یار لوگ
کرامت علی اپنی نوجوانی سے لے کر اس عمر تک جدوجہد اور تحاریک کا حصہ رہے
زندگی پرکوئی زور نہیں جب آپ کے اپنے، پیارے دوست، عزیز و اقارب اس جہان فانی سے چلے جاتے ہیں تو آپ کا دل ان کی یاد میں روتا ہے، آنکھیں پرنم ہوتی ہیں،کیونکہ ہم زندہ ہیں اور وہ نہیں ہیں۔ چاہے آپ ان کے لیے غم سے نڈھال ہو جائیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ نہ زندگی ان کی ہے جو زندہ ہیں اور نہ ہی ان کی تھی جو اس دنیا سے چلے گئے۔ غالب اس حقیقت سے خوب واقف تھے کہ انھوں نے اپنے ایک دوست کو خط میں کسی دوست کی رحلت کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ لکھا کہ '' دوست کے جانے سے روتے نہیں، اس لیے کہ روئیں وہ تب جب ان کو نہ جانا ہو۔''
موت بہر ِحال ایک موضوع بن جاتی ہے جب یہ قضااپنے یار لوگوں پرگزر تی ہے۔ اس عید سے پہلے اسحاق منگریو گزرے اور عید کے فوراً بعد کرامت علی۔ کچھ عرصہ قبل ہی ہمارے دوست بی ایم کٹی انتقال کرگئے، میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ان کے بارے میں کچھ لکھوں تو پروفیسر جمال نقوی چل بسے۔ اسی طرح یکے بعد دیگرے ہمارے ایک اور دوست حاصل بزنجو انتقال کرگئے۔ اس عمر اور اس سلسلے کو دیکھتے ہوئے فیض کی یہ سطریں یاد آتی ہیں۔
'' ہم اب اس عمر کو آپہنچے ہیں،
جب ہم بھی یونہی، دل سے مل آتے ہیں
بس رسم نبھانے کے لیے،
دل کی کیا پوچھتے ہو،
سوچنے دو...''
کرامت علی اپنی نوجوانی سے لے کر اس عمر تک جدوجہد اور تحاریک کا حصہ رہے۔ مزدور لیڈر تھے، دہقان دوست انسان تھے، بائیں بازوکی سیاست پر یقین رکھتے تھے، اپنے وجود میں وہ خود ایک تاریخ تھے۔ اپنے آخری زمانوں میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (Piler ) کے نام سے ادارہ قائم کیا۔ کرامت صاحب تقریباً تیس سالوں سے اس ادارے سے وابستہ تھے، وہ اپنے آپ کو ساؤتھ ایشیا کے تناظر میں دیکھتے تھے۔ پاکستان اور ہندوستان کی دوستی کے خواہاں تھے۔ ہندوستان سے ایسے بہت سے مہمان ان کے پاس آتے تھے جو کرامت صاحب کی سوچ کے حامی تھے۔
ہندوستان کے سابق سفیر مانی شنکر اورکئی پارلیمانی ارکان،کرامت صاحب کے ہاں مہمان بنے، نہ صرف یہ بلکہ یہاںسے بھی کئی وفد کرامت صاحب کے توسط سے ہندوستان گئے۔ اپنی شاگردی کے زمانے میں کرامت علی کراچی کے طلبا ترقی پسند گروپ سے وابستہ رہے۔کرامت علی، رشید رضوی اور کئی شاگرد شیخ مجیب سے قریب رہے۔ ایک باب تھا جو آج اختتام کو پہنچا، مگر مورخ جب بھی اس دورکے باب کھولے گا تو یقینا کرامت علی کا نام ان کی تحاریر میں گہرے نقوش چھوڑے گا۔ میرا کرامت علی سے ایک گہرا رشتہ تھا۔ 2016 میں، میں نے اپنے والد کی برسی کے موقعے پر ایک ادبی تقریب کا اہتمام کیا۔ عاصمہ جہانگیر اس تقریب کی مہمانِ خصوصی تھیں اورکرامت علی نے اس تقریب کے ایک سیشن کی میزبانی خود انجام دی۔ اس تقریب میں قاضی فیض محمد ایوارڈ انھوں نے آئی اے رحمن کے ساتھ مل کر آنجہانی مائی ڈھائی کو پیش کیا۔
