گلو بٹ صاحب اور ہم
آج کل پاکستان میں جس کی سب سے زیادہ کھپت اور ڈیمانڈ ہے وہ گلو بٹ کی ہی ہے۔
آپ اسے جس نام سے چاہیں پکاریں یہ آپ کی مرضی ہے آپ اسے گلو بٹ کہہ لیں یا کریم داد یا بخشل یا حضور بخش یا غفار کہہ لیں نام اس کا کچھ بھی رکھ لیں لیکن کام اس کا صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے صاحب کی خدمت گزاری اور نمک حلالی۔
گلو بٹ صرف ایک شخصیت کا نام نہیں بلکہ ایک کردار کا نام ہے اور یہ کردار صدیوں سے اسی طرح جوں کا توں چلا آ رہا ہے صرف نام بدلتے رہے لیکن کردار ایک ہی رہا جس وقت دنیا میں بادشاہت قائم تھی اس وقت بھی کوئی نہ کوئی گلو بٹ ہر بادشاہ کے آس پا س موجود ہوتا تھا اور دربار میں اسی کا راج چلتا تھا اور جب بادشاہت کا خاتمہ ہوا اور اس کی جگہ آمریت نے لی تو گلو بٹ ہر آمر کے دائیں بائیں موجود پایا گیا اور پھر دنیا سے جب آمریت کا خاتمہ ہو گیا اور جمہوریت کا راج قائم ہوگیا تو پھر گلو بٹ بے روزگار ہو گیا اور اب دنیا بھر میں گلو بٹ مارا مارا پھرتا ہے لیکن دوسری طرف پاکستان میں آج بھی گلو بٹ بر سر روزگار ہے بلکہ روز بروز اس کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔
آج کل پاکستان میں جس کی سب سے زیادہ کھپت اور ڈیمانڈ ہے وہ گلو بٹ کی ہی ہے۔ ہر اعلیٰ سے اعلیٰ عہدے دار ہر وزیر ہر مشیر اور ہر امیر و کبیر کا اپنا اپنا گلو بٹ ہوتا ہے آپ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ آپ چاہیں تو گلو بٹ سے کتنی ہی نفرت کیوں نہ کر لیں اسے کتنی ہی گالیاں اور برا بھلا کیوں نہ کہہ لیں لیکن اس سے نہ تو گلو بٹ پر کوئی اثر پڑے گا اور نہ ہی گلو بٹ کے صاحب کی گلوبٹ کے لیے رائے تبدیل ہو گی اور نہ ہی اس سے محبت کم ہو گی بلکہ آپ کی ان نامعقو ل حرکات کی وجہ سے گلو بٹ کے صاحب کی محبت میں اور اضافہ ہوتا جائے گا کیو نکہ ایک تو گلو بٹ کے صاحب کو یہ احسا س اور شدید تر ہو جائے گا کہ گلو بٹ اس سے کتنا وفادار ہے اور دوسرے یہ کہ گلوبٹ کی اس کے لیے وفاداری کس طرح لوگوں کی آنکھ میں کھٹک رہی ہے۔
آپ کچھ بھی کہیں لیکن گلو بٹ بہت کام کی چیز ہے اس کے پاس ہر تالے کی چابی ہر وقت موجود رہتی ہے آج آپ اسے اس لیے برا بھلا کہہ رہے ہیں اور گالیاں دے رہے ہیں کیونکہ آپ آج خود بڑے آدمی نہیں ہیں۔ جس روز بھی آپ صاحب بن جائیں گے تو آپ بھی یکایک ایک خدمت گزار گلو بٹ کو اپنے پاس اچانک موجود پائیں گے پھر اس کی خدمت گزاری کے بعد اس کے لیے آپ کے دل میں وہ محبت اور مامتا جاگے گی کہ آپ خود حیران ہو جائیں گے اور پھر اس کے بغیر رہ ہی نہ پائیں گے اور اس کے خلاف ایک بات بھی سننا گوارہ نہیں کریں گے کیونکہ گلو بٹ کے بغیر ہر بڑے سے بڑا اور اعلیٰ ترین عہدے دار اندھا، بہر ہ اور غمگین ہوتا ہے اس لیے کہ گلو بٹ ہی ہر صاحب کی آنکھ، کا ن اور ذہن ہوتا ہے۔
یہ بھی یاد رہے کہ گلو بٹ کا کام صرف مخبری ہی کرنا نہیں ہے بلکہ صاحب کو ہنسانا، صاحب کی تعریفیں کرنا، صاحب کے فون سننا، صاحب کی مالش کرنا اس کی خدمات کا حصہ ہیں اور لین دین بھی گلو بٹ کے ہاتھوں ہی سر انجام پاتا ہے اور اس سے بڑھ کر صاحب کا موڈ بنا نے میں گلوبٹ کا ثانی کو ئی نہیں ہے۔ صاحب بیوی کی بات رد کر سکتے ہیں لیکن گلو بٹ کی ہر سفارش اور ہر مخبری ایمان کا درجہ رکھتی ہے اس کے علاوہ صاحب اپنی بیوی کے اتنے عادی نہیں ہوتے ہیں جتنے گلو بٹ کے ہو چکے ہوتے ہیں۔ بڑے بڑے ایوان، بڑے بڑے آفس اور بڑے بڑے ڈرائنگ روم گلوبٹ کے بغیر ویران لگتے ہیں۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے فرمایا ہے کہ پوری حکومت گلو بٹ چلا رہے ہیں ڈاکٹر صاحب آپ بالکل درست فر ما رہے ہیں تب ہی تو قوم حکمرانوں کی باتیں اور اقدامات دیکھ کر، سن کر چکرا جاتی ہے اور اپنی انگلیاں دانتوں میں چبا لیتی ہیں اس لیے کہ ہر بات اور ہر قدم کے پیچھے گلو بٹ ہی آپ کو ہنستا ہوا ملتا ہے کیونکہ سوچنے اور مشور ے دینے کا کام بھی گلو بٹ ہی کے ہاتھوں انجام پاتا ہے۔ اس لیے ہر قدم اور ہر بات کی شاباشی کا اصل حق دار گلو بٹ ہی ہے کیونکہ گلو بٹ کی شاندار کا کردگی کی بنا پر صاحب سوچنے کے کام سے بھی رضا کارانہ طور پر دستبردار ہو جاتے ہیں پھر ظاہر ہے جیسی سوچ ہو گی ویسے ہی اقدامات ہونگے۔
اصل میں گلو بٹ ایک معصوم، بے ضرر قسم کا انسان ہے وہ کبھی بھی کسی کا بھی برا نہیں سوچتا ہے صرف اپنا اور اپنے صاحب کا بھلا سوچتا ہے کیونکہ صاحب کی بھلائی ہی میں اس کی بھلائی پوشیدہ ہے کیا ہم اپنے لیے بھلا نہیں سوچتے اگر وہ سوچتا ہے تو کونسا جر م کرتا ہے۔ دراصل گلو بٹ قابل نفرت نہیں ہے بلکہ وہ انسانی فطر ت قابل نفرت ہے جو گلو بٹ کو جنم دیتی ہے اور اس کو پسند کرتی ہے اسے اپنا مشیر بناتی ہے اور اپنا مطلب نکالتی ہے۔ ایک بادشا ہ نے گدھوں کو قطار میں چلتا دیکھا تو کمہار سے پوچھا یہ کیسے سیدھے چلتے ہیں۔ کمہار نے جواب دیا کہ ان میں سے جو قطار توڑتا ہے اسے میں سزا دیتا ہوں بس اسی لیے یہ سیدھے چلتے ہیں۔
بادشاہ بولا کیا تم میرے ملک میں امن قائم کر سکتے ہو کمہار نے حامی بھر لی ۔شہر آئے تو بادشاہ نے کمہار کو منصف بنا دیا کچھ دنوں بعد ایک چور کا مقدمہ آ گیا۔ کمہار نے کہا چور کا ہاتھ کا ٹ دو جلاد نے وزیر کی طرف دیکھا اور کمہار کے کان میں بولا یہ چور وزیر صاحب کا خاص آدمی ہے۔ کمہار نے دوبارہ کہا اس کا ہاتھ کا ٹ دو تو وزیر نے سرگوشی کی کہ یہ اپنا آدمی ہے خیال کرو۔ کمہار نے کہا چور کا ہاتھ اور وزیر کی زبان دونوں کاٹ دو اور ایک ہی فیصلے سے ملک میں امن قائم ہو گیا۔ یہ ملک اور قوم مال غنیمت نہیں ہے اور نہ ہی کسی کی جاگیر اور لونڈی ہے اور نہ ہی یہ کسی کی رعایا ہے کہ جسے ہر کوئی عوام کو دھوکا دے کر اقتدار میں آ کر لوٹتا ہے اور برباد کر دیتا ہے اور واپس اپنے گھر چلا جاتا ہے اور باقی زندگی لوٹے ہوئے پیسوں سے عیش و عشرت کے ساتھ گزار دیتا ہے۔
یہ محلات، یہ جاگیریں، یہ ملیں یہ زمینیں سب عوام کے لوٹے ہوئے پیسوں سے بنی ہوئی ہیں اگر کسی کو شک ہے تو وہ تحقیقات کر کے دیکھ سکتا ہے۔ لاہور کی عدالت میں گلو بٹ کی پٹائی اور رسوائی دراصل گلو بٹ کی پٹائی اور رسوائی نہیں ہے بلکہ یہ گلو بٹ کے صاحبوں کے لیے لوگوں کی نفرت کا ایک چھوٹا سا اظہار تھی، لہذا گلو بٹ کے صاحبو دیوار پر لکھے ہوئے اپنے انجام کو پڑھ لو۔ اور سدھر جائو اپنے کیے پر معافی مانگ لو، اور اپنے کیے پر توبہ کر لو ورنہ کل جو ہونے والا ہے وہ صاف صاف نظر آ رہا ہے۔