آڈیو لیک
اس طرح آڈیو کو ریلیز کرنا بھی غیر قانونی اور توہین عدالت ہے
نیب ترامیم کے حوالے سے سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران ججز اور عمران خان کے درمیان مکالموں پر مبنی ایک آڈیو تحریک انصاف نے جاری کی ہے۔ بانی تحریک انصاف اس سماعت کے دوران وڈیو لنک میں شریک تھے۔ یقیناً یہ بھی ایک آڈیو لیک ہے۔ یہ بھی غیر قانونی طریقہ سے ریکارڈ کر کے جاری کی گئی ہے۔
اگر عدلیہ باقی آڈیوز کی غیر قانونی ریکارڈنگ یا لیک پر بہت سخت موقف رکھتی ہے، تو یقیناً اس آڈیو پر بھی یہی سخت موقف ہونا چاہیے۔ اگر ایسی آڈیوز ریکارڈنگ پر حساس اداروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو یقیناً اس آڈیو کو ریکارڈ کرنے اور اس کو جاری کرنے والوں کے خلاف بھی قانون کے مطابق سخت کارروائی ہونی چاہیے۔
جب عدالت نے مقدمہ کی لائیو اسٹریمنگ کی اجازت نہیں دی تو اس طرح آڈیو کو ریلیز کرنا بھی غیر قانونی اور توہین عدالت ہے۔ لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ تحریک انصاف اکثر اس طرح کی کارروائیوں کے بعد بچ جاتی ہے۔ البتہ اگر یہی کام کسی اور جماعت نے کیا ہوتا تو یقیناً عدلیہ ایکشن لیتی۔ تاہم تحریک انصاف کی دفعہ ہم نے ایکشن لیتے کم دیکھا ہے۔ اس لیے کیا اس دفعہ ایکشن ہوگا مجھے کم ہی یقین ہے مجھے لگتا ہے کہ معاملے کو دبانے کی کوشش کی جائے گی۔
اب جب یہ آڈیو عام لوگوں تک پہنچ گئی ہے۔ اس کو تحریک انصاف نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر جاری بھی کر دیا ہے ۔ تو مجھے لگتا ہے کہ اس پر بات کرنا اور اس کا تجزیہ کرنا غلط یا غیر قانونی نہیں ہوگا۔ بہر حال اس آڈیو میں پہلی بات یہ ہے کہ بانی تحریک انصاف یہی کہہ رہے ہیں کہ چیئرمین نیب سپریم کورٹ کو لگانا چاہیے۔ شاید بانی تحریک انصاف یہ سمجھ رہے ہیں جیسے عدلیہ ججز کی تعیناتی میں خود مختار ہے۔
ایسے وہ چیئرمین نیب کی تعیناتی بھی کر سکتی ہے حالانکہ ججز کی تعیناتی جیوڈیشل کمیشن کرتا ہے جس میں حکومت کے نمایندے موجود ہیں۔ اسی طرح پھر پارلیمانی کمیشن بھی موجود ہے۔ اس لیے جج لگانے کے حوالے سے عدلیہ کو کافی خود مختاری حاصل ہے لیکن مکمل خود مختاری نہیں ہے۔ تا ہم بانی تحریک انصاف نے یہی بات کی ہے کہ نیب کا چیئرمین نیب سپریم کورٹ لگائے۔ اس سے آگے انھوں نے وضاحت نہیں کی ۔عمران کی اس بات پر مشورے کا زیر سماعت مقدمے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔
اس لیے ججز ایسے کسی بھی معاملہ پر دلچسپی نہیں دکھا رہے تھے جو کیس سے متعلقہ نہیں تھا۔ بلکہ وہ بار بار بانی تحریک انصاف کو تاکید کر رہے تھے کہ وہ اپنے دلائل کیس تک محدود رکھیں۔ جب کہ بانی تحریک انصاف سیاسی باتیں کرتے رہے۔ اب جہاں تک چیئرمین نیب کی تعیناتی کی بات ہے تو کوئی بانی تحریک انصاف سے پوچھے کہ آپ جب چار سال ملک کے وزیر اعظم رہے تو تب آپ نے یہ قانون کیوں نہیں بنایا کہ تعیناتی عدلیہ کے سپرد کر دی جائے۔ تب تو آپ ایک ایسے شخص کو چئیرمین نیب رکھنے پر بضد رہے جس کی کمزوریاں عیاں تھیں'آپ کے دور میں نیب میں چن چن کر ایسے افسران لگائے جاتے رہے جو مختلف الزامات کی زد میں رہے۔
اس لیے کیا کوئی بانی تحریک انصاف سے سوال کر سکتا ہے کہ آپ نے اپنے دور میں نیب کے لیے کیا اصلاحات کیں۔ سپریم کورٹ کے ججز نے آپ سے سوال کیا کہ آپ اپنے دور میں نیب کے حوالے سے آرڈیننس لاتے رہے اور دوسروں کو پارلیمان سے ترامیم بھی کرنے کی اجازت نہیں دے رہے۔ تاہم میں سمجھتا ہوں بانی تحریک انصاف کو سب سے پہلے اپنے دور میں سیاسی مخالفین کے کے ساتھ کی جانے والی زیادتیوں کا جواب دینا چاہیے۔
