الیکشن ٹریبونلز کا تنازع
آئین میں دیے گئے اختیارات کو استعمال کرنے کے لیے قوانین بنائے جاتے ہیں۔
انتخابات کے بعد الیکشن کمیشن اور عدلیہ کے درمیان الیکشن ٹربیونلز کے قیام اور ان میں تعیناتیوں کے اختیار کے حوالے سے تنازعہ سامنے آرہا ہے۔ یہ ایک دلچسپ ایشو ہے۔ سیاسی بیانیوں کو ایک طرف رکھ کر آئین اور قانون کے تناظر میں دیکھا جائے تو بات بہتر انداز میں کی جا سکتی ہے۔ الیکشن ٹربیونل کے حوالے سے زیادہ تنازعہ پنجاب میں الیکشن کمیشن اور لاہور ہائی کورٹ کے درمیان دیکھنے میں آرہا ہے۔
جہاں ایک طرف محترم چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سخت موقف کے ساتھ کھڑے نظرآ رہے ہیں اور دوسری طرف الیکشن کمیشن بھی اپنی پوزیشن پر کھڑا نظر آ رہا ہے۔الیکشن کمیشن کا موقف ہے کہ آئین نے جو اختیارات انھیں دیے ہیں وہ وہی استعمال کرے گا' کسی اور کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
ویسے آئین کے آرٹیکل 219میں واضح لکھا ہوا ہے کہ انتخابات کے بعد انتخابی عذرداریوں کے لیے الیکشن ٹربیونل بنانے کا اختیار الیکشن کمیشن کا ہوگا۔ اگر ہم آئین کا آرٹیکل 219پڑھیں تو اس میں بظاہر کوئی ابہام نہیں ہے۔ اس آرٹیکل کے مطابق تو الیکشن ٹربیونل بنانے کا اختیار الیکشن کمیشن کا ہے۔
آئین میں دیے گئے اختیارات کو استعمال کرنے کے لیے قوانین بنائے جاتے ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک مسلمہ اصول ہے کہ قوانین آئین سے متصادم نہیں بنائے جا سکتے۔اگر کوئی اختیار آئین نے کسی کو دیا ہے تو آئینی ترمیم کے بغیر یہ اختیار اس سے واپس نہیں لیا جا سکتا۔ قوانین کو آئین کے تابع رکھا گیا ہے۔ اب الیکشن ایکٹ میں الیکشن ٹربیونل بنانے کے طریقہ کار کی مزید وضاحت کی گئی ہے۔
الیکشن ایکٹ کے آرٹیکل 140 میں واضح کیا گیا ہے کہ تمام الیکشن ٹربیونل بنانے کا اختیار الیکشن کمیشن کا ہوگا۔ الیکشن کمیشن ہائی کورٹ کے کسی سرونگ جج کو الیکشن ٹربیونل میں تعینات کرے گا اور متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے مشاورت کا کہا گیا۔ لیکن تعیناتی کا اختیار الیکشن کمیشن کو ہی دیا گیا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ اگر ہائی کورٹ کا حاضر سروس جج الیکشن ٹربیونل میں تعینات کیا جائے گا تو اس تعیناتی کا اختیار چیف جسٹس ہائی کورٹ کے پاس ہوگا۔ آئین میں مشاورت کا کہا گیا ہے' یہ بھی نہیں لکھا گیا کہ مشاورت میں اتفاق رائے ضروری ہے۔آخری اختیار الیکشن کمیشن کو ہی دیا گیا ہے۔ کیونکہ آئین میں آخری اختیار الیکشن کمیشن کو دیا گیا ہے۔ اسی لیے الیکشن ایکٹ بھی آئین کے مطابق ہی بنایا گیا ہے۔ یہاں ریٹائرڈ ججز کو بھی لگانے کا اختیار الیکشن کمیشن کو دیا گیا ہے۔ آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ ریٹائرڈ جج الیکشن ٹربیونل میں نہیں لگائے جا سکتے۔ اس لیے الیکشن ایکٹ میں اس کی اجازت دی گئی ہے۔
سب سے پہلے مسئلہ لاہور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کے درمیان شروع ہوا۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے راولپنڈی اور بہاولپور کے ٹربیونلز کے لیے ایک ایک نام بھیجا۔ جب کہ دوسری طرف کا موقف ہے کہ روایت یہی ہے کہ چیف جسٹس صاحبان تین تین نام بھیجتے ہیں اور الیکشن کمیشن ان میں ایک نام چن لیتا ہے۔ اس طرح مشاورت کا عمل بھی مکمل ہو جاتا ہے اور تعیناتی بھی ہو جاتی ہے۔