کرامت صاحب اب ہم سے بس اتنا طلب کرتے ہیں کہ کتاب جتنا موضوع وہ خود ہیں بس اور یقینا کوئی دوست اس ذمے داری کو اپنے کندھوں پر لے گا اور تحریرکرے گا تاکہ آنے والی نسلوں کو آگاہی مل سکے۔ اسی طرح سے پھر کراچی کے وہ اوراق کھلیں گے جو زمانہ فاطمہ جناح کا تھا اور جنرل ایوب کی آمریت ملک پر راج کر رہی تھی۔ کراچی نے کیا خوب مقابلہ کیا ایک آمرکے ساتھ سینہ سپر ہو کر۔
شاید یہی وجہ تھی دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد لے جانے کی،کیونکہ آمروں اس بات کا خوب اندازہ ہوچکا تھا کہ کراچی میں ان کی دال نہیں گلنے والی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب جہاز یورپ سے ایسٹ ایشیا جاتے یا پھر ایسٹ ایشیا سے یورپ پروازکرتے تو ایندھن کے لیے ان کا ٹھہراؤکراچی کی ایئر پورٹ پر ہوتا تھا، جیسا کہ آج کل دبئی یا قطر وغیرہ کے ہوائی اڈوں پر ہوتا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کراچی، سرمایہ کاری کا مرکز تھا جس کو ہم بائیس خاندانوں کے نام سے پہچانتے ہیں،کراچی مزدوروں کا شہر تھا۔ یہاں مزدوروں کی بستیاں تھیں، بڑی بڑی ٹریڈ یونین یعنی مزدوروں کی انجمن تھیں اور انھیں انجمنوں کے اندرکام کرتے تھے، لینن نوازکمیونسٹ، ماؤ نوازکمیونسٹ۔ یہ لوگ ملکی سطح پر یا تو نیپ کے ساتھ جڑے ہوئے تھے یا پھر غوث بخش بزنجو کی نیشنل پارٹی کے ساتھ، اسی ماحول میں پلے بڑھے تھے کرامت علی اور اپنی تمام زندگی اسی ماحول کا عکس بنے رہے۔
کرامت علی چونکہ ترقی پسند تھے لہٰذا اپنی سوچ و فکر میں وہ دنیا کے تمام مظلوم طبقوں اور قوموں کے حقوق کی بات کرتے تھے، ان کے لیے آواز بلند کرتے تھے، سندھ میں دہقانوں کی تحاریک کے ساتھ اپنے آپ کو جوڑ کر رکھا۔ سندھ ہاری تحریک کی تاریخ کو محفوظ بنانے کے لیے کام کیا، اس تحریک میں سرفہرست نام حیدر بخش جتوئی کا تھا اور قابل ذکر نام تھا، میرے والد قاضی فیض محمد کا۔ ان دونوں رہنماؤں کو تاریخ میں اپنا مقام دلانے کے لیے کرامت صاحب متحرک رہے۔
