بجٹ کے بعد
جمہوریت اب اس ملک میں مستقل ہے کہ پھر کوئی آر ٹی ایس نہ بیٹھ جائے
قرضوں تلے دبا ہوا یہ ملک اس موڑ پر آپہنچا ہے کہ جہاں یہ اب معاشی طور پر آزاد نہیں ہے، اب یہاں جو بھی کرنا ہے، آئی ایم ایف کی ہدایات پر کرنا ہے۔جب ایک ریاست Sovereign یعنی خود مختار حیثیت میںقرضہ لیتی ہے وہ ایک الگ پہلوہے مگر جب ریاست قرضہ لیتے لیتے اس انتہا یا پھر حد کو چھو لیتی ہے جہاں قرضہ دینے والوں کو یہ محسوس ہونے لگے کہ یہ ریاست اب ایک رسک ہے تو قرض دینے والے محتاط ہونے لگتے ہیں۔
کس نے کہا ہے کہ مارکیٹ اکانومی انسان دوست ہوتی ہے؟ یہ مارکیٹ اکانومی بلکہ مارکیٹ فورسز کی حکمرانی ہے یعنی وہ طاقتیں جو مارکیٹ کا تعین کرتی ہیں۔ تفویض،اجر، سزا و جزا خود مارکیٹ طے کرتی ہے۔ نظریاتی ریاستیں تعیش (لگژری) ترک کر سکتی ہیں، وہ مارکیٹ فورسز کو بھی کنٹرول کر سکتی ہیں۔مگر یہ کام ہم جیسی ریاستیں نہیں کر سکتی۔
مارکیٹ اکانومی کا دوسرا پہلو ہے آ ئین اور جمہوریت۔جس نے تمام سوشلسٹ طاقتوں کو اس لیے شکست د ی کیونکہ سوشلسٹ ریاستیں جمہوری نہیں تھیں، ان کے پاس پارلیمنٹ نہیں تھی، ان کے آّئین میں انسانی حقوق کی شقیں نہیں تھیں،وہ اشتراکیت کے سوا کچھ نہ تھیں۔ دیکھا جائے تو ہمارے ہاں آمریت نظریاتی رہی ہے اور ہماری اشرافیہ اس کا عکس ہے۔اس ملک میں اگر آمریت کا راج نہ ہوتا،تو شاید پبلک سیکٹر کی کارکردگی کبھی اتنی بری نہ ہوتی مگر اب یہ وجہ تشویش بنتی جا رہی ہے کیونکہ ریاست کو حکومت minimizeکرتی ہے۔سفید ہاتھی پالے نہیں جا سکتے۔
کل تک میاں صاحب کا یہ نعرہ تھا کہ قرض اتارو ملک سنوارو۔پھر انھوں نے یہ نعرہ دیا کہ قرضہ لو یعنی سی پیک میں شامل ہوں اور ملک سنوارو۔ میاں صاحب اور بے نظیر صاحبہ نے اپنے اپنے دور حکومت میںایسی بیرونی سرمایہ کاری اور تھرمل پاور کے معاہدے کیے کہ بجائے لینے کے دینے پڑگئے۔ہماری بجلی پیدا کرنیکی صلاحیت چوالیس ہزار میگا واٹ ہے اور بجلی پیدا ہوتی ہے چوبیس ہزار میگا واٹ جو بجلی نیشنل گرڈ پر چڑھ نہیں پاتی اس کی قیمت صارفین سے وصول کی جاتی ہے۔گردشتی قرضہ تین ہزار ارب ہے لیکن اس مد میں70% حصہ عوام سے لیا جاتا ہے۔ہندوستان میں بجلی پچیس روپے فی یونٹ ہے اور پاکستان میں بجلی فی یونٹ ساٹھ روپے سے بھی زائد ہے۔
اس بات کی پشیمانی نہیں کہ ہم نے بیرونی قرضے لیے بلکہ افسوس اس بات ہے کا ہے کہ ہم نے بے ترتیب اور فضول قرضے بھی لیے،جن سے ہماری شرح نمو میں اضافہ نہیں ہوا۔بلکہ وہ قرضہ جات ایسے منصوبوں میں سرف کیے گئے جو تمام نہ ہوسکے اور مزید قرضوں کا بوجھ ہم پر بڑھتا چلا گیا۔اس ملک پر اب 64000 ارب کے اندرونی اور بیرونی قرضہ جات کا بوجھ ہے جو ہماری مجموعی پیداوار کا 65% ہے۔
یہ تمام قرضہ جات عوام پر اضافی بوجھ ہیں جو ان کو اتارنے ہیں۔اس حوالے سے اب ٹیکسز لاگو کیے جائیں گے۔ایسی کمزور معیشت جو ٹیکسز کا اتنا بڑا ہدف برداشت نہیں کرسکتی تو آخرکار یہ اضافی ٹیکسز افراط زر کی شکل اختیار کریں گے ۔ اب اس غربت ، ٹیکسزکے بوجھ اور افراط زر کو جھیلیں گے غریب عوام جنھوں نے یہ قرضے نہیں لیے تھے۔
جب ہماری معیشت کمزور ستونوں پر تھی تو یہاں افغان ٹریڈ کے نام پر کسٹم ڈیوٹی چرانے کا کاروبار شروع ہوا۔اسی طرح کے حربے اس کمزور معیشت کو مزید کمزور بنانے کے لیے اپنائے گئے۔ذخیرہ اندوزی Hoarding) ( کا کام شروع کیا گیا۔اشیائے خورونوش کی ذخیرہ اندازی کی جاتی تھی اور یہ تمام کام ان زمانوں میں شروع کیے گئے جب شرح سود چار فیصد سے کم تھا، شرح سود کا زیادہ سستا ہونا بھی باعث تشویش ہے۔ جنرل ضیاء نےLMM کے نام پر تین فیصد شرح سود پر قرضہ دیا۔یہ سستا قرضہ بھی ذخیرہ اندوزی میں استعمال کیا گیا۔ اب جس چیز کو بنانے میں پاکستان خود کفیل تھا ان اشیاء کو بھی اسمگلنگ سے خطرہ تھا۔
کالے دھن Black Money) (کو چھپانے کے لیے پراپرٹی کے کاروبار میں سرمایہ کاری کی گئی۔ کاغذوں میں ایک قیمت تحریر کی جاتی اور فروخت میں دوسری قیمت۔یہ تمام کام غیر دستاویزی (Non-Documented) انداز میں ہوئے۔ اس پر کسی کو اعتراض صرف اخلاقی اصولوں پر تو رہا لیکن قانونی چارہ جوئی نہیں ہوسکتی تھی کیونکہ قانون اس کی اجازت دیتا تھا اور ایسا تاحال ہورہا ہے۔
چلیں اس بجٹ میں کم از کم اتنا تو ہوا کہ ہم Solvent) ( ہیں،ہم ڈیفالٹ کے بھنور سے تو نکلے۔اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ کیا کوئی اس بات کی گارنٹی دے سکتا ہے کہ جمہوریت اب اس ملک میں مستقل ہے کہ پھر کوئی آر ٹی ایس نہ بیٹھ جائے اور پھر کوئی فیض آباد دھرنا نہ ہو۔بہت ہیں منزلیں پار کرنے کو۔ پاکستان کو کوئی فرد واحد نہیں ،ادارے بچا سکتے ہیں۔ اور ضرورت ہے کہ اداروں کے مضبوط کیا جائے۔اداروں کے احتسابی نظام کو مضبوط کیا جائے،تاکہ اب کوئی جنرل ایوب خان نہ آسکے اور عدالتوں میں جسٹس منیر۔