طالب کی نظر نہیں بدلتی

راگ، محبوب کو رجھاتا ہے۔ موسیقی اس کے دل کی بنجر زمین کو نرم کرتی ہے


Shabnam Gul June 26, 2014
[email protected]

موسیقی کا اتار چڑھاؤ انسان کے جذبات اور روح پر خوشگوار اثر مرتب کرتا ہے۔ موسیقی، روح کی آبیاری ہے۔ وجد کی انوکھی کیفیت ہے جو ایک ایسی بے خودی میں مبتلا کر دیتی ہے، جہاں وجود کا نشان مٹ جاتا ہے۔ خود کو فراموش کرنے والے یہ لمحے روحانی تازگی عطا کرتے ہیں۔

خود کو کھو کر دوبارہ اپنا سراغ پا لینا، ایک ایسی روحانی رمز ہے، جس کا شاہ لطیف بار بار ذکر کرتے ہیں۔

گائک نے چنگ میں، گھنگھرو باندھے تھے اور تسمے کے پھول۔ چند ہی لوگ تھے جو اس بھید کو پا سکے اور رمز پا کے پارس بن گئے۔

راگ، محبوب کو رجھاتا ہے۔ موسیقی اس کے دل کی بنجر زمین کو نرم کرتی ہے۔ سُر پیار کے بیج بوتے ہیں اور ہوائیں اس گیت کا پیغام اہل نظر تک پہنچاتی ہیں۔ ہر نظر میں آس کی آنچ پرو کر موسیقی راستوں کا بھید کھولتی ہے۔ شاہ صاحب خود تنبورہ بجاتے۔ جس کی انگلیاں ساز کے تاروں کو چھیڑتی ہیں، وہی سروں کی برکھا کو سمجھ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کائنات کے سُر بھی اس کے من میں بسیرا کیے رہتے ہیں۔ اور اس کی نسیں جذبوں کی تپش کے ساتھ رباب کی طرح بجتی ہیں۔

یہی سماں شاہ عبداللطیف بھٹائی کے مزار پر دکھائی دیتا ہے، جب فقیر ان کا کلام گاتے ہیں۔ خیال اور وجود ہم آہنگ ہو جاتے ہیں۔ یورپ کے شمن (روحانی معالج) مختلف سازوں سے وہ بھی تہواروں پر ایک سماں سا باندھ دیتے ہیں۔ یہ الوہی خمار کی کیفیت حضرت لعل شہباز قلندر کے احاطے میں ہونے والی دھمال میں بھی محسوس ہونے لگتی ہے۔ جن کا 762 واں عرس مبارک سیہون شریف میں منایا گیا۔ پل بھر کے لیے ہی راز ازل سے جڑ جانا، زندگی کی سچائی کے قریب کر دیتا ہے۔ یہ انوکھا اظہار عشق بھٹائی کی مزار پر رقصاں رہتا ہے۔ دوئی کی آگ میں جلتی قوم کو ایسے پیغام کی بارہا ضرورت ہے۔ یہ شعور کی منتقلی ہے۔

طبعی دنیا سے روح کی دنیا تک۔ پہلے دل کی دھڑکنیں مدھم ہوتی چلی جاتی ہیں پھر تیز تر۔ پھر ڈھول کی آواز تیز تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ لوگ ذات سے باہر نکل جاتے ہیں۔ خیال کے سفر پر روانگی کا وقت آ جاتا ہے۔ جو بادلوں کے اس پار لے کر جاتا ہے۔ کبھی پہاڑوں کے قریب تر کر دیتا ہے۔ یہ Trance Dancing رقص بے خودی کہلاتا ہے۔ اس کی کیفیت بہتے پانی کی سی ہے، جو سب سے جدا کر دیتی ہے۔ پھر دل کے سرور سے آہنگ ہو جاتی ہے۔ ارتعاش کے بعد پھر سکوت چھا جاتا ہے ہر طرف۔ یہ کیفیت رومی کے مزار پر لوگ محسوس کرتے ہیں۔ اس ملک کے تمام تر صوفی شاعروں کے مسکن فکر انگیز کلام سے گونجتے ہیں۔ وجد کی کیفیت جو ہم کھو بیٹھے ہیں۔ اور انتشار کا ہاتھ تھام کر ایک ہی سمت دوڑے چلے جا رہے ہیں۔

آج شاہ جو رسالو کے تیسرے سُر کھمبات پر بات ہو گی جو گجرات کے شہر کا نام ہے۔ یہ راگنی وہاں کے موسیقار نے ترتیب دی ہے۔ اس راگنی کو کھماچ بھی کہتے ہیں۔ رات جب گہری ہونے لگتی ہے تو دوسرے پہر میں یہ گائی جاتی ہے۔ مجاز اور عشق حقیقی دونوں کا امتزاج ہے۔ جس میں چاند راتوں کی سحر انگیز کشش کا ذکر سننے والے کو مسحور کر دیتا ہے۔ سورج چاند ابھرتے ہیں لیکن ساجن بِن سب ماند ہیں۔ من پسند خوبصورت چہرا سامنے نہ ہو تو، تاریکی ہی تاریکی ہر سو دکھائی دیتی ہے۔ کیونکہ رفاقتیں روح کی تقویت اور دل کا اطمینان ہیں۔ نظر کو حسن سے خیال کی گہرائی ملتی ہے۔ یہ حسن آتش ہے، جس سے طالب کے دل میں ہمہ وقت اجالا رہتا ہے۔ یہ وہ دیا ہے، جو تیز ہواؤں میں بھی جلتا رہتا ہے۔

چاند نہ ہو بدظن، کہوں میں سچی بات

آج ہے مدھم، کل کو تجھ پر چھائے گا جوبن

کب ہے تجھ میں شان میرے ساجن جیسی

چاند خوبصورتی کا استعارہ ہے اور محبوب بھی سراپا روشنی ہے۔ لہٰذا چاند میں اس کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ چاند موسموں کی تحویل میں ہے، دنوں کے ساتھ بدلتا ہے۔ مگر طالب کی نظر نