سیاسی استحکام کیسے آئے
قوانین کی پیچیدگی، ابہام اور ذومعنیت نے پوری ریاستی مشینری کو مفلوج بنا دیا ہے
خیبر پختونخوا میں ضلع کرم کے جنرل علاقے صدہ میں جمعے کو سیکیورٹی فورسز کی گاڑی پر بارودی سرنگ کا دھماکا ہوا جس میں پانچ بہادر بیٹے وطن پر قربان ہو گئے۔آئی ایس پی آر کے مطابق شہید ہونے والوں میں حوالدار عقیل احمد، لانس نائیک محمد طفیر،سپاہی انوش رفون، سپاہی محمد اعظم خان اور سپاہی ہارون ولیم شامل ہیں۔ ترجمان پاک فوج کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے پرعزم ہیں، ہمارے بہادر سپاہیوں کی ایسی قربانیاں ہمارے عزم کو مزید مضبوط کرتی ہیں۔
صدر مملکت آصف علی زرداری اور وزیراعظم محمد شہباز شریف نے ضلع کرم میں اس حملے کی شدید مذمت کی، صدر مملکت نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اِداروں کی کارروائیاں جاری رہیں گی۔ وزیر اعظم نے بم حملے میں شہید جوانوں کو خراج عقیدت پیش کیا ۔ وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی نے فورسز کی گاڑی کے قریب آئی ای ڈی دھماکے کی شدیدمذمت اور 5 جوانوں کی شہادت پر افسوس کا اظہار کیا ہے ،انھوں نے کہا ہے کہ شہید ہونے والے جوانوں نے اپنا آج قوم کے پرامن کل کے لیے قربان کیا۔قوم دہشت گردی کے ناسور کے مکمل خاتمے کے لیے پر عزم ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی کی یہ نئی یا پہلی واردات نہیں ہے۔وطن عزیز برسوں سے دہشت گردی کی لعنت کا شکار چلا آرہا ہے۔البتہ گزشتہ تین چار برس سے دہشت گردی کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے اور یہ وارداتیں زیادہ تر خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہورہی ہیں ۔ضلع کرم سابقہ فاٹا کا حصہ ہے اور اس وقت اسے کرم ایجنسی کہا جاتا تھا۔فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرکے اسے ڈسٹرکٹ بنا دیا گیا ہے۔
پاکستان کی شمال مغربی سرحدافغانستان اور ایران کے ساتھ ملتی ہے۔خیبر پختونخوا اور بلوچستان اسی سرحد پر واقع ہیں۔یہ ایک طویل سرحد ہے اور اس سرحد کے دونوں اطراف کا علاقہ معاشی پسماندگی کا شکار ہے جب کہ یہاں کا سماجی ڈھانچہ قبائلی ہے۔ان دونوں صوبوں میں قانون کی عملدآری کمزور ہے، سابقہ فاٹا اور بلوچستان کا وہ علاقہ جو ایران کی سرحد کے ساتھ ہے، وہاں تاحال پولیس کا کنٹرول مضبوط نہیں ہے۔
صوبوں کے زیرانتظام قبائلی اضلاع میں بھی پولیس سسٹم انتہائی کمزور ہے۔ صوبوں کی حکومتیں ان معاملات پر کوئی توجہ نہیں دیتیں، قوم پرستی کے نام پر سیاست کرنے والی جماعتوں کی قیادت کا ٹارگٹ وفاق ہوتا ہے یا پنجاب ۔ اپنے صوبوں کی پولیس کو جدید بنانا، انھیں اختیارات دینا،صوبائی حکومتوں کی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں۔اس لیے یہ صوبے دہشت گردوں، شرپسندوں اور ان کے سہولت کاروں کے لیے محفوظ ترین علاقے بن چکے ہیں۔
انتظامیہ کے افسران اور اہلکاروں میں انتہاپسندوں اور دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں ہے۔ پاکستان کی مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کی قیادت نے انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کبھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کو جب بھی اقتدار ملا، ان حکومتوں نے سیکڑوں کے حساب سے قوانین بنائے، آئین میں ترامیم کیں اور آرڈیننسز جاری کیے لیکن انتہاپسندی کے خاتمے کے تناظر میں کوئی قانون سازی دیکھنے میں نہیں آئی۔ البتہ پہلے سے موجود قوانین کو مزید پیچیدہ، مبہم اور ذومعنی بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
