تاریخ کیا کہتی ہے

تاریخ کی کتابوں میں بھی جو اصل میں ہوتا ہے وہ کم ہوتا اورجو نہیں ہوتا وہ بہت زیادہ ہوتا ہے


Saad Ulllah Jaan Baraq June 15, 2024
[email protected]

زندگی میں تو ایسا ہے ہی کہ جو دکھتا ہے وہ ہوتا نہیںاورجوہوتاہے وہ دکھتا نہیں اورخاص طورپر تو سیاست میں اوراس سے بھی زیادہ خاص الخاص طورپر پاکستانی سیاست میں۔

حکومت میں اورمیڈیا میں تو بہت زیادہ جو ہوتا ہے وہ دکھتا نہیں اورجو دکھتا ہے وہ ہوتا نہیں بلکہ بات کو مزید عام فہم بنائیے تو جو ''دکھایا''جاتاہے وہ ہرگز نہیں ہوتا اورہوتا وہی ہے جو کبھی اورہرگز ہرگزدکھایا نہیں جاتا، اسے اردو محاورے میں ''دایاں'' دکھاکر ''بایاں'' کہتے ہیں ، پڑوسی ملک کی ایک دانا دانشورہ آشابھوسلے کا قول زریں ہے کہ

رخ میری جانب نگاہ لطف دشمن کی طرف

وہ ''ادھر'' دیکھا کیے گویا ''ادھر'' دیکھا کیے

تاریخ کی کتابوں میں بھی جو اصل میں ہوتا ہے وہ کم ہوتا اورجو نہیں ہوتا وہ بہت زیادہ ہوتا ہے اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ تاریخ میں صرف ''نام'' حقیقی ہوتے ہیں واقعات جھوٹے بلکہ افسانے میں سب سچ ہوتا ہے صرف نام فرضی ہوتے ہیں ۔

مثال کے طور پر بدنام زمانہ ''تموجن'' (تموزن، تمازن)عرف چنگیز خان کو لیے لیجیے ، بے چارے کو اتنا زیادہ بدنام کیاگیا ہے کہ اس کی خوبیاں بھی مٹی پا کردی گئیں۔ سب سے بڑی حقیقت جو چھپائی گئی ہے یہ ہے کہ ''تموجن'' چنگیز خان کیوں بنا تھا وہ بنا نہیں تھا بلکہ بنایا گیا تھا ۔ بات کو زیادہ پھیلائے بغیر پہلے تو یہ بتاناضروری ہے کہ منگولوں کاخروج ایک باقاعدہ انتظام کانتیجہ تھا۔

جب کرہ ارض کا زیادہ ترحصہ زیرآب اوررہائش کے لیے موزوں نہیں تھا تو اس عظیم انجینئر نے باقاعدہ ایک انتظام کے تحت حیوانوں اورانسانوں کی ''نرسری'' اس پہاڑی کیاری میں اگائی جو برما سے ایران تک پھیلا ہوا ہے اورجس میں انسانوں کی تین بڑی نسلوں میں سے دو بڑی نسلیں پیدا ہوئی ہیں، پلی بڑھی اورپھر پھیلی ہیں یعنی ان دو (زرد اورسفید) نسلوں کی پیدائش رہائش اورافزائش اسی پہاڑی نرسری یا ہچری میں ہوئی ہے۔

جس طرح کسان جب کھیت تیار اورموسم سازگار نہیں ہوتا تو کسی محفوظ مقام پر نرسری اگاتا ہے اورجب کھیت تیار اورموسم سازگار ہوجاتاہے تو اس کیاری سے نرسری یا پودے اکھاڑ کرکھیت میں پھیلا دیتاہے۔کھیت تیارکرنے اورموسم سازگار بنانے کا مکمل پورا اوربے عیب انتظام بھی اس عظیم کاشت کار نے کررکھا تھا۔

