مولانا کی دستک پر پنجاب کی لبیک

جھکنے سے انکاری مولانا کے موقف میں شدت اور عوامی تائید میں اضافہ ہو رہا ہے۔


[email protected]

2024 کے انتخابات میں دھاندلی اور سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے خلاف جمعیت علمائے اسلام کی احتجاجی تحریک نے بلوچستان، سندھ اور خیبرپختونخوا کے بعد پنجاب کے شہر مظفرگڑھ میں منعقدہ عوامی اسمبلی میں پنجابی عوام کے دلوں پر جاندار دستک دے دی ہے۔ اس دستک کی آواز پر دہائیوں سے وڈیروں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور اسٹیبلشمنٹ کے نمائندوں کے نرغے میں پھنسے ہوئے پنجاب کے عوام نے پہلی بار انگڑائی لے لی ہے۔ پنجاب میں مولانا نے غیر متوقع عوامی طاقت کا مظاہرہ کرکے سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔

لگتا ہے کہ اس بار مولانا کا فوکس پنجاب پر ہے، ہر صوبے میں ایک ایک عوامی اسمبلی لگی لیکن پنجاب میں دوعوامی اسمبلیاں لگیں گی، مظفرگڑھ عوامی اسمبلی کے بعد دوسری عوامی اسمبلی 7 ستمبر کو مینار پاکستان لاہور میں لگے گی۔

7 ستمبر پاکستان کی تاریخ میں بہت اہم دن ہے، اس دن کئی دنوں کی طویل بحث کے بعد پاکستان کی پارلیمان نے منکرین ختم نبوت کو مفتی محمود رحمہ اللہ کے علمی دلائل کے بعد غیر مسلم قرار دیا تھا۔ مولانا نے 50 سال بعد اس کامیابی کی گولڈن جوبلی منانے اور اسی دن سے اپنی احتجاجی تحریک کا دوسرا مرحلہ شروع کرنے کا اعلان کیا۔ مولانا مفتی محمود کے صاحبزادے مولانا فضل الرحمٰن حقیقی جمہوریت کی بحالی کا علم لے کر نکلے ہیں، ان کا یقین ہے کہ اس بار وہ ''حقیقی جمہوریت''کا ہدف حاصل کریںگے۔

مبصرین اور ناقدین کا خیال تھا کہ مظفر گڑھ جنوبی پنجاب کا گرم ترین شہر ہے، جہاں ان دنوں عام طور پر درجہ حرارت 47\48 سینٹی گریڈ رہتا ہے، اس قدر شدید گرم موسم میں جمعیت نے یہاں پروگرام رکھ کر بہت بڑا رسک لیا ہے اور اس بار جمعیت کی عوامی اسمبلی ناکام ہوجائے گی کیونکہ پنجاب میں جمعیت کا ووٹ بینک نہ ہونے کے برابر ہے۔ پنجاب کے لوگ اسٹیبلیشمنٹ اور اسٹیٹس کو کی سیاسی جماعتوں کے دائرے سے باہر نکلنا پسند نہیں کرتے۔ دوسری طرف شدید ترین گرم موسم میں لو کے تھپیڑے آگ کے گولوں کی طرح چہروں کو جھلسا رہے ہوں گے تو کون جمعیت علمائے اسلام کی عوامی اسمبلی میں آئے گا؟ لیکن چشم فلک نے دیکھا کہ مبصرین و ناقدین کے سارے اندازے غلط ثابت ہوئے۔

یکم جون کو جس طرح جنوبی پنجاب کے عوام کا جم غفیر اس عوامی اسمبلی میں امڈ آیا جس سے لگتا ہے کہ مسلم لیگ ن کے ووٹ کو عزت دینے والے کارکنان نے مولانا کی آواز پر لبیک کہا۔ شرکا کی غیر متوقع تعداد نے یہ ثابت کردیا کہ وہ وڈیروں اور جاگیرداروں کے چنگل سے آزاد ہونے پر تیار ہیں اس لیے ان کی راہ میں موسم کی شدت حائل ہوئی، نہ سیاسی وابستگیاں اور نہ ہی وڈیروں کی روایتی غلامی انکے پاؤں کی بیڑیاں بن سکیں۔

پنجاب میں طاقتور حلقے ہمیشہ مقامی سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور وڈیروں کے ذریعے حقیقی عوامی نمائندوں کا راستہ روک کر اپنے نمائندوں کو پارلیمان بٹھا دیتے ہیں۔ مگر اب کی بار پنجاب کے عوام نے مولانا کی پہلی دستک پر لبیک کہہ کر اپنا یہ فیصلہ سنا دیا کہ اب اس غیر آئینی اور غیر قانونی سلسلے کو بند کرنا ہوگا۔ عوامی اسمبلیوں میں مولانا کے لب و لہجے اور عوام کی گرم جوشی سے اندازہ ہو رہا ہے کہ ان کا ہاتھ عوام کی نبض پر ہے، نبض دیکھ کر وہ ناصرف بیماری کا پتا لگا چکے ہیں بلکہ انھوں نے بیماری کا علاج بھی تجویز کردیا ہے، اور عوام اب اس بیماری سے مکمل طور پر خلاصی کیلیے ہر قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں۔

خطاب کرتے ہوئے بھی مولانا نے جنوبی پنجاب کے عوام کو مخاطب ہو کر کہا کہ''ہم اس ملک میں حقیقی عوامی جمہوریت کے خواہاں ہیں، اس مقصد کیلیے جدوجہد قطعی طور پر بغاوت نہیں، بلکہ بغاوت وہ کررہے ہیں جو آئین توڑتے ہیں۔'' مقتدرہ کو للکارتے ہوئے مولانا نے کہا کہ''تمہارا پاکستان کے قیام میں کوئی کردار نہیں بلکہ بگاڑ میں تمہارا کردار ہے۔

اگر ہمیں گرفتار ہونا پڑا تو گرفتاری دیں گے اور اگر قبروں میں جانا پڑا تو اس کے لیے بھی تیار ہیں۔ مقتدرہ نے ہمیشہ آئین کے ساتھ کھلواڑ کیا۔ ہم اداروں کو بتانا چاہتے ہیں کہ اپنا حق بھیک مانگ کر نہیں جنگ لڑ کر لیں گے۔'' مولانا کا لہجہ بتا رہا ہے کہ انھوں نے جس راستے اور بیانیے کا انتخاب کیا اس کو عوامی پذیرائی مل رہی ہے اس لیے مولانا پوری استقامت کے ساتھ جم کر اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ''سب کو اپنے آئینی دائرے میں واپس جانا ہوگا۔'' مولانا کہتے ہیں کہ نہ ہم فوج کو کمزور دیکھنا چاہتے ہیں نہ ہم ملکی دفاع کو کمزور دیکھنا چاہتے ہیںہم ان کی پالیسیوں کے رخ کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔

جھکنے سے انکاری مولانا کے موقف میں شدت اور عوامی تائید میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مولانا آج اپنے پورے سیاسی قد و قامت اور قوت کے ساتھ کھڑے ہیں، حکومت، اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کی نظریں مولانا پر جمی ہیں۔ ہر ایک کی خواہش ہے کہ مولانا ان کے لیے نرم گوشہ پیدا کریں۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل سے مولانا مکمل انکاری اور حکومت کو ناجائز اور''نکوں'' کا نیا ٹولہ سمجھتے ہیں لہذا رہ گئی صرف اپوزیشن جن میں سب سے بڑی جماعت مولانا کی روایتی حریف جماعت پاکستان تحریک انصاف ہے۔ احتجاجی تحریک چلانے کے لیے مولانا کے پاس دو راستے ہیں۔