کیا انھوں نے نیب کو صرف اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال نہیں کیا۔ آج بھی بانی تحریک انصاف عدالت میں صرف اپنے سیاسی مخالفین کو پھنسائے رکھنے کے لیے کھڑے ہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ پاکستان میں ہر دور میں نیب کو سیاسی انجینئرنگ کے لیے استعمال کیا گیا۔ نیب دفاتر میں سیاسی جماعتیں بنائی بھی گئی ہیں اور توڑی بھی گئی ہیں۔ یہ کام آج بھی جاری ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ بانی تحریک انصاف کے دور میں بھی جاری تھا اور وہ اس کا بھر پور فائدہ اٹھا رہے تھے۔ بانی تحریک انصاف نے خود کو دی جانیوالی سزاؤں کا بھی ذکر کیا۔
ان کا موقف درست بھی ہو سکتا ہے کہ ان سزاؤں کی بنیادی ضرورت انھیں نا اہل کرنا تھا۔ پارلیمان سے دور رکھنا تھا۔ لیکن سوال یہ بھی تو ہے کہ جب 2018 میں میاں نواز شریف کو الیکشن سے پہلے اسی طرح سزائیں سنائی جا رہی تھیں' گرفتار کیا جا رہا تھا تو آپ کیا تالیاں نہیں بجا رہے تھے۔ آپ ان ناحق سزاؤں کی وجہ سے ہی اقتدار میں آئے۔ پھر بھی آر ٹی ایس بٹھایا گیا کیونکہ آپ پھر بھی نہیں جیت رہے تھے۔ آپ کا مد مقابل ریس سے باہر کر دیا گیا آپ اکیلے دوڑ رہے تھے لیکن پھر بھی ریس نہیں جیت رہے تھے۔
سپریم کورٹ میں کوئی بانی تحریک انصاف سے سوال کرتا کہ 2018 میں آپ سزاؤں کے حق میں تھے' آج خلاف ہیں۔ 2018 میں آپ آر ٹی ایس کے بیٹھنے کی انکوائری کروانے کے لیے تیار نہیں تھے۔ آج آپ کو فارم 45کی انکوائری کی بہت جلدی ہے۔کل جب آپ کا ڈپٹی اسپیکر سپریم کورٹ سے حکم امتناعی حاصل کر کے بیٹھا تھا۔ تو آپ جشن فتح مناتے تھے کہ حکم امتناعی مل گیا۔ آج آپ کی رائے کہ اگر کوئی دیر ہوگئی تو ملک ٹوٹ جائے گا۔ آپ دھاندلی کریں تو ملک نہیں ٹوٹے گا۔ آپ اپنے مخالفین کو ناحق اندر کر دیں ملک نہیں ٹوٹے گا۔ آپ عدالتوں سے سٹے لیں ملک نہیں ٹوٹے گا۔ لیکن اگر مخالفین کو یہ سہولت مل جائے تو ملک ٹوٹ جائے گا۔
عدالت میں بانی تحریک انصاف بار بار عدلیہ کو کہہ رہے تھے کہ قوم آپ کی طرف دیکھ رہی ہے جب کہ جج انھیں سمجھا رہے ہیں کہ قوم آپ کی طرف دیکھ رہی ہے۔ وہ جج صاحبان کو کہہ رہے ہیں کہ جو کرنا ہے آپ نے کرنا ہے جب کہ جج صاحبان انھیں سمجھا رہے تھے کہ جو کرنا ہے پارلیمان نے کرنا ہے۔ آپ پارلیمان میں جا کر بات کریں۔ سیاسی لڑائی سیاستدان پارلیمان میں خود طے کریں۔
یہ عدالتوں کا کام نہیں ہے۔ تحریک انصاف کا موقف یہ ہو گیا کہ کچھ نقصان ہوگیا تو عدالتیں اور ججز ذمے دار ہونگے جب کہ ججز کا موقف تھا کہ ہم نہیں سیاستدان ذمے دار ہیں جو ملک چلا رہے ہیں۔ جج انھیں سمجھا رہے تھے کہ پارلیمان کی اہمیت کو سمجھیں۔ پارلیمان قانون بنا سکتی ہے۔
ہم پارلیمان کی قانون بنانے کی طاقت ختم نہیں کر سکتے۔حتیٰ کہ جسٹس اطہر من اللہ نے انھیں یاد کروایا کہ جب آپ وزیر اعظم تھے اور چیئرمین الیکشن کمیشن کی تعیناتی کا کیس عدالت میں آیا تھا تو عدالت نے مداخلت کے بجائے معاملہ پارلیمان کو ہی حل کرنے کے لیے کہا تھا۔ کیونکہ جو کام پارلیمان کا ہے وہ عدالتیں نہیں کر سکتیں۔ لیکن شاید بانی تحریک انصاف کو ججز کی یہ بات مکمل سمجھ نہیں آئی۔
بہرحال بانی تحریک انصاف کی آڈیو یہ بات ظاہر کر رہی ہے کہ انھیں آج بھی جمہوری سیاست پر کوئی خاص یقین نہیںہے۔ وہ کل بھی سیاست کو بیرونی مداخلت سے ہی چلاتے تھے' آج بھی اسی کے خواہاں ہیں۔