پہلے لاکھوں سال برف کا دورجسے طبیعات والے آئس ایج کہتے ہیں، چلا اور ان پہاڑوں پر کروڑوں بلکہ اربوں ٹن برف جمتی رہی۔ ایک طرح سے برف کا ڈیم بھرتا رہا پھر یہ پہاڑی سلسلہ اونچے ہوتے ہوتے اس مقام پر پہنچا کہ اس کی باغ وبہار اورجنت زارچوٹیاں، برفستانوں میں بدل کر بنجر ہوگئیں اوراس دیوار کے پیچھے وسطی ایشیا کے جنگل اور چراگاہیں ، بارش اورنم سمندری ہواؤں سے محروم ہوکر ریگستانوں میں بدلتی چلی گئیں اس دوران میں آئس ایج کے ختم ہونے پر گلوبل وارمنگ کاسلسلہ چلا تو سیلابی اوربارانی دورشروع ہوگیا، طبیعات ارضیات اورآثاریات کے مطابق برفانی دوردس بارہ ہزار سال پہلے ختم ہوگیا تھا جس کے بعد ڈیڑھ دو ہزارسال پر مشتمل اس سیلابی دورکاآغاز ہوگیا جس کی کہانی سفید کاکیشن نسل کی پانچ اقوام کی اساطیر میں درج ہے۔

طوفان اورکشتی کی یہ کہانی دجلہ وفرات کی اساطیر میں داستان گلگامش کاحصہ ہے اور سیلاب کے ہیرو کا نام خزی سائر یااتناپشیتم ہے ، ہندی اساطیر میں اسے منومہاراج کاسیلاب کہا گیا ہے ، بنی اسرائیل اوردوسرے سامی مذاہب میں اس کا نام طوفان نوح ہے، یونانی اسطورہ میں کشتی کے بجائے لکڑی کاصندوق ہے جب دیوتاؤں نے انسانی نسل کو تباہ کرنے کے لیے سیلاب بھیجا تو انسان دوست ٹیٹان پرو متھس نے ایک لکڑی کے صندوق میں اپنے بیٹے ڈیو کلین اوربھتیجی پیرہ کو جو مشہور صندوق والی پینڈورا اوراپی میھتسیس کی بیٹی تھی بٹھایا۔یوں سیلاب سے بچ جانے والے موجودہ انسانی نسل کے اجداد ثانی بنے، ایرانی اسطورہ میں پانی کے بجائے برف کاطوفان ہے ۔

یہ سیلابی دوربھی دراصل ایک انتظام تھا لاکھوں سالوں میں جمع ہونے والی برف نے کیرئیر کاکام شروع کیا اورپہاڑوں اوربلندیوں سے بے پناہ ملبے بہا کر نیچے پانیوں میں پہنچائے اورپھیلائے تو موجودہ میدانی اورہموار زمینیں ابھر آئیں ، سیلابوں نے نالے ندیاں اوردریا بھی بنائے اورزیادہ تر پانی سمندروں میں سمٹ گیا ، یایوں کہیے کہ ''کھیت'' تیار ہوگیا، موسم بھی سازگار بنایا جاچکاتھا اورپھر اس پہاڑی کیاری سے نرسری پھیلائی جانے لگی، ان خروجوں یلغاروں اورنقل مکانیوں کی شکل میں جوتاریخ طبیعات ارضیات بشریات اورآثاریات کی کتابوں میں ریکارڈ ہیں۔

فلپ ختی نے ایسی پانچ یلغاروں کاذکر اپنی کتاب ''تاریخ شام'' ( اردو ترجمہ غلام رسول مہر) میں کیاہے ، اس نے میکس مولر ، ہٹنگٹن ، میتھوآرنلڈ وغیرہ علما کے حوالے سے لکھا ہے کہ وسطی ایشیا کی اس سرزمین کو ''جوف الارض'' یا رحم مادر کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا ۔ جس طرح ماں کی کوکھ میں ایک بچہ ایک مخصوص مدت تک خاموشی سے پلتا رہتاہے اورپھر جب ماں کی کوکھ میں خوراک اس کے لیے ناکافی ہوجاتی ہے تو باہرنکل آتا ہے ۔

ٹھیک اسی طرح وسطی ایشیا کی سرزمین میں انسانی خروج کابچہ ایک ایک ہزارسال (میلینم) میں پلتا، اورباہرنکلتا رہا ہے اس نے ایسی پانچ یلغاروں کاذکر کیاہے ، سومیری ، سیتھین ، یوچی ، ساکا ہن وغیرہ۔ آخری اورپانچویں یلغار اس نے چنگیزی مغلوں کی قرار دی ہے جس کو اتنی ہی مدت ہوچکی ہے جتنی ایک اورخروج کے لیے درکار ہوتی ہے لیکن اس نے یہ نہیں بتایا کہ چھٹی یلغار چینوں کی شکل میں شروع ہوچکی ہے۔ کیوں کہ تاریخ شام لکھنے کے وقت ابھی اس چھٹی یلغار کے آثار یاخدوخال ظاہرنہیں ہوئے تھے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں