اشرافیہ کو جوابدہ ہونا پڑے گا
اگر تمام شعبہ جات کو نجی شعبہ نے ہی چلانا ہے تو لوگ ریاست کو کیونکر ٹیکس دیتے ہیں
پاکستان کے مجموعی نظام کو عوام کے سامنے جوابدہ بنانا ہوگا۔اگر ملک بچانا ہے تو سسٹم عوامی مفادات کے تابع بنانا ہوگا ۔یہ ملک طبقاتی تقسیم کی بنیاد پر نہیں چل سکتا اور اگر اسے اسی بنیاد پر آگے بڑھانا ہے اور عوامی مفادات کو مسترد کرنا ہے تو اس نظام کی کوئی سیاسی ، آئینی ، قانونی اور اخلاقی ساکھ قائم نہیں رہ سکے گی۔ لوگوں کا جو نظام پر اعتماد کمزور ہوا ہے اس کی وجہ بھی طاقت ور طبقات کے مفادات کی سیاست ہے۔ اسی تضاد کی وجہ سے امیر اور غریب کے درمیان پہلے سے چلی آرہی ہے، مزید گہری ہوگئی ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کے بقول ملک کو آگے جانا ہے تو سب کچھ نجی شعبہ کے ماتحت کرنا پڑے گا۔ان کے بقول خیرات سے اسکول ، یونیورسٹیاں اور ہسپتا ل تو چل سکتے ہیں مگر ملک صرف ٹیکس سے چل سکتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ اگر اس ملک کو نجی شعبہ کو ہی دینا ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ اشرافیہ ہی ملک چلائے گی اور نظام اسی کے مفادات کا تحفظ کرے گا۔ یہ جو نجی شعبہ کے نام پر بغیر کسی قانون اور اصول کے لوگوں کا استحصال یا ان کے ساتھ تعلیم ، صحت سمیت دیگر شعبہ جات میں ظلم ہورہا ہے اس کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے ۔
اسی طرح اگر تمام شعبہ جات کو نجی شعبہ نے ہی چلانا ہے تو لوگ ریاست کو کیونکر ٹیکس دیتے ہیں۔ وزیر خزانہ ہو یا وزیر اعظم یا اس ملک کی طاقت ور سیاسی و غیر سیاسی اشرافیہ اسے بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ جن طور طریقوں سے وہ ملک چلانے کی کوشش کررہے ہیں، یہ زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا ۔عجیب بات ہے کہ پورا ریاستی و حکمرانی کا نظام عام آدمی سے قربانی مانگتا ہے یا اس کے کاندھوں پر بوجھ ڈال کر خود عیش کررہا ہے۔
یہ عجیب نظام ہے کہ پورا نظام حکمرانی عام آدمی کے مقابلے میں اشرافیہ کے ساتھ کھڑا ہے ۔ کیونکہ یہاں اشرافیہ کو ہی حکمران سمجھاجاتا ہے۔ سسٹم چلانے والی سرکاری اشرافیہ، کاروباری اشرافیہ، جاگیردار، قبائلی سردار اور گدی نشینوں پر مبنی سیاسی اشرافیہ ایک دوسرے کے مفادات سے براہ راست جڑے دیکھے جاسکتے ہیں۔
یہ پورا نظام اس بنیادی اصول کو نظرانداز کررہا ہے کہ یہاں جو عام یا کمزور آدمی سے لے کر لوئر مڈل اورمڈل کلاس سمیت اپر کلاس یا وائٹ کالر افراد یا تنخواہ دار طبقہ میں '' آمدنی اور اخراجات '' میں جو عدم توازن او ربگاڑ پیدا ہوا ہے اس کا معاشی ازالہ کیسے ممکن ہوگا۔ایک طرف ریلیف دینا اور دوسری طرف دوسری حکمت عملی کے تحت تنخواہ دار طبقہ پر مزید ٹیکسوںکا بوجھ ڈالا جارہا ہے۔
کیا یہ ریاستی وحکمرانی کا نظام سمیت وزیر اعظم ، وزیر خزانہ اور چاروں وزرائے اعلیٰ اعتماد اور سچائی کے ساتھ یہ گارنٹی دے سکتے ہیں کہ اس ملک میں ہر فرد کو جو بارہ گھنٹے کام کرتا ہے اسے واقعی کم سے کم اجرت37000ماہانہ مل رہی ہے اور اگر نہیں مل رہی تو اس کا جوابدہ کون ہے ۔ کیا ہمارا نظام اس قابل ہے کہ وہ بجٹ کے اہداف حاصل کرلے اور جو ریلیف دینے کا اعلان کیا گیا ہے، اس پر عملدرآمد کراسکے۔
جن طاقت ورلوگوں سے ٹیکس وصول کرنا ہے یا ان کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہے اس کی ناکامی کیونکر ہورہی ہے ۔ یہ جو طاقت ور اشرافیہ طاقت اور اختیارات کو بنیاد بنا کر یا ناجائز انداز سے مالی طور پر وسائل کو اکھٹا کرکے باہر دولت یا پراپرٹیاں بنارہا ہے جس میں حکمران طبقہ سمیت طاقت ور لوگ شامل ہیں ان کو کیوں قانونی شکنجے میں نہیں لایا جارہا ۔اگر یہ ملک طاقت ور اشرافیہ کی بنیاد پر ہی چلانا ہے تو پھر جمہوریت ، سیاست ، آئین ، قانون کی حکمرانی اور اخلاقیات یا سماجی و معاشی انصاف یا وسائل کی منصفانہ تقسیم یا جوابدہی یا احتساب کے نظام کی کہانیاں کس کو سنائی جارہی ہیں او رکیوں لوگ اس سیاسی چورن پر اعتماد کریں گے یا ان کا ریاستی و حکومتی نظام پر بھروسہ قائم ہوگا۔
یہ جو خیراتی انداز میں ملک کو چلانے کی کوشش کی جارہی ہے اس کے نتیجہ میں سوائے لوگوں کی سیاسی اور معاشی تذلیل یا ان کو ریاستی وحکومت کے نظام پر بوجھ کی صورت میں ڈالنا ہے ۔عام او رکمزور لوگوں کی عزت ونفس سے کھیل کر ان کی راشن دیتے یا امداد کرتے حکمرانو ں طبقہ کے ساتھ تصاویر اور میڈیا پر ان کی تشہیر سوائے ان کی تضحیک کے اور کچھ بھی نہیں۔
یہاں صرف سیاست اور ریاست کا طاقت ور نظام ہی بگاڑ کا شکار نہیںہوا بلکہ مجموعی طور پر سماجی نظام ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ نئے روزگار پیدا کرنا، پہلے سے موجود روزگار لوگوں کو معاشی تحفظ دینا ، نئی چھوٹی صنعتوں کا قیام ، معاشی سازگار حالات اور لوگوں کو مچھلی کھلانے کے بجائے پچھلی پکڑنے کی تربیت نہ دینا اور جدید تعلیمی اور پروفیشنل تعلیم سے دوری جیسے مسائل یہ سب ایجنڈا پس پشت کیوں ہے۔
کیا ریاستی و حکومتی نظام نے اس سوال کو سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ کیا وجہ ہے کہ یہاں بڑی تیزی سے معاشی ناہمواریاں ، معاشی آسودگی اور معاشی غیریقینی صورتحال یا عدم تحفظ کا احساس کیونکر بڑھ رہا ہے او رکیوں نئی نسل تیزی سے ملک چھوڑنے کو ترجیح دے رہی ہے ۔ امراء کا طبقہ تو پہلے ہی اپنا سرمایہ پاکستان سے باہر منتقل کر چکے ہیں، جو تھوڑے بہت باقی ہیں، وہ سرمایہ باہر بھیجنے کے راستے تلاش کررہے ہیں۔ ایک طرف ساری توجہ کا مرکز یہ ہے کہ غیرملکی سرمایہ کار پاکستان آکر سرمایہ کاری کریں لیکن ملک میںموجود سرمایہ کار عدم تحفظ کا شکار ہیں ۔
وزیر اعظم ، وزیر خزانہ اور دیگر سیاسی و غیر سیاسی طاقت ور عہدوں پر موجود لوگ یہ بتانا پسند کریں گے کہ وہ کیونکر اپنے اخراجات میںکمی کے لیے تیار نہیں اور کیونکر غیر ترقیاتی بجٹ ترقیاتی بجٹ سے زیادہ ہے ۔ اس بجٹ میں ہم نے کتنا سماجی شعبوں یا تعلیم اور صحت یا روزگار پر خرچ کیا ہے۔کیا وجہ ہے کہ تسلسل کے ساتھ سادگی کی بات کرنے والا ریاستی و حکومتی نظام وزیر اعظم ہاوس،ایوان صدر، چاروں وزرائے اعلیٰ ، گورنرز اور اسپیکرز اور دیگر اہم عہدوں پر موجود افراد یا اداروںکی سطح پر اخراجات میںکمی کے لیے تیار نہیں ۔ شاہانہ اخراجات کے کھیل نے عملا پورے ریاستی نظام کی حیثیت پر ہی سوال اٹھادیے ہیںکہ ہم کیسے عالمی دنیا سے عوام کے لیے قرضہ لے کر یا اس پر سود ادا کرکے کس بڑے طبقہ کو آسانیاں اور کس طبقہ پر بوجھ ڈال رہے ہیں ۔
گورننس یا حکمرانی کے نظام سمیت پولیس ، بیوروکریسی ، عدلیہ، انتظامیہ ، سیاسی ، معاشی تعلیمی اور صحت پر مبنی اصلاحات یا ان شعبوںمیں ایک بڑی سرجری یا انتظامی بنیادوں پر ڈھانچوں میںبنیادی تبدیلیاں ہماری ترجیحات کا حصہ کیونکر نہیں بن پارہی ہیں ۔ محض جذباتیت ، خوش نما نعروں اور بڑے بڑ ے دعووں کے ساتھ نہ تو سیاسی او رنہ ہی معاشی استحکام آسکتا ہے۔ کمزور سیاسی اور معاشی نظام جہاں سیاست کے بجائے غیر سیاسی قوتوں کا غلبہ ہو وہاں کوئی بھی نظام نتیجہ خیز نہیں ہوسکتا ۔
اس لیے جب تک اس ریاستی و حکومتی نظام کو جوابدہ نہیں بنایا جائے گا اور ہم بنیادی نوعیت کی سیاسی ،سماجی ، جمہوری ، آئینی ، قانونی و انتظامی تبدیلیوں یا معاشی حالات کو بدلنے کے لیے غیر معمولی حکمت عملیاں اختیار نہیں کریں گے ملک میں مزید انتشار اور بگاڑ کا پہلو نمایاں ہوگا۔