پاک بھارت تعلقات اُلجھی ڈور سلجھے تو کیسے
جناب شہباز شریف کی جانب سے مودی جی کو بھیجے گئے نیک تمناؤں کا جواب مثبت آیا ہے
نریندرمودی تیسری بار بھارت کے وزیر اعظم منتخب ہُوئے ہیں تو پاکستان کے وزیر اعظم جناب شہباز شریف اور مسلم لیگ نون کے صدر جناب نواز شریف نے اُنہیں مبارکباد اور تہنیت کے پیغامات بھیجے ہیں ۔ایک اچھے اور امن پسند ہمسائے کی حیثیت میں پاکستان کی اہم ترین شخصیات کو ایسے ہی پیغامات ارسال کرنے چاہئیں تھے ۔ حیرانی کی بات مگر یہ ہے کہ مودی صاحب نے اپنی بھاری بھر کم تقریبِ حلف برداری میں جہاں بنگلہ دیش، مالدیپ اور سری لنکا ایسے ہمسایہ ممالک کے وزرائے اعظم کو مدعو کیا، وہاں پاکستان کو دانستہ نظر انداز کیا۔
آیا مودی جی کو یقینِ کامل تھا کہ اگر وزیر اعظم شہباز شریف یا نواز شریف کو اپنی تقریب میں مدعو کیا تو دونوں نہیں آئیں گے ؟ ایک عشرہ قبل مودی جی پہلی بار وزیر اعظم منتخب ہُوئے تو اُانھوںں نے جناب نواز شریف کو تقریبِ حلف برداری میں مدعو کیا تھا ۔ مبینہ طور پر اسٹیبلشمنٹ نے ایڈوائس دی تھی کہ آپ کا بھارت جانا مناسب نہیں ہے ۔ نواز شریف صاحب مگر بہتر توقعات کے تحت مودی کی تقریبِ حلف برداری میں شریک ہُوئے۔
بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے مگر بڑے میاں صاحب کی توقعات کو ٹھیس پہنچائی ۔ یوں کہ نواز شریف ابھی نئی دہلی ہی میں تھے کہ مودی جی کے اشارے پر ایک اہم ترین بھارتی عہدیدار نے میڈیا کو ایسا دلشکن بیان جاری کر دیا کہ جناب نواز شریف کی توقعات کا آئینہ کرچی کرچی ہو گیا ۔ بھارت بھی شریف برادران کے جذبات سے آگاہ ہو چکا تھا۔ اِس پس منظر میں جناب شہباز شریف کو دعوت دی جاتی تو وہ بھارت جانے سے گریز ہی کرتے ۔کسی سبکی سے بچنے کے لیے، شائد، اِنہی خدشات کے تحت پاکستان کے وزیر اعظم کو مدعو ہی نہیں کیا گیا ۔
جناب شہباز شریف کی جانب سے مودی جی کو بھیجے گئے نیک تمناؤں کا جواب مثبت آیا ہے، اگرچہ جواب انتہائی مختصر ہے ۔ نون لیگی صدر اور سابق وزیر اعظم ، جناب نواز شریف، نے مودی جی کو دیے گئے تہنیتی پیغام میں دعوت دی ہے کہ ''آئیں ، نفرت کو اُمید سے بدلیں۔''پچھلے پانچ برسوں سے پاکستان اور بھارت میں سفارتی اور تجارتی تعلقات مکمل طور پر منقطع ہیں ۔
دو انتہائی قریبی ہمسایوں میں مکالمے کا انقطاع افسوس ہی کہا جا سکتا ہے ۔ بھارت غروروتکبر کے جس کوہ ہمالیہ پر کھڑا ہے، اس پیش منظر میں اُس سے کم کم توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ خود آگے بڑھ کر پاکستان سے مصافحہ اور معانقہ کی کوئی کوشش کرے گا۔
اِس تناؤ اور کھچاؤ کے تناظر میں نواز شریف کا پیغام صلح اور امن کے بہترین مواقع کے راستے کھولنے کی سبیل پیدا کر سکتا ہے ۔ مودی جی کے تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہونے پر پاکستان کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان، ممتاز زہرہ بلوچ، نے ہفتہ وار بریفنگ میں جو الفاظ ادا کیے ہیں ، ان سے بھی عیاں ہوتا ہے کہ پاکستان اُن گتھیوں کو سلجھانا چاہتا ہے جو بدقسمتی سے پاک بھارت تعلقات میں بوجوہ پیدا ہو چکی ہیں ۔
جب تک میاں محمد نواز شریف لندن میں تھے ، اُن کا قوی خیال یہی تھا کہ بھارت سے نارملائزیشن ہونی چاہیے ۔ نواز شریف نے اپنے پچھلے دَورِ اقتدار میں بھارت سے بہتر تعلقات استوار کرنے کی اپنی سی کئی شاندار کوششیں بھی کیں ۔ اِس کے لیے اپنے سیاسی مخالفین کے طعنے مہنے بھی برداشت کیے ۔ یہ نواز شریف کی جادوئی شخصیت کا کرشمہ ہی تھا کہ بھارتی وزیر اعظم ، نریندر مودی، نواز شریف کی ایک گھریلو تقریب میں شرکت کرنے پاکستان( جاتی عمرہ) پہنچ گئے تھے۔