سب چیف جسٹس صاحبان ایسے ہی کرتے آ رہے ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ نے بھی پرنسپل سیٹ کے لیے ایسا ہی کیا۔ لیکن راولپنڈی اور بہاولپور کے لیے ایسا نہیں کیا گیا۔ الیکشن کمیشن نے ایک ایک نام پر نوٹیفائی کرنے سے انکار کرتے ہوئے موقف لیا کہ یہ مشاورت نہیں ڈکٹیشن ہے۔ صرف ایک نام بھیجا جائے اور اسی نام کو تعینات کر دیا جائے' ایسے الیکشن کمیشن کا اختیار تو ختم ہوگیا۔ یہ نظیر بن گئی تو آیندہ سب چیف جسٹس صاحبان یہی کریں گے اور عملی طورپر الیکشن کمیشن کا کردار ہی ختم ہو جائے گا۔
جب معاملات ڈیڈ لاک کی طرف بڑھ گئے اور الیکشن کمیشن نے اپنے طور ٹربیونل بنا دیے تو لاہور ہائی کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی گئی جس میں لاہور ہائی کورٹ سے الیکشن ٹربیونل بنانے کی استدعا کی گئی تھی۔ اس رٹ پٹیشن پر محترم جسٹس شاہد کریم نے حکم دے دیا کہ لاہور ہائی کورٹ خود ہی الیکشن ٹربیونل کو نوٹیفائی کر دے' اس ضمن میں الیکشن کمیشن کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
اس کے بعد لاہور ہائی کورٹ کے رجسٹرار نے اس رٹ پٹیشن کے فیصلے کی روشنی میں پنجاب میں نئے آٹھ الیکشن ٹربیونل نوٹیفائی کر دیے ہیں۔ جب کہ الیکشن کمیشن نے اپنے طور الیکشن ٹربیونل نوٹیفائی کیے.
اس طرح پنجاب میں اب دو طرح کے الیکشن ٹربیونل موجود ہیں۔ ایک وہ جو الیکشن کمیشن نے بنائے ہیں اور ایک وہ جو رجسٹرار لاہور ہائی کورٹ نے ایک رٹ پٹیشن کے فیصلے کی روشنی میں بنائے ہیں۔ رجسٹرار لاہور ہائی کورٹ نے اپنے نوٹیفکیشن میں لکھا ہے کہ یہ ٹربیونل رٹ پٹیشن کے فیصلے کی روشنی میں بنائے جا رہے ہیں۔ انھوں نے کسی آئینی شق یا قانون کا سہارا نہیں لیا ہے۔
اب جب پنجاب میں دو ٹربیونل موجود ہیں تو کونسے قانونی ہیں اور کونسے غیر قانونی' یہ فیصلہ بھی کرنا ہوگا۔ کس کا نوٹیفکیشن قانونی ہے اور کس کا نوٹیفکیشن غیر قانونی ہے؟ کس نے آئین کی خلاف ورزی کی ہے اور کس نے نہیں کی ہے؟ کیا جو اختیار آئین و قانون نے آپ کو نہ دیا ہو آپ وہ اختیار کسی رٹ پٹیشن کے فیصلے سے حاصل کر سکتے ہیں۔ کیا رٹ پٹیشن کا فیصلہ آئین وقانون سے ماورا بھی ہوسکتا ہے؟ یہ سب قانونی نقاط اب زیر بحث ہیں۔ اور سب ہی ان کا جواب جاننا جانتے ہیں۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ عدلیہ کا ایک طرف موقف ہے کہ اس کے کام میں مداخلت کی جا رہی ہے۔ لیکن دوسری طرف کا بھی ایک موقف ہے کہ کئی معاملات میں عدلیہ بھی اپنی حدود سے تجاوز کر رہی ہے۔ یہ سوال اہم ہے کہ عدلیہ کا آئینی حدود میں رہنا بھی آئین کا ہی ایک تقاضہ ہے۔ اس رٹ پٹیشن کا فیصلہ آچکا ہے۔ ہم فیصلوں پر رائے دے سکتے ہیں اور فیصلوں پر تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اس لیے میں اس رٹ پٹیشن کے فیصلے کو آئین وقانون کے ترازو میں رکھ کر رائے دے سکتا ہوں۔ عدلیہ کو اس بات کا احساس کرنا چاہیے کہ رٹ پٹیشن سے کوئی ایسے آئینی وقانونی اختیار حاصل نہیں کیے جا سکتے جو آئین وقانون نے آپ کو نہیں دیے۔
ویسے تو الیکشن کمیشن کے فیصلوں کے خلاف اپیل سپریم کورٹ میں دائر ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ بھی ایک نظیر بن گئی ہے کہ ہائی کورٹس رٹ پٹیشن کے ذریعے الیکشن کمیشن کے فیصلوں کے خلاف اپیل سننے لگ گئی ہیں۔ یوں رٹ اور اپیل کا فرق ہی ختم ہو گیا ہے۔ اس کو بھی جیوڈیشل ایکٹوازم کہتے ہیں۔ ہمارے ملک کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے۔