قوانین کی پیچیدگی، ابہام اور ذومعنیت نے پوری ریاستی مشینری کو مفلوج بنا دیا ہے۔ کسی کو پتہ نہیں چلتا کہ اس کا اختیار کہاں سے شروع ہوتا ہے اور کہاں جا کر ختم ہو جاتا ہے۔ اس وجہ سے ملک میں انتشار کی کیفیت نظر آ رہی ہے۔ اس ملک کی بیوروکریسی، عدلیہ اور سول انتظامیہ کی تنخواہوں، مراعات اور پنشنز پر اربوں روپے مہینہ خرچ ہوتے ہیں۔ یہ تمام پیسہ پاکستان کے عوام کے ٹیکسوں سے ادا کیا جاتا ہے۔
عالمی مالیاتی اداروں سے جو قرض لیا جاتا ہے، اس کا سود بھی عوام سے وصول کیا جاتا ہے۔ اس کے بدلے میں عوام کو نہ تو انفرااسٹرکچر کی سہولت مل رہی ہے، نہ تعلیم اور صحت کی سہولیات مل رہی ہیں اور نہ ہی انھیں دہشت گردوں، جرائم مافیاز اور وائٹ کالر کریمنلز سے تحفظ حاصل ہے۔ سرکاری مشینری کے علاوہ قومی اسمبلی، سینیٹ، چاروں صوبائی اسمبلیاں بشمول گلگت بلتستان اسمبلی اور آزاد کشمیر اسمبلی کے ارکان کی تنخواہیں اور ان کے پروٹوکول اخراجات بھی عوام کے ٹیکسوں سے ادا ہوتے ہیں۔ اتنے بھاری اخراجات کے باوجود اگر پاکستان انتہاپسندی اور دہشت گردی پر قابو نہیں پاسکا تو لازمی بات ہے کہ اس کی کچھ وجوہات ہوں گی۔ یہ وجوہات کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔
پاکستان کی مین اسٹریم سیاسی پارٹیوں کی قیادت نے انتہاپسندی کے متبادل نظریہ یا بیانیہ تشکیل نہیں دیا۔ سیاسی قیادت نے دہشت گردوں کے خلاف لڑائی میں بھی حصہ نہیں لیا بلکہ مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی جماعتوں کی قیادت نے انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کی کوششوں کو ناکام بنانے کی کوشش کی ہے۔ دائیں بازو کی پاپولر سیاسی قیادت نے بھی انتہاپسندی اور دہشت گردی کو بڑا خطرہ نہیں سمجھا اور نہ ہی اپنے پارٹی کارکنوں کی کوئی نظریاتی اور سیاسی تربیت کی ہے۔ پاکستان میں سیاسی اور معاشی بحران کی وجہ بھی یہی ہے۔
گزشتہ روز اسلام آباد میں سی پیک پر پاک چین مشاورتی اجلاس ہوا ہے، اس اجلاس میں تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے شرکت کی ہے۔ مشاورتی میکنزم اجلاس میں عوامی جمہوریہ چین کا وفد، پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار، مسلم لیگ (ن) کے وزراء، پیپلز پارٹی کے رہنما اور چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی، سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمان، پی ٹی آئی کے سینیٹر علی ظفر، ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی، استحکام پاکستان پارٹی کی منزہ حسن، نیشنل پارٹی کے سینیٹر جان محمد، سینئر سیاستدان افراسیاب خٹک اور دوسرے سیاسی رہنما بھی موجود تھے، اجلاس سے خطاب میں چین کی حکمران کمیونسٹ پارٹی کے مرکزی کمیٹی کے رکن اور وزیر لیوجیان چاؤ نے کہا کہ پاکستان اور چین کے اداروں اور سیاسی جماعتوں کو مل کر چلنا ہوگا، ترقی کے اہداف حاصل کرنے کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے، چینی وزیر نے پاکستان میں چینی شہریوں کی سیکیورٹی بڑھانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ سیکیورٹی اور کاروباری ماحول کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف سے کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے عالمی ڈیپارٹمنٹ کے وزیر لیو جیان چاؤ کی سربراہی میں وفد نے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار ، اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر بھی موجود تھے۔ چینی وزیر نے بتایا وزیراعظم شہباز شریف کا حالیہ دورہ کامیاب رہا۔ چین، پاکستان کی اقتصادی ترقی کی حمایت جاری رکھے گا اور سی پیک کے اپ گریڈ ورژن کے لیے مشترکہ کام کرے گا۔ اقتصادی راہداری پر دونوں ممالک میں مکمل سیاسی اتفاق رائے ہے، ہم اس کے دوسرے مرحلے پر عملدرآمد کے لیے تیار ہیں۔
وزیراعظم پاکستان نے مزید کہا کہ پاک، چین دوستی وقت کی ہر آزمائش پر پورا اتری ہے۔ ہماری دوستی دونوں ممالک ، خطے اور عالمی امن و ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔ سی پیک کے جاری اور نئے منصوبوں کی جلد تکمیل اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کرے گی۔اس ضمن میں خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل چینی سرمایہ کاری کے حوالے سے ہر ممکن سہولیات فراہم کر رہی ہے ۔ملاقات میں حکومتی و کاروباری شراکت داری بڑھانے پر اتفاق کیا گیا۔
وزیراعظم نے چینی وفد کے اعزاز میں عشائیہ دیا۔ انھوں نے ٹویٹ کیا پاکستان اور چین کے درمیان سدا بہار اسٹرٹیجک تعاون سی پیک کی اپ گریڈیشن کے ساتھ نئے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے۔ وزیراعظم نے برآمد کنندگان کے وفد سے ملاقات میں کہا برآمدات ملکی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں، برآمدات اور جی ڈی پی کا تناسب بڑھائیں گے۔ صنعت کاروں اور تاجروں کو سیلز ٹیکس ریفنڈ کی بروقت ادائیگی یقینی بنا رہے ہیں۔ وزیراعظم نے ان کے مسائل حل کرنے کے لیے وفاقی وزرا کو مشاورت کرنے کی ہدایت کی۔
وفد نے صنعتوں کے لیے بجلی کے نرخ میں کمی پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ٹیکس چوروں کو سزا دلوانے کے حوالے سے حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ وزیراعظم سے گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے بھی ملاقات کی۔ انھوں نے سی پیک کی ڈیرہ اسماعیل خان سے آگے توسیع، ڈیرہ اسماعیل خان میں نئے انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر کام کے آغاز اور چکدرہ چترال روڈ سمیت دیگر ترقیاتی منصوبوں پر بھی گفتگو کی۔
سی پیک کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کے اہم رہنماؤں کو چینی کمیونسٹ پارٹی کے عالمی ڈیپارٹمنٹ کے وزیر اور ان کے وفد سے ملاقات کے دوران بہت سے حقائق کا پتہ چل گیا ہو گا۔ ادھر وزیراعظم کو بھی حقائق کا اچھی طرح علم ہے۔ سب سے اہم بات سیکیورٹی اور سیاسی استحکام سے جڑی ہوئی ہے۔ یہ بات طے ہے کہ جب تک پاکستان کے اندر ایک مضبوط ومربوط بااثر اور امیر طبقہ دہشت گردی کے حوالے سے سنجیدگی اختیار نہیں کرے گا، انتہاپسندی اور دہشت گردی کی بناوٹی مخالفت کرے گا اور درپردہ انتہاپسندی کی سرپرستی جاری رکھے گا اور دہشت گردوں کی سہولت کاری سے باز نہیں آئے گا، پاکستان میں سیاسی استحکام آ سکتا ہے اور نہ ہی معیشت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