اِس کے لیے بھی نواز شریف نے کئی حریفوں اور مخالفین کی تنقید برداشت کی ۔ واجپائی بھی تو نواز شریف ہی کے دَور میں پاکستان آئے تھے ۔ کہا جاتا ہے کہ بھارت سے اچھے اورپُرامن تعلقات بنانے کی نواز شریف کی یہی کوشش اور خواہش تھی جس نے ماضی قریب میں طاقتوروں سے اُن کی دُوریاں پیدا کیں ۔نواز شریف نے اب بہت سے تلخ تجربات کے بعد یہ پایا اور سیکھا ہے کہ بھارت کی طرف نارملائزیشن کا ہاتھ بڑھانے سے قبل یہ جاننا بھی بے حد ضروری ہے کہ ہماری مقتدرہ کی اِس ضمن میں سوچ کیا ہے؟
نواز شریف یہ بھی جان چکے ہیں کہ خاص طور پر یہ مودی کا بھارت اور متعصب انڈین اسٹیبلشمنٹ ہے جو پاک بھارت تعلقات کی ڈور اُلجھانے کی دانستہ کوششیں کرتی رہتی ہے؛ چنانچہ اِس بار شریف برادران بھارت کا نام لیتے ہُوئے اور بھارت سے تعلقات استوار کرنے کے حوالے سے خاصے محتاط ہیں ۔مثال کے طور پر8فروری 2024ء کے عام انتخابات سے قبل نون لیگ نے اپنا جو انتخابی منشور قوم کے سامنے پیش کیا، اس میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ ( اگرنون لیگ اقتدارمیں آئی تو) بھارت سے اِسی صورت میں تعلقات بہتر بنائے جا سکیں گے اگر بھارت مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے فیصلے کو ریورس کر دے۔
جنوری2024ء کے تیسرے ہفتے اسلام آباد میں چیف آف آرمی اسٹاف، جنرل عاصم منیر نے اپنے اس خطاب میں کہاتھا کہ ''بھارت نے پاکستان کے Conceptکو Reconcile نہیں کیا ہے تو ہم بھارت سے کیسے Reconcile کر سکتے ہیں۔'' اہم حلقوں کا کہنا ہے کہ پاک آرمی کے سربراہ نے اپنے اِس خطاب میں دراصل پاک بھارت تعلقات کے خدوخال کی بنیاد بھی رکھ دی ہے۔ افغانستان و ایران کے ساتھ بھارت کو بھی پیغام دے دیا ۔ اِسی پیغام کی رُوح کو نواز شریف اور شہباز شریف نے بھی خوب سمجھا اور یوں اپنے منشور میں پاک بھارت تعلقات کی بہتری کو مسئلہ کشمیر کے حل سے منسلک کر دیا ۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا پاک بھارت تعلقات کی ڈور یونہی اُلجھی رہے گی ؟
پاکستان میں کئی اطراف سے آوازیں تو اُٹھ رہی ہیں کہ شہباز شریف کے اِس دوسرے دَور میں پاک بھارت تعلقات بحال ہونے چاہئیں ۔اِسی ضمن میں ڈھائی ماہ قبل اُمید کی ایک نئی کرن پھوٹی تھی۔23مارچ2024ء کو لندن میں وزیر خارجہ، اسحاق ڈار،نے پاکستانی ہائی کمشنر، ڈاکٹر فیصل، کے ہمراہ ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہُوئے کہا تھا:''پاکستان کے تاجر چاہتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ تجارت بحال ہو۔
حکومت اِس کا جائزہ لے گی۔'' جناب اسحاق ڈار نے 18اپریل2024ء کو ایک بار پھر ، اِسی ضمن میں، کہا:''بھارت کے ساتھ تجارتی روابط کی بحالی پر اتفاقِ رائے پیدا کرنے کے لیے تاجر برادری سے رابطے شروع کر دیے ہیں۔دیگر اسٹیک ہولڈروں کے ساتھ بھی مشاورتی عمل شروع ہوگا۔ ہمارے تاجروں کا کہنا ہے کہ وہ بھارتی سامانِ تجارت تیسرے ملک سے درآمد کر رہے ہیںجو خاصا مہنگا پڑ رہا ہے،اسی لیے بھارت کے ساتھ براہِ راست تجارت بحال کرنے کی حمایت کی ہے ۔'' اِسی کے ساتھ ہی محترمہ مریم نواز کا بیان بھی سامنے آیا۔ انھوں نے 18اپریل کو نارووال میں کرتار پورکے دَورے میں کہا:''نواز شریف کہتے ہیں ہمسائے سے لڑائی نہیں کرنی، دلوں کے دروازے کھولنے ہیں۔''
پاک بھارت اُلجھے تعلقات کو سلجھانے کے لیے اسحاق ڈار اور محترمہ مریم نواز شریف کے بیانات حوصلہ افزا ہیں۔ نون لیگ کے سربراہ کے خیالات بھی مستحسن ہیں ۔بھارت سے تعلقات کی اُلجھی ڈور سلجھانے کے خواہشمندوں کو مگر برطانوی اخبار ''گارڈین'' کی 4اپریل2024ء کی وہ تہلکہ خیز رپورٹ بھی ، بہرحال، پیشِ نگاہ رکھنا ہوگی جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ یہ بھارت ہے جس نے پچھلے سال 20پاکستانیوں کا بہیمانہ قتل کروایا تھا ۔