مودی صاحب کی تیسری ٹرم کا آغاز
بی جے پی سادہ اکثریت حاصل کرنے کے لیے 272 نشستیں نہیں جیت پائی.
ہندوستان میں 2024 کے انتخابات کا مرحلہ مکمل ہونے پر 4جون کو نتائج کا اعلان ہوا۔لوک سبھا کی کل 543نشستوں میں سے240نشستوں پر بی جے پی کے امیدوار کامیاب ہوئے۔آل انڈیا کانگریس جس نے پچھلے دو انتخابات میں بہت بری کارکردگی دکھاتے ہوئے بالترتیب 44اور 52 نشستیں حاصل کی تھیں،اس دفعہ پہلے کے مقابلے میں قدرے بہتر پرفارم کیا اور99نشستوں پر اس کے امیدوار کامیاب رہے۔حکومت بنانے کے لیے کم از کم سادہ اکثریت درکار ہوتی ہے۔
بی جے پی سادہ اکثریت حاصل کرنے کے لیے 272 نشستیں نہیں جیت پائی،البتہ اس کی اتحادی جماعتوں نے اچھی کارکردگی دکھائی اور 53نشستیں جیت کر جناب مودی صاحب کو تیسری بار حکومت بنانے کے قابل بنا دیا۔وہ پنڈت جواہر لال نہرو کے بعد ہندوستانی سیاست کی دوسری شخصیت ہیں جنھوں نے مسلسل تیسری بار حکومت بنائی ہے۔
کانگریس کی اپنی تو ایک کم سو نشستیں ہیں لیکن اس کی اتحادی جماعتوں نے بڑی تعداد میں 136 نشستیں جیت کر کانگریسی اتحاد کو انتہائی مضبوط اپوزیشن بنا دیا ہے۔لوک سبھا میں حکومتی اتحاد کو 293 جب کہ کانگریس لیڈ اپوزیشن اتحاد کو235 نشستیں حاصل ہیں۔دونوں اتحادوں کے نمبر میں بڑا فرق نہیں ہے۔ ہندوستان میں پارلیمانی سیاست بہت کامیاب ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ انتخابی عمل کو سب نے قبول کیا اور کسی جانب سے دھاندلی کا شور نہیں اٹھا۔
9 جون کی صبح تیسری مرتبہ حکومت بنانے والے جناب نریندر داموداس مودی پہلے گاندگی کی سمادھی اور پھر اٹل بہاری واجپائی کی سمادھی گئے۔ حلف برداری سے تھوڑی دیر پہلے جناب مودی نے 7کلیان جو کہ وزیرِ اعظم ہند کی رہائش گاہ ہے وہاں ان تمام رہنماؤں سے ملے جنھوں نے وزارت کا حلف اُٹھانا تھا۔
اسی شام ایک شاندار تقریب میں جناب نریندر مودی نے حلف اٹھایا۔ہندوستان کی صدر دروپادی مُرمو نے حلف لیا۔اس کے بعد ایک ایک کر کے تمام وزراء نے وزارت کا حلف اٹھایا۔اس تقریب میں بنگلہ دیش،بھوٹان،نیپال،سری لنکا، ماریشس اور مالدیپ کے حکمران شریک ہوئے۔ حلف برداری کی اس تقریب میں کانگریس کے موجودہ صدر اور ایوانِ بالا میں اپوزیشن لیڈر ملک کاجن شریک ہوئے البتہ اپوزیشن اتحاد کا کوئی دوسرا اہم رہنما شریک نہیں تھا۔جناب راہول گاندھی تقریب سے دور رہے۔
وزیرِ اعظم ہند جناب مودی صاحب کی کابینہ 71وزراء پر مشتمل ہے۔ان وزراء کا 85فیصد یعنی 71 میں سے60وزراء بی جے پی سے لیے گئے ہیں۔ حکومتی اتحاد میں شامل دو قدرے بڑی سیاسی جماعتوں سے دو دو وزیر اور باقی جماعتوں سے ایک ایک وزیر لیا گیا ہے۔
وزارت کا قلمدان سنبھالنے والے اہم ناموں میں لکھنو کی سیٹ سے منتخب ہونے والے اتر پردیش کے سابق وزیرِ اعلیٰ اور پچھلی کابینہ میں وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ،گاندھی نگر گجرات سے منتخب ہونے والے پچھلی کابینہ میں انتہائی طاقتور وزیرِ داخلہ امیت شا۔ناگ پور کے حلقے سے منتخب ہونے والے بی جے پی کے سابق سربراہ نتن گڈکری،راجیہ سبھا کی ممبر نرملا سیتارام،راجیہ سبھا کے ہی ایک اور ممبر پیوش گویال جو کہ مودی صاحب اور بی جے پی کی سوشل میڈیا ٹیم کو دیکھتے رہے ہیں اور راجیہ سبھا میں بی جے پی کے پارلیمانی لیڈر ہیں،ایس جے شنکر جو کہ ایک کیریئر سفارت کار ہیں اور سرکاری ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد ایک بہت بڑی کارپوریشن میں ڈائریکٹر ہو گئے۔پچھلی کابینہ میں وزیرِ خارجہ رہے۔ جے شنکر کو ہندوستانی نوجوان بہت پسند کرتے ہیں۔