تحریک انصاف کے ساتھ مل کر زور دار تحریک چلائیں اگر ایسا ہوا تو یہ حکومتیں ریت کی دیوار ثابت ہونگی مگر ایسا ہونے کے بعد ہوگا کیا؟ اس کو سمجھنے کے لیے ماضی پر نظر دوڑاتے ہیں تحریک انصاف کی قیادت نے 9 مئی کے بعد روایتی بزدلی کا مظاہرہ کیا، سب زیر زمین چلے گئے، کوئی سامنے نہیں آیا مگر مولانا کے موقف کو دیکھتے ہوئے انھوں نے بھی حوصلہ پکڑا اور وہ بھی بولنے لگے اگر مولانا نے ان کے ساتھ اسٹیج شیئر کیا اور اپوزیشن مولانا کی قیادت میں ایک ہوگئی تو حکومت کا دھڑن تختہ چند مہینے کے اندر ہوجائے گا۔ مگر اس کا فائدہ صرف تحریک انصاف کو ہوگا۔ اور تحریک انصاف والوں کے دلوں میں بغض مولانا کی بیماری کی خطرناک نوعیت کو دیکھتے ہوئے یہ واضح ہے کہ مولانا کو کوئی سیاسی فائدہ نہیں ہوگا۔

میرا خیال ہے کہ طویل مشترکہ جدوجہد کے بعد بھی تحریک انصاف کا ایک ووٹر بھی مولانا کی طرف راغب نہیں ہوگا۔ اور دوسری طرف تحریک انصاف دشمنی میں مسلم لیگ ن کا کوئی ورکر بھی مولانا کی طرف مائل نہیں ہوگا۔ ہاں یہ ضرور ہے تحریک انصاف کے لیڈران دن کے وقت مولانا کی آڑ میں اسٹیج پر اسٹیبلشمنٹ دشمنی کا بھاشن دے کر عوامی جذبات سے کھیلیں گے اور رات کی تاریکی میں فرمانبردار''نکا'' بن کر''نئے ابا جی'' کو راضی کرنے کی جدوجہد کریں گے اور غالب امکان ہے کہ اس بار صرف صفحہ نہیں لائن بھی ایک ہوجائے گی۔

غیب کا علم میرے عقیدے کے مطابق اللہ رب العزت کے پاس ہے مگر اپنے سیاسی فہم، جمعیت علمائے اسلام اور تحریک انصاف کے کارکنوں کے درمیان دوریوں بلکہ سیاسی دشمنی کو دیکھتے ہوئے میں محسوس کر رہا ہوں کہ جمعیت اور تحریک انصاف کا اتحاد جمعیت علمائے اسلام کے لیے پی ڈی ایم کی حکومت سے گہرا اور خطرناک گڑھا ثابت ہوگا اور اس بار نیازی کے زرداری کی طرح وارے نیارے ہوجائیں گے۔

اور اگر اس بار نیازی بھاری ثابت ہوئے تو یہ جمعیت علمائے اسلام کیلیے ایک المیہ بن کر سامنے آئے گا۔ دوسری صورت یہ کہ مولانا اپنی احتجاجی تحریک کو سولو فلائٹ کے طور پر لے کر چلیں۔ اس صورت میں حکومت کے لیے تو شاید جلدی مشکلات پیدا نہ ہوں مگر مولانا کو سیاسی فائدہ بے پناہ ہوگا کیونکہ مولانا کی واحد کمزوری پنجاب میں جمعیت علمائے اسلام کی کمزور پوزیشن ہے اور سولو فلائٹ کی صورت میں پہلے سے مولانا کی طرف مائل پنجاب میں مسلم لیگ ن کے ''ووٹ کو عزت دو'' کے بیانیے کے ساتھ کھڑے لاکھوں سیاسی ورکرز کا ایک معقول حصہ پکے ہوئے پھل کی طرح مولانا کی جھولی میں گر سکتا ہے جو پنجاب میں مولانا کے پیر جمانے کے لیے بہت بڑا ریلیف ثابت ہوسکتا ہے جس کی ایک جھلک مظفر گڑھ عوامی اسمبلی میں قوم دیکھ چکی ہے۔ دیکھتے ہیں مولانا کیا فیصلہ کرتے ہیں اور مولانا کی دستک پر پنجاب کی لبیک پہلی اور آخری ثابت ہوتی ہے یا یہ پنجاب میں مولانا کی شاندار سیاست کی ابتدا ثابت ہوگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