پاک چین تعلقات کے نئے دور کا آغاز
چینی صدرکے دورے کی منسوخی نہ صرف چین بلکہ دنیا کے ایک طاقتور ترین صدر کی توہین کے مترادف تھا۔
پاکستان کے لیے چین کئی حوالوں سے بہت اہم ہے، چین پاکستان کا پڑوسی ملک ہے۔ کہاوت مشہور ہے کہ آپ دوست تبدیل کرسکتے ہیں لیکن پڑوس تبدیل نہیں کیا جاسکتا ۔ بہتر یہی ہے کہ پڑوسیوں سے تعلقات اچھے اور خوشگوار رکھے جائیں۔ دنیا کے زیادہ تر ملک اس اصول پر عمل پیرا ہیں۔ پورا یورپ اب ایک اکائی بن گیا ہے جب کہ ماضی میں یورپی یونین میں شامل ملک ایک دوسرے کے خلاف بھیانک جنگیں لڑتے رہے ہیں اور دوعالمی جنگوں کا مرکز بھی یورپ ہی تھا۔ بے پناہ جانی اور مالی نقصان اٹھانے کے بعد بالآخر تمام یورپی ملکوں نے ایک دوسرے کے ساتھ امن اور دوستی کے رشتے استوارکیے، آج یورپی یونین کے شہری اس یونین میں شامل تمام ملکوں میں آزادانہ طور پر سفر کرسکتے ہیں۔
چین اور پاکستان نے ایک دوسرے کے ساتھ گرم جوش تعلقات بحال کرنے کا سلسلہ اگرچہ تاخیر سے شروع کیا تھا تاہم دونوں ملکوں کے دوستانہ رشتے ہر امتحان پر پورا اترے ہیں۔ پاکستان کے وزیر اعظم میاں شہباز شریف چین کا پانچ روزہ دورہ مکمل کر کے وطن واپس پہنچ چکے ہیں۔ ان کے دورے سے قبل طرح طرح کی قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں اور بعض حلقے دورے کی کامیابی کے بارے میں زیادہ پر امید نہیں تھے۔ پچھلے تقریباً دس برسوں میں چین اور پاکستان کے تعلقات میں کئی اتار چڑھاؤ آتے رہے ہیں۔2013 میں پاکستان معاشی طور پر بڑی مشکل صورت حال سے دوچار تھا۔
دہشت گردی اپنے عروج پر تھی، سرکاری وکاروباری وفود پاکستان آنے سے گریزاں تھے اور اہم ملاقاتیں دبئی میں ہوا کرتی تھیں۔ ان حالات میں چین نے آگے بڑھ کر پاکستان کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا اور سی پیک معاہدے پر عمل درآمد کا آغاز ہوگیا۔ چین کی جانب سے اربوں ڈالرکی سرمایہ کاری کی گئی اور خصوصی اقتصادی زون بنا کر پاکستان میں صنعتیں لگانے کا فیصلہ بھی کر لیا گیا۔
سی پیک بنیادی طور پر دو مرحلوں پر مشتمل تھا، پہلے مرحلے میں بجلی، مواصلات، سڑکوں اور بندرگاہوں پر مشتمل بنیادی ڈھانچے کی تعمیر مکمل کی جانی تھی جس کے بعد دوسرے مرحلے میں چین سے بعض صنعتوں کو خصوصی اقتصادی زونز میں منتقل کرنے کا منصوبہ تھا۔ پہلا مرحلہ جب بڑی حد تک مکمل ہوگیا تو ان ملکی اور غیر ملکی طاقتوں کو یہ خطرہ محسوس ہوا کہ اگر دوسرے مرحلے میں صنعت کاری کا عمل کامیابی سے مکمل ہوگیا تو ان کے کاروباری اور سیاسی مفادات کو سخت نقصان پہنچے گا، یہی وہ وقت تھا جب چین اور پاکستان کے دوطرفہ تعلقات کو خراب کرنے کی ایک منظم مہم کا آغاز ہوگیا ۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب چین کے صدر پاکستان کے تاریخی دورے پر آنے والے تھے تو حالات اس قدر خراب کردیے گئے کہ انھیں اپنا دورہ پاکستان منسوخ کرنا پڑگیا، جو لوگ عالمی سیاست کا فہم رکھتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ چین کے صدرکا عالمی سطح پر کیا مقام اور مرتبہ ہے۔ امریکا کے بعد چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی فوجی اور معاشی طاقت ہے، اس حوالے سے چین کے صدرکی اہمیت امریکی صدر سے کم نہیں ہے۔
چینی صدرکے دورے کی منسوخی نہ صرف چین بلکہ دنیا کے ایک طاقتور ترین صدر کی توہین کے مترادف تھا۔ یہ چین کی اعلیٰ ظرفی تھی کہ اس نے کھلے عام اپنی ناراضی کا اظہار نہیں کیا اور دیرینہ دوستی کے احترام میں خاموشی اختیارکیے رکھی۔ تاہم، پاکستان میں سب کو یہ معلوم ہوچکا تھا کہ چین سے دوبارہ گرم جوش تعلقات کو بحال کرنااب اتنا آسان نہ ہوگا۔ چین سی پیک میں دلچسپی لینا چھوڑ چکا تھا اور دونوں ملکوں کے اسٹرٹیجک تعلقات میں سرد مہری بڑھتی جا رہی تھی۔
سی پیک کے دوسرے مرحلے میں جو صنعتیں پاکستان منتقل کی جانی تھیں وہ چین نے ویتنام میں لگانا شروع کر دیں اور پچھلے دس سالوں کے اندر ویت نام تیزی سے ترقی کرتے ہوئے اپنے خطے کا اہم ملک بن گیا۔ اس سے زیادہ دکھ کا مقام اور کیا ہوسکتا ہے کہ جو صنعت کاری ہمارے ملک میں ہونی تھی اور جس کے لیے بنیادی ڈھانچہ تیارکر لیا گیا تھا ہم اس سے نہ صرف محروم ہوگئے بلکہ مالی طور پر دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئے۔ سی پیک کا دوسرا مرحلہ شروع ہوگیا ہوتا تو خلیج کی مالدار ریاستیں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرچکی ہوتیں اور مغرب کے سرمایہ کار بھی پاکستان میں اپنے پیداواری یونٹ لگانے کے عمل کا آغاز کرچکے ہوتے۔ غلط فیصلوں اور مہم جوئی کی ہمیشہ بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے۔
چین کے صدر شی جن پنگ سے پاکستانی وزیر اعظم کی ملاقات سے یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ شاید سرد مہری کی برف پگھل رہی ہے۔ اس نوعیت کی اعلیٰ ترین سطح کی سربراہی ملاقاتوں کی کامیابی یا ناکامی کا اندازہ بعض عوامل اور مظاہرکے ذریعے لگایا جاتا ہے، باہمی ملاقات کا دورانیہ مختصر ہو توکہا جائے گا کہ ملاقات کے ذریعے صرف ایک رسم پوری کی گئی ہے۔
اس پیمانے پر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات کا دورانیہ طویل تھا، جس کا مفہوم یہ نکلتا ہے کہ چین گرم جوش تعلقات کی بحالی کو اپنی طرف سے ایک موقع اور دینا چاہتا ہے۔ میرے نزدیک سب سے اہم بات یہ ہے کہ چین نے سی پیک کے دوسرے مرحلے کو زیادہ بہتر بنانے اور آگے بڑھانے کے ساتھ اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ صدر شی جن پنگ اور وزیراعظم شہباز شریف کی ملاقات کے دوران آرمی چیف کی موجودگی کے حوالے سے مختلف آراء سامنے آرہی ہیں۔
ایک مثالی اور مستحکم جمہوریت میں اس طرح کے مظاہرکم نظر آتے ہیں، تاہم زمینی حقیقت یہی ہے کہ چین اور پاکستان کے تعلقات میں دوبارہ گرم جوشی پیدا کرنے کا واحد طریقہ یہی تھا کہ چینی قیادت بالخصوص صدر شی چن پنگ کو یہ یقین دلایا جائے کہ سی پیک کے دوسرے مرحلے کو اگر شروع کیا جائے گا، اس کے خلاف کسی بھی سازش یا رکاوٹ کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور یہ پاکستان کے طاقتور ترین اداروں، سیاسی قیادت اور سیکیورٹی فراہم کرنے والے محکموں کا متفقہ فیصلہ ہے۔ مزید برآں، یہ نکتہ بھی فراموش نہ کیا جائے کہ فوجی اور دفاعی صلاحیتوں کے حوالے سے امریکا اور چین پاکستان کے لیے انتہائی اہم ملک ہیں۔
فوج کا نوے فیصد ساز و سامان اور ہتھیار انھی دو ملکوں سے حاصل ہوتا ہے، اس خطے میں امریکا کی پالیسیاں بدل رہی ہیں۔ پاکستان کی سرد جنگ دور جیسی اہمیت باقی نہیں رہی ہے، لہٰذا چین سے فوجی تعاون بڑھانا بھی ضروری ہوگیا ہے۔ چین معاشی سپر پاور ہے جو ملکوں سے صرف فوجی نہیں بلکہ معاشی تعلقات کو فروغ دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے لہٰذا اب وقت آگیا ہے کہ چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو اسی تناظر میں آگے بڑھایا جائے۔
چین کے دورے کے اختتام پر جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں نے اپنے معاشی، سیاسی اور دفاعی رشتوں میں توازن پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ ایک مشکل وقت میں چین نے ماضی قریب کے ناخوشگوار تجربوں کو نظر اندازکر کے بہت بڑے پیمانے پر تعاون کی جو پیش کش کی ہے، اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے گا جس سے چین کے ساتھ ہماری دوستی کو نئی جہت ملے گی، اب یہ صرف حکومت ہی نہیں بلکہ ریاست کے تمام اداروں، اسٹیک ہولڈرز سیاسی جماعتوں اور ذرایع ابلاغ کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ سی پیک فیز ٹو سمیت ان تمام معاہدوں کی تکمیل اورکامیابی کے لیے اپنا کردار ادا کریں جو چین کے تعاون اور اشتراک سے شروع ہونے والے ہیں یا امکانی طور پر جن کا آغاز ہوسکتا ہے۔ بہتر ہوگا کہ ہم دانش مندی کا مظاہرہ کریں اور سیاسی، نظریاتی، انفرادی اورگروہی مفادات کو ملک اور قوم کے اجتماعی مفاد پر غالب نہ آنے دیں۔