زائد جاں بحق ہوئے ، شام کے صدر بشار الاسد کی طرح عراق کے وزیر اعظم نوی المالکی کو فرقہ وارانہ متشدد واقعات کا ذمے دار سمجھا جاتا رہاہے۔اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اپریل سے جولائی 2013تک ڈھائی ہزار عراقی مارے جاچکے ہیں۔عراق کے شہر ، بغداد ،موصل ،کرکوک ، تاکی ، تکریت میں خودکش دھماکے میں ان گنت جانیں فرقہ وارنہ تشدد کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔
اب اسلامی شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ عراق و شام (آئی ایس آئی ایس داعش) کی جانب سے عراق کے مختلف شہروں میں قبضوں کا سلسلہ شروع ہے اور اس کی افواج بغداد تک پہنچ چکی ہیں اور ایران کی جانب سے بلواسطہ اور امریکا کی جانب سے بلا واسطہ ایک فرقہ کے عراقی عوام کو بغاوت کے خلاف ہتھیار اٹھانے کے لیے کہا جارہا ہے۔عراقی فوج کو شکست کا سامنا ہے لیکن دوسری جانب وہ بھی دعوے کر رہی ہے کہ اس نے داعش سے کئی علاقے چھڑا لیے ہیں۔
اسلامی شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ عراق و شام (آئی ایس آئی ایس داعش) ایک جہادی گروہ ہے جو شام کے بعد عراق میں مسلح کارروائیاں کر رہا ہے ۔اس تنظیم کو القاعدہ سے بھی زیادہ خطرناک اور منظم جہادی تنظیم کیا جاتا ہے جس کے اصل ارکان کی تعداد کسی کو نہیں معلوم ۔اس تنظیم کے سربراہ ابوبکر بغدادی 2003ء سے امریکی مزاحمت کے خلاف برسرپیکار ہیں۔پہلے عراقی القاعدہ کے رہنما کے طور پر ان کانام آیا تھا لیکن 2010ء میں انھوں نے اسلامی شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ عراق و شام (آئی ایس آئی ایس داعش) بنا لی۔آئی ایس آئی ایس یہ دعوی کرتی ہے کہ اس کے ساتھ مغربی ممالک کے مسلمان بھی مزاحمتی تحریک میں شامل ہیں جب کہ ایک اندازے کے مطابق80فیصد شامی شدت پسند اس تحریک کا حصہ ہیں۔یہ تنظیم عراق میں بھرپور قوت کے ساتھ ابھر کر سامنے آئی ہے۔
دنیا کے مختلف ممالک کے امن و مان کی صورتحال کا سرسری جائزہ لیں تو یہ سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی کہ اس وقت دنیا کے مسلم ممالک میں عالمی جنگ کا آغاز ہوچکا ہے اور ماضی کی عالمی جنگوں میں اس بار اس جنگ کا ہدف مسلمان ہیں اور انھیں اپنے مسلکی اختلافات کے بنا ء پر پوری دنیا میں نشانہ بنایا جارہا ہے۔سعودی عرب اورایران کی جانب سے شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے خلاف مذمتی بیان سامنے آیا۔
امام کعبہ نے شام کے واقعات کی شدید مذمت کی تو دوسری جانب ایرانی صدر حسن روحانی نے بھی پہلی بار کہا کہ'' کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال جس نے بھی کیا ہو اس کے سدباب کے لیے عالمی برادری کو طاقت بروئے کار لانی چاہیے۔'' شام میں کیمیائی ہتھیاروں سے معصوم جانوں کی جس قدر بھیانک ہلاکتیں ہوئیں ہیں اس کی بربریت کی مثالیں تاریخ انسانی میں بہت کم ملتی ہیں ۔ سعودی عرب اور ایران کی جانب سے مذمتی بیانات یکساں اور واضح تھے۔
ایران کی جانب سے اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ'' شام میں1300سے زائد ہلاکتیں کیمیائی ہتھیاروں ہی کی وجہ سے ہوئی ہیں'' حسن روحانی کا کہنا تھا کہ'' اسلامی جمہوریہ ایران نے عالمی برداری سے مطالبہ کیا ہے کہ اپنی تمام تر طاقت کیمیائی ہتھیاروں کے خلاف بروئے کار لائے ، خواہ یہ دنیا کے کسی بھی حصے میں استعمال کیے گئے ہوں۔'' 1980اور1988 کی ایران عراق جنگ میں بھی کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال ہوا تھا اس لیے ایران کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی شدید مذمت کی گئی ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کا بہانہ بنا کر امریکا کی جانب سے عراق پر لشکر کشی کی گئی تھی اور فرقہ وارانہ قتل عام کے الزام میں صدام حسین کو سزائے موت بھی دے دی گئی لیکن شام کی جانب سے سفاکانہ طور پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے بعد بھی امریکا اور روس کی جانب سے شام سے اپیل کی گئی کہ اس معاملے کی غیر جانب دارانہ تحقیقات کے لیے اجازت دے، امریکی بیڑا صدر امریکا کی جانب سے اجازت کا منتظر رہا۔شامی حکومت کی جانب سے اس اپیل پر کوئی عندیہ نہیں دیا گیا اور معائنہ کاروں کو مبینہ مقام تک جانے کی کوئی اجازت نہیں دی گئی ۔
عالمی استعماری قوتوں کی جانب سے مسلمانوں کے درمیان اختلافات کو جواز بنا کر ملت کو جس طرح تباہ و برباد کیا جارہا ہے اس کی مثال تاریخ اسلامی میں بہت کم ملتی ہے۔پاکستان بھی عالمی سازشوں کا شکار ہے اور یہاں بھی کالعدم فرقہ وارانہ تنظیموں کی وجہ سے آئے دن مساجد ، جنازوں اور بے گناہ عوام کے ساتھ سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔مذہبی انتہا پسندی صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے کہ ایسے کوئی دو فریق بیٹھ کر حل کرلیں گے بلکہ یہ ایک عالمی اسلامی ممالک کے درمیان اختلافات کا سب سے متشدد مسئلہ ہے جس کا فائدہ امریکا اور اسلام دشمن قوتیں اٹھا رہی ہیں۔
مسلمانوں کے درمیان باہمی چپقلش کو دور کرنے کے لیے تمام اسلامی ممالک کو اسلامی سربراہ کانفرنس کا انعقاد کرنا چاہیے اور نیٹو کے طرز پر اپنی اسلامی فوج بنا کر متاثرہ ممالک میں امن کے قیام کے لیے اپنا کردار ادا چاہیے۔شام ، لبنان، مصر،عراق،افغانستان اور پاکستان میں فرقوں اور مسالک کے نام پر جدال کا سدباب اسلامی ممالک کو خود ہی حل کرنا ہوگا۔
یہ ایک عالمی جنگ ہے جو مسلمانوں کے درمیان اختلافات کے سبب مسلم ممالک میں لڑی جا رہی ہے۔ مسلم ممالک اپنے وسائل و دولت کو باہمی اختلافات کی اس عالمی جنگ میں جھونک رہے ہیں ، کوئی بھی ایک اسلامی ملک اس آگ سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ سب اتحاد بین المسلمین کا مظاہرہ کریں تاکہ فرقہ وارانہ عالمی جنگ کا خاتمہ ہو۔لیکن عالمی استعماری قوتیں بھی یہ یاد رکھیں کہ اس جنگ کا رخ ضرور ان کی جانب منتقل ہوگا وہ غلط فہمی میں مبتلا نہ رہیں کہ یہ جنگ مسلم ممالک تک محدود رہے گی۔