سندھ میں وائس چانسلرز کی غیر مساوی تنخواہیں محکمہ یونیورسٹیز معیار بنانے میں ناکام
سمری بھجوائے جانے کے بعد وائس چانسلرز کی نظریں کنٹرولنگ اتھارٹی پر ہیں
سندھ کی 27سرکاری جامعات کے وائس چانسلرز کی تنخواہیں غیر مساوی اور کسی بھی مجوزہ معیار کے مطابق نہ ہونے کے سبب کچھ اداروں کے سربراہ 1 سے 3ملین روپے کے درمیان جبکہ اکثریت 5 یا آدھے ملین کے آس پاس تنخواہیں لے رہے ہیں۔
اکثریتی جامعات کے وائس چانسلرز جو آدھے ملین کے آس پاس تنخواہیں لے رہے ہیں، ان میں سے بھی بعض ایسے ہیں جو بیک وقت ہزاروں طلبہ اور درجنوں شعبہ جات کے ساتھ پر کئی کیمپسز چلا رہے ہیں جبکہ کچھ چند سو یا بمشکل ہزار یا دو ہزار طلبہ کے چند بیجز کے ساتھ چند شعبوں پر مشتمل یونیورسٹیز کے سربراہ ہیں۔
جامعات کے وائس چانسلرز کے درمیان اس غیر معقول تفریق کے سبب زیادہ اور کم تنخواہ لینے والے وائس چانسلرز کی تنخواہوں کے مابین ایک بڑا فاصلہ پیدا ہوگیا ہے جسے ختم کرنا تو ممکن نہیں لیکن اس فاصلے کو کم کرنے کی بارہا کوششوں کے باوجود محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈ اپنی کاوشوں میں ناکام ہوگیا ہے اور وائس چانسلرز کی تنخواہوں کی فکسیشن سے متعلق کم از کم دو مختلف سمریز بھجوائے جانے کے باوجود اب تک یہ کوشش بے نیجہ ثابت ہوئی ہے جس کا ایک بڑا سبب حکومت سندھ کا محکمہ فنانس بھی ہے۔
ایکسپریس کو اس حوالے سے ملنے والی دستاویزات اور تنخواہوں کے اعداد و شمار انتہائی دلچسپ ہیں۔ سندھ کی سرکاری جامعات کے وائس چانسلرز کی تنخواہوں کی فکسیشن کو کسی مروجہ معیار کے مطابق لانے کی کوششوں کا سلسلہ گزشتہ برس اکتوبر 2023 سے شروع ہوا تھا اور حال ہی میں تبادلہ کیے گئے۔
سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز نور سموں کی جانب سے ان کے اپنے تبادلے یعنی 9مئی سے قبل تک جاری وزیراعلیٰ ہاؤس کے ذرائع سے ''ایکسپریس'' کو موصولہ دستاویزات بتاتی ہیں کہ سندھ میں سب سے کم تنخواہ لینے والے سرکاری جامعات کے وائس چانسلرز میں این ای ڈی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سروش لودھی 4لاکھ 53ہزار روپے بمعہ چند ہزار الاؤنسز سرفہرست ہیں جبکہ اس ابتدائی فہرست میں دوسرا نمبر آئی بی اے سکھر یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر آصف شیخ کا تھا جن کی تنخواہ گزشتہ برس کے آخر تک 5لاکھ 39ہزار روپے تھی جو ایک فیکسیشن کے بعد 6لاکھ 84ہزار روپے یعنی ٹریننور ٹریک سسٹم کے پروفیسر کے مساوی پہنچ گئی۔
اسی دستاویز کے مطابق سب سے زیادہ تنخواہوں میں آئی بی اے کراچی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر اکبر زیدی کا نام سرفہرست رہا جو 25 لاکھ 50ہزار روپے تنخواہ لے رہے ہیں جبکہ داؤد انجینیئرنگ یونیورسٹی کی وائس چانسلر ڈاکٹر ثمرین حسین کی تنخواہ 12لاکھ 90ہزار روپے کے علاوہ الاؤنسز مقرر کی گئی۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ مذکورہ دونوں اداروں کے سربراہان اپنے تنخواہیں کنٹرولنگ اتھارٹی کی منظوری سے کچھ سالانہ انکریمنٹ کے ساتھ بظاہر قانونی دائرے میں لے رہے ہیں تاہم سندھ کے دارالحکومت کراچی میں قائم شہید ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی آف لاء کے ایک سابق وائس چانسلر کنٹرولنگ اتھارٹی وزیراعلیٰ سندھ کی منظوری کے بغیر ہی 3 ملین سے کہیں زیادہ تنخواہ لیتے رہے ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ انھوں نے اس تنخواہ میں اضافے کی منظوری کنٹرولنگ اتھارٹی کے بجائے یونیورسٹی سینڈیکیٹ سے لی تھی تاہم سمری میں اس معاملے کا ذکر ہی موجود نہیں ہے اور نہ ہی اس تنخواہ کی وصولی کے حوالے سے حکومت سندھ کوئی اقدام کر سکی البتہ لاء یونیورسٹی کا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ تنخواہ میں اضافے کے حوالے سے اقدام قانونی تھا۔
ادھر ذرائع بتاتے ہیں کہ حال ہی میں آئی بی اے کراچی اور داؤد انجینیئرنگ یونیورسٹی کے سربراہان نے کنٹرولنگ اتھارٹی سے ایک بار پھر اپنی اپنی تنخواہوں میں سالانہ اضافے کی سفارش کی تھی۔
وزیراعلیٰ ہاؤس کے ذرائع کے مطابق داؤد انجینیئرنگ یونیورسٹی نے اس معاملے کو وزیراعلیٰ سندھ کی سفارش و منظوری سے ہی مشروط کیا ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ جس قدر چاہیں ان کی تنخواہ میں سالانہ انکریمنٹ فکس کرسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں داؤد انجینیئرنگ یونیورسٹی کے رجسٹرار کی جانب سے بھجوائے گئے ڈرافٹ میں وائس چانسلر کی منسلک ایک سالہ کارکردگی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وائس چانسلر نے ایک سال میں کیے گئے اقدام میں یونیورسٹی کی فنانشل منیجمنٹ پر فوکس کیا، 200 ملین کے اوور ڈرافٹ میں سے 140 ملین کی ادائیگی کی جا چکی ہے جبکہ اخراجات پر قابو پانے کے لیے بھی کئی اقدامات کیے گئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق آئی بی اے کراچی کی جانب سے پیش کردہ درخواست میں تنخواہ میں سالانہ 21فیصد اضافہ مانگا گیا تھا جسے حال ہی میں وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے اتفاق نہ کرتے ہوئے مسترد کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ یہ معاملہ شاہ عبدالطیف بھٹائی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر خلیل احمد ابوپوٹو، لیاقت میڈیکل یونیورسٹی جامشورو اور قائد عوام یونیورسٹی آف انجینیئرنگ، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نوابشاہ کے وائس چانسلر کی جانب سے ان کی تنخواہوں میں ایچ ای سی اسلام آباد کے تحت فکس کیے گئے سیلری پیکج 6لاکھ 84ہزار 450روپے تک اضافہ کرنے کی سفارش سے شروع ہوا تھا اور اسی سلسلے میں محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈ نے کنٹرولنگ اتھارٹی کو اپنی جانب سے لکھے گئے نوٹ میں اس معاملے کا تذکرہ کرتے ہوئے کچھ وجوہات بھی بیان کی تھیں جس میں کہا گیا تھا کہ جامعات کے سائز اور خاص طور پر انرولمنٹ اور فیکلٹی کی تعداد، جامعات کی مالی صورتحال کے تناظر میں ان کی کارکردگی اور فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ کی قابلیت جبکہ خود متلعقہ وائس چانسلر کے اپنے تجربے اور ان کے پیشہ ورانہ قد وقامت stature پر ہونا چاہیے۔
اس صورتحال کے برعکس تمام جامعات کے وائس چانسلرز تنخواہوں کے مختلف پیکجز پر ہیں جس کے لیے معقولیت کی بنیاد پر ایک معیار مقرر کیے جانے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں اعلیٰ تعلیمی کمیشن آف پاکستان کی جانب سے منظور شدہ تازہ یا آخری بار جاری کیے گئے۔ سیلری پیکج کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ وائس چانسلر کی بنیادی تنخواہ ٹی ٹی ایس پروفیسر کی تنخواہ کے مساوی ہونا چاہیے اور جو از خود revised ہوتا ہے جس میں ٹی ٹی ایس پروفیسر کی بنیادی تنخواہ 6لاکھ 84ہزار450 روپے ہے۔
تبادلے سے قبل جب سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز نور سموں سے ''ایکسپریس'' نے دریافت کیا کہ پہلی مسترد سمری کے بعد کیا اب وائس چانسلرز کی تنخواہیں rationalize ہونے اور اس میں تفریق کم ہونے کا امکان ہے جس پر ان کا کہنا تھا کہ ہم دوبارہ ایک سمری بھجوا چکے ہیں، اب کنٹرولنگ اتھارٹی کی جانب سے احکامات کا انتظار ہے۔
محکمہ یونیورسٹیز اینڈبورڈ کی پہلی سمری کو جب سابق نگراں وزیراعلیٰ سندھ کے پاس بھجوایا گیا تو انھوں نے اس معاملے کو محکمہ خزانہ سندھ کی جانب ریفر کر دیا محکمے نے اسے میرٹ کے برعکس قرار دیا۔
اس وقت کے سیکریٹری فنانس نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ محکمہ اس تجویز پر تعاون نہیں کرے گا جس کے بعد گزشتہ ماہ اپریل میں مزید ایک سمری محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈ کی جانب سے بھجوائی گئی جس میں بتایا گیا کہ اس وقت 27پبلک سیکٹر جامعات میں سے 22میں مستقل وائس چانسلرز موجود ہیں جن میں سے 5سرکاری جامعات کے وائس چانسلرز کو وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے maximum of TTS دیا جا چکا ہے جن میں ڈاکٹر صدیق کلہوڑو، ڈاکٹر فتح مری، ڈاکٹر آصف شیخ، ڈاکٹر طحہ حسین، ڈاکٹر زاہد حسین کھنڈ اور ڈاکٹر تہمینہ ننگ راج شامل ہیں جبکہ دیگر وائس چانسلرز minimum of TTS لے رہے ہیں جو ایک heartburning صورتحال پیدا کر رہا ہے لہٰذا اس سلسلے میں کم سے کم سطح پر یونیفارم پے اسکیل ہونا چاہیے تاہم اس معاملے پر بھی تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔
ادھر ایک وائس چانسلر کا کہنا تھا کہ ''ایک عجیب اور گمبھیر صورتحال ہے جو وائس چانسلرز ہزاروں طلبہ اور درجنوں شعبوں کے ساتھ اپنی اپنی جامعات چلا رہے ہیں ان کی تنخواہیں ایسی جامعات کے وائس چانسلرز کے مساوی یا ان سے بھی کم ہیں جن کی انرولمنٹ سیکڑوں میں اور شعبہ جات ایک درجن بھی نہیں ہیں۔
سندھ کے ایک اور وائس چانسلر کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا کہ وہ اور ان جیسے کئی وائس چانسلرز ایک نہیں کئی کئی کیمپس چلا رہے ہیں، ہزاروں طلبہ ان کی جامعات میں انرولڈ ہیں ایفیلیٹڈ کالجز علیحدہ ہیں لیکن تنخواہ سب ہی جانتے ہیں''۔
ایک عمومی خیال یہ ہے کہ تنخواہوں میں اس قدر عدم مطابقت خود وائس چانسلرز کی کارکردگی پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ''ایکسپریس'' سے گفتگو میں ایک وائس چانسلر کا تو یہاں تک کہنا تھا کہ چند لاکھ تنخواہ دے کر وائس چانسلرز کے ہاتھوں میں اربوں روپے کا بجٹ دے دیا جاتا ہے پھر اختیارات کے ناجائز استعمال کی خبریں رپورٹ ہونے لگتی ہیں۔