مدھیا پردیش سے شیوراج چوہان جنھوں نے قابل قدر کارکردگی دکھاتے ہوئے مدھیا پردیش کی 29 کی 29 نشستیں بی جے پی کے لیے جیتیں،کرنال سے منوہر لال کھٹر اور جگت پرکاش نددا۔بی جے پی اتحادی جماعت جنتادل سیکولر کے رہنماء ایچ۔ڈی کمار سوامی جو کرناٹک کے وزیرِ اعلیٰ تھے اور اس دفعہ 19نشستیں جیتیں۔بہار سے لوک شکتی پارٹی کے چراغ پسواں اور تلگو دیشم پارٹی کے رہنماء رام منوہر نائیڈو۔جناب نائیڈو نے آندھرا پردیش سے لوک سبھا کی 16نشستیں جیت کر اپنے اتحادی جناب مودی کو وزیرِ اعظم بننے میں بہت مدد کی۔
کابینہ میں 30 کیبنٹ وزیر،5مکمل آزاد وزیرِ مملکت اور 36وزرائے مملکت ہیں۔رام منوہر نائیڈو سب سے کم عمر وزیر ہیں۔ان کی عمر صرف 38سال ہے لیکن وہ تیسری دفعہ منتخب ہوئے ہیں۔تقریب میں امبانی جیسے بڑے بڑے صنعتکار اور کئی فلمی ستارے شریک ہوئے۔حلف اٹھانے والوں میں 12نشستوں کے ساتھ جنتا دل یونائیٹڈ کے نتیش کمار نظر نہیں آئے۔
چونکہ مودی صاحب کی بی جے پی کو ایوانِ زیریں میں سادہ اکثریت حاصل نہیں اس لیے انھیں اپنے اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں کو خوش رکھنا ہو گا۔پچھلے دس سالوں میں جناب مودی صاحب کو اپنی مرضی سے حکومت کرنے کی عادت پڑ چکی ہے،اس لیے عام طور پر خیال کیا جا رہا ہے کہ اب کی بار اتحادیوں کی مرضی سے حکومت چلانا ان کے لیے بہت کٹھن ہوگا۔
یہ بات صحیح ہے کہ اتحادیوں کو خوش رکھنا اور ساتھ لے کر چلنا بہت مشکل ہوتا ہے۔حکومتی ایجنڈے میں خاطر خواہ تبدیلیاں لانی پڑتی ہیں اور اہم ایشوز پر کمپرومائز بھی کرنا پڑتا ہے لیکن جناب مودی صاحب کے اندر حالات کے مطابق ڈھل جانے کی بے پناہ صلاحیت ہے۔وہ لچک دکھانے میں جھجک محسوس نہیں کرتے۔ایوانِ زیریں میں سادہ اکثریت حاصل نہ ہونے کی وجہ سے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مودی صاحب تو جیت گئے لیکن ہندوتوا ہار گیا۔یہ ایک انتہائی سادہ ذہن کی سوچ ہے ورنہ بی جے پی تو انتہا پسندی کی ڈگر پر گامزن ہے۔
ہندوستان میں عام طور پر حکومتیں اپنی مدت پوری کرتی رہی ہیں۔ماضی میں بھی کوآلیشن حکومتیں بنیں لیکن انھوں نے مدت پوری کی،اس لیے ممکن ہے کہ جناب مودی صاحب کی یہ تیسری حکومت بھی پورے پانچ سال چل جائےBut the going may be extremely tough. پچھلے دس سالوں میں وزیرِ اعظم مودی صاحب کو قانون سازی میں بہت سہولت رہی اور بہت سے قوانین بحث و مباحثہ کے بغیر پاس ہوتے رہے۔کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا بل بھی دونوں ایوانوں سے ایسے ہی پاس ہوا۔اب جب کہ اپوزیشن اتحاد بہت مضبوط ہو چکا ہے ، قانون سازی مشکل ہو گی۔
مسلمانوں کے خلاف اقدامات بھی اتنے آسان نہیں ہوں گے۔ ہندوستان کے اندر بے روزگاری 45فیصد کو چھو رہی ہے۔انڈیا میں کساد بازاری اور مہنگائی میں اضافہ جاری ہے اور غریب اور امیر کی آمدنی میں تفاوت صدی کا سب سے بڑا تفاوت ہے۔ایسے میں جناب مودی صاحب کو بہت محنت کرکے عوام کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ہوں گی ورنہ نائیڈو اور نیش کمار کسی وقت بھی حکومت گرا سکتے ہیں۔