کرامت صاحب جب بھی مجھ پرکوئی ذمے داری عائد کرتے میں ہمیشہ پیش پیش رہتا۔ کامریڈ کرامت، اقبال حیدر، ڈاکٹر جعفر احمد، ڈاکٹر ہارون، شیر باز مزاری اور حاصل بزنجو کے ساتھ مل کر ہم نے سیکولر فورم بھی بنایا۔ اقبال حیدر اس فورم کے صدر تھے، میں جنرل سیکریٹری۔ یہ تھا ہمارا قبیلہ، جس بزم سے بہت سے یار لوگ اٹھ گئے ہیں۔ یہ عید عجیب گزری، عید کی رات اسحاق منگریوگزرے اور عید کے بعد کرامت حسین۔ اسحاق منگریو سندھ کے انتہائی منفرد صحافی تھے۔ اسحاق ان صحافیوں میں سے تھے، صحافت جن کے روح میں بستی ہے۔ آندھی ہو یا طوفاں اسحاق منگریو اگرکسی کہانی کے حقائق کے پیچھے لگ جائیں یا پھر تپتی دھوپ ہو یہ آپ کوکسی ریل کے انتظار میں پلیٹ فارم پر ٹہلتے ملیں گے، جو ملا کھانے کے لیے کھا لیا، جہاں دل کیا سو لیا مگرکہانی کے اختتام پر کہانی کو ڈیسک پر بیٹھ کر مکمل کرتے اور اس کے بعد وہ کہانی اخباروں کے پنے پر چھپتی اور لوگ ششدر رہ جاتے اس کہانی کے حقائق کو پڑھ کر جو اس سے پہلے لوگوں سے پوشیدہ تھے، اسی طرح کہانی کو نیا رخ ملتا۔
ان کی تحریری زبان سندھی تھی، وہ کہانیاں ہم تک نہ پہنچ سکیں۔ سندھی صحافت میں وہ اپنا نام آپ تھے۔ اسحاق منگریو کے جانے سے سندھی صحافت اورکالم نگاری بہت کمزور پڑ گئی ہے، وہ کسی پیری مریدی یا سیاست کو اپنی صحافت پر حاوی نہیں ہونے دیتے تھے۔
سندھ کے ایک بہت بڑے راگی،صوفی منش بھگت کنور رام 1939 میں سکھرکے قریب '' رک اسٹیشن'' پر قتل کیے گئے۔ یہ وہ قتل تھا جس نے سندھ میں مذہبی منافرت کی بنیا د ڈالی۔ مجھے اپنے والد کی تحریروں سے ایسا لگتا ہے کہ بھگت کنور رام کو تحریرکرتے کرتے میرے والد آبدیدہ ہو جاتے تھے پھر ساٹھ سال بعد اسی جگہ جہاں بھگت کنور رام قتل ہوئے تھے، میں نے ہم خیال دوستوںکے ساتھ مل کر دس ہزار دیے ( دیپ) جلائے تاکہ آنیوالی نسلیں سندھ کے اس خوبصورت شخص کو بھو ل نہ پائیں۔ میرے ساتھ اس وقت اسحاق منگریو بھی تھے۔ میں اس جگہ عاصمہ جہانگیر صاحبہ کو بھی لے کر گیا تھا۔ اسحاق منگریو نے بھگت کنور رام کے قاتلوں کا سراغ لگایا۔ ان قاتلوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، اس قتل کے ساٹھ سال بعد ان قاتلوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ ہی تھے جنھوں نے بھگت کنور رام پرگولی چلائی، وہ سندھ کے جلبانی قبیلے سے تھے۔
اسحاق منگریو بھگت کنورکی زوجہ سے بھی ملے جو ہندوستان سے یہاں زیارت کے لیے آئی تھی اس کو دیکھ کر اپنے آنسو نہ روک سکے، ان کے پاؤں چھوکر وہاں سے رخصت ہو لیے۔ اسحاق منگریوکی ان تمام کہانیوں اور تحریروں کو کتابی صورت میں شایع کرنے کی ضرورت ہے۔یار لوگ تو چلے گئے چھوڑگئے، ہمارے لیے خوبصورت یادیں اور ان یادوں میں ہماری زندگی گزر رہی ہے، اس وعدے کے ساتھ کہ وہ کام جو وہ چھوڑگئے ہیں، شاید ہم پورا کرسکیں۔
تھے کتنے اچھے لوگ کہ جن کواپنے غم سے فرصت تھی
سچ پوچھتے تھے احوال جو کوئی درد کا مارا گزرے تھا
'' فیض ''