داخلی سلامتی

سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر لاہور میں دہشتگرد حملہ بھی اسی مناسبت سے کیا گیا تھا...


اکرام سہگل June 26, 2014

پاکستان ملٹری اکیڈمی (پی ایم اے) کے 34 ویں سری لنکن کورس کے ساتھیوں کے عزم صمیم جرات و شجاعت اور قربانی پر سب کو فخر ہے جس طرح انھوں نے 25 سال تک دہشتگردی کا مقابلہ کیا جو کہ سری لنکا کا تاریک ترین دور تھا۔

میرے اچھے دوست میجر جنرل (لکی) وجے آراتنے' جو تب پناگوڈا میں فرسٹ سری لنکا لائٹ انفنٹری (ایس ایل آئی) کی کمان کر رہے تھے تو انھوں نے مجھے بھی اپنی بٹالین میں شامل کر لیا تاہم ایک جھڑپ کے دوران وہ ہلاک ہو گئے جب پرابھا کرن اور اس کے تامل ٹائیگرز کے بچے کھچے ساتھیوں کو سری لنکن فوج نے 2009 میں بالآخر ایک جگہ پر گھیر لیا تو بھارتی وزیر داخلہ نے مطالبہ کیا کہ حملہ روک دیا جائے تا کہ ان لوگوں کو جان بچانے کا محفوظ راستہ مل جائے لیکن وہ ان خونخوار لوگوں کو مکمل طور پر تہس نہس کر دینا چاہتے تھے جنہوں نے جزیرے کی اس جنت کو جہنم زار میں تبدیل کر رکھا تھا جس میں انھیں بھارت کی خفیہ ایجنسی ''را'' (ریسرچ اینڈ انالٹیکل ونگ) کی مدد حاصل تھی لہٰذا سری لنکا نے صاف انکار کر دیا۔

سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر لاہور میں دہشتگرد حملہ بھی اسی مناسبت سے کیا گیا تھا اس کا مقصد کھلاڑیوں کو ہلاک کرنا نہیں تھا بلکہ ٹیم کو اغوا کر لینا تھا تا کہ ان کی رہائی کے بدلے تامل ٹائیگر لیڈر کو آزاد کرایا جا سکے لیکن اس کا نتیجہ کہیں زیادہ نقصان دہ نکلا کیونکہ اس سے پاکستان کے لیے بین الاقوامی کرکٹ کے دروازے بند ہو گئے۔ یہ بھی محض اتفاق نہیں تھا کہ 2011میں مہران کے فضائی مستقر میں دخول کرنے والے دہشتگردوں نے بہت سے جدید اور قیمتی جنگی طیاروں کو کیوں نظر انداز کر دیا اور خاص طور پر پی3 سی اوریئن طیارے کو ہی کیوں اپنا نشانہ بنایا جو کہ بھارت کے حوالے سے اہمیت رکھتا تھا حالانکہ وہ کافی دور کھڑا تھا۔

را کی ریشہ دوانیاں بلوچستان میں جاری ہیں' افغانستان کی انٹیلی جنس ایجنسی کو بھی را ہی کنٹرول کرتی ہے جس کے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ روابط ثابت ہو چکے ہیں۔ ٹی ٹی پی کے نمبر2 لطیف محسود کو افغان انٹیلی جنس ایجنٹ کرزئی سے ملوانے کے لیے لے کر گئے جسے امریکی اسپیشل فورسز نے پکڑ رکھا تھا اور اسے باگرام میں قید کیا گیا تھا۔ آخر کرزئی نے اس قدر شدت کے ساتھ اس کی رہائی کا مطالبہ کیوں کیا تھا؟ اور مولانا فضل اللہ کو پناہ کون دے رہا ہے اور اس کی حمایت کر رہا ہے؟ ازبک دہشتگرد کس کے لیے کام کر رہے تھے؟ مجھے معاف کیجیے اگر میں کچھ مشکوک محسوس ہو رہا ہوں۔

اگر ایئر پورٹ سیکیورٹی فورس (اے ایس ایف) کے ہلکے ہتھیاروں والے افسران دہشتگردوں کو روکنے میں کامیاب نہ ہو جاتے تو کراچی ائیر پورٹ پر جو بہت سے طیارے پرواز کے لیے تیاری کر رہے تھے تو اس قدر زیادہ جانی نقصان ہوتا اور اتنی بڑی تباہی ہوتی جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ایک جعلی جھنڈے کے ساتھ داخل ہونے والے کرائے کے قاتل ازبک دہشتگردوں کا مقصد بے حد خطرناک تھا۔

غیر ملکی فضائی کمپنیاں اس بات سے قطع نظر کہ وہ بے پناہ منافع کماتی ہیں جس کا خمیازہ پی آئی اے کو بھگتنا پڑتا ہے جب کہ ہماری فضائی حدود کی پالیسی میں بھی کچھ جھول ہیں لیکن اگر کراچی ائیر پورٹ پر ان کا حملہ کامیاب ہو جاتا تو ہماری تمام فضائی سروس فوری طور پر ہی بند کر دی جاتی۔ اب پشاور ایئر پورٹ پر اترنے والے پی آئی اے کے طیارے پر فائرنگ کر کے ایک خاتون مسافر کو ہلاک کرنے سے صاف پتہ چلتا ہے کہ کوئی طاقت پاکستان کو دنیا بھر میں تنہا کر دینے کے لیے کس قدر بے تاب ہے جب کہ کراچی میں کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب کوئی نہ کوئی تباہ کاری نہ ہوتی ہو اور جس سے دشمن فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرتے ہوں۔

ناجائز طریقے سے اکٹھی کی گئی دولت کے حامل ہمارے نام نہاد متکبر وی آئی پی حضرات اور جمہوری طور پر منتخب شدہ سیاسی اشرافیہ جو نجی سیکیورٹی کا خرچ برداشت کر سکتی ہے اور جو اپنی نقل و حرکت کے لیے شہروں کی تمام سڑکیں بند کرا دیتی ہے اور ان کے ساتھ پولیس اور رینجرز کا پورا کارواں چلتا ہے موبائل گاڑیوں کی لائٹیں جل بجھ رہی ہوتی ہیں اور سائرن پوری شدت سے بج رہے ہوتے ہیں۔ اگر مقامی پولیس ان کے احکام کی بجا آوری میں چھوٹی سی کوتاہی بھی کرے تو ان کو نہ صرف دھمکایا جاتا ہے اور تبادلہ کر دیا جاتا ہے بلکہ ملازمت سے برطرفی بھی عمل میں آ جاتی ہے۔

پولیس افسران کو جب ان کے اصل فرائض منصبی سے ہٹا کر کسی دوسرے کام پر لگایا جائے تو ان کا کردار غیر اہم ہو جاتا ہے جس کے عام شہریوں کی سیکیورٹی اور املاک کی حفاظت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اس سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے اس سے وہ کسی ناموافق صورت حال میں فوری ردعمل ظاہر کرنے سے قاصر ہو جاتے ہیں مزید برآں وہ مختلف علاقوں میں موجود دہشتگردوں کو تلاش کرنے یا ان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کرنے کے قابل بھی نہیں رہتے۔

دہشتگردوں کے خفیہ ٹھکانوں' ان کو ملنے والے پیسوں' اسلحہ اور گولہ بارود' کمک' وردیوں' گاڑیوں اور سڑکوں بازاروں پر نقل و حرکت کے محفوظ ذرایع کے بارے میں ذمے داری' قانون نافذ کرنے والے صوبائی اداروں (ایل ای ایز) کی ہوتی ہے اس سے وفاقی حکومت اور ان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کا کوئی خاص لینا دینا نہیں ہوتا اور جب رینجرز' پولیس اور آرمی خاصی تیزی سے جوابی کارروائی کرتی ہیں اور خوش قسمتی سے انھیں دوست دشمن کی پہچان بھی جلد ہو جاتی ہے اور رات کے اندھیرے میں دھوئیں اور ابہام میں بھی ہونے والی ہلاکتوں کا درست اندازہ لگا لیا جاتا ہے اور ہمیں احساس ہوتا ہے کہ کسی کو تو ہمارے تحفظ کا خیال ہے۔

کراچی ایئر پورٹ کے واقعہ سے جو سبق سیکھے گئے(1) کمان کی یکجہتی کا عدم وجود (2) انٹیلی جنس کے حصول اور اس میں شراکت کی کمی۔ (3) مناسب ہتھیاروں' آلات گاڑیوں اور ہلکے ہیلی کاپٹروں وغیرہ کی کمی (4) تربیت یافتہ افرادی قوت جو کہ حساس مقامات کی حفاظت کے لیے ہو اس کی بھی کمی ہے (5) کئی مرتبہ ایک ہی کوشش کو دہرا دیا جاتا ہے (6) بیورو کریسی کی مداخلت اور ایل ای اے کی مالیاتی ضروریات' اور ہر ممکنہ حساس مقام پر آگاہی پہنچانا اور ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں اسے اپنی کامیابی پر محمول کریں۔ قابل عمل انٹیلی جنس میں شراکت کے بغیر دہشتگردی کا توڑ نہیں کیا جا سکتا۔

حساس اثاثے جیسے کہ بندر گاہیں' ہوائی اڈے وغیرہ ان کو ایک مشترکہ کمان کے تحت آنا چاہیے جو کہ انتظام' منصوبہ بندی اور تربیت فراہم کرنے کی حامل ہو نیز خود حفاظتی کے ساتھ تک انسداد دہشت گردی کا فوری جواب دینے کی صلاحیت کے حامل ہوں۔ سرکاری اثاثے (ہوائی اڈے) اور فضائی مستقر (ائیر بیس) اگرچہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں مگر ان کے حفاظتی انتظامات میں یکسانیت ہونی چاہیے۔ فی الوقت ہمارا حفاظتی ردعمل اور بچائو یا تحفظ کی کوششیں ادھوری ہیں حتی کہ آرمی کے ڈیفنس سیکیورٹی گارڈ (ڈی ایس جی) انھیں بھی انفنٹری کے لڑاکا یونٹوں کی مدد کی ضرورت پڑتی ہے جو عارضی انتظام ہوتا ہے یہاں سوال یہ ہے کہ کیا متاثرہ کور کے ڈویژنل اور بریگیڈ کمانڈر لڑاکا دستوں کی اس تقسیم پر مطمئن ہیں؟

سرحدوں اور داخلی سلامتی کی فورسز جیسے پنجاب اور سندھ میں رینجرز کے پی کے اور بلوچستان میں فرنٹیئر کور (ایف سی) اور ایف آئی اے امیگریشن وزارت داخلہ کو رپورٹ کرتی ہیں اے ایس ایف ہوا بازی ڈویژن کو اور انسداد منشیات فورس (اے این ایف) وزارت انسداد منشیات کو رپورٹ کرتی ہیں۔ ان سب کے اوپر آرمی ہوتی ہے ان سب کے ایک سے زیادہ ذمے دار ہوتے ہیں سوائے امیگریشن کے۔ کمانڈ کے مختلف چینل ابہام پیدا کرتے ہیں نیز ایک ہی کام ایک سے زیادہ بار ہو جاتا ہے۔

ہوم لینڈ سیکیورٹی کمانڈ جس میں کہ ڈی ایس جی بھی شامل ہے وہ ایک بہت پر خلوص اور موثر اکیلی کمانڈ ہونی چاہیے۔ جس کے کنٹرول کا مکینکی نظام اور حساس اثاثوں کے تحفظ اور انسداد دہشت گردی کا نظام مضبوط ہونا چاہیے جس کی سربراہی تین ستاروں والے ایک سینئر جرنیل کے ہاتھ ہو ترجیحاً ایسا شخص جس کو جنگجوئی اور داخلی سلامتی کے بارے میں وافر تجربہ حاصل ہو۔ اس کو فوری طور پر بندر گاہوں ہوائی اڈوں' فضائی فوجی اور بحریہ کے اڈوں وغیرہ کی حفاظت کی ذمے داری سونپ دی جائے۔ رینجرز اور ایف سی کو داخلی سلامتی کی اپنی اپنی ذمے داری علیحدہ علیحدہ کرنی چاہیے اور سرحدوں کی حفاظت کے لیے علیحدہ دستے ہونے چاہئیں۔ این اے سی ٹی اے کو ایک لازمی حصہ ہونا چاہیے اور ایک انسداد دہشت گردی فورس (سی ٹی ایف) بھی اسی کمان کے اندر تشکیل دی جانی چاہیے۔

کمان کی یکجہتی کو انٹیلی جنس کی خصوصیت کے ساتھ شامل کرنے سے اور افسروں ہتھیاروں کے دیگر آلات کو ایک وحدت کے سپرد کرنے سے نہ صرف اخراجات کی بچت ہو سکتی ہے بلکہ ایک ہی چیز کے بار بار وقوع پذیر ہونے کا احتمال بھی ختم ہو جائے گا لیکن یہ کام صرف زبانی جمع خرچ سے نہیں ہو گا بلکہ اس کے لیے ایک موثر کائونٹر بنایا جانا چاہیے جو ملک کو درپیش دہشتگردی کے خطرے کا مثبت انداز سے مقابلہ کر سکے۔

(مضمون نگار ایک قابل تکریم دفاعی اور سلامتی تجزیہ کار اور پاتھ فائنڈر گروپ کے چیئرمین اور ایسٹ ویسٹ انسٹی ٹیوٹ (ای ڈبلیو آئی) کے ڈائریکٹر جنرل ہیں۔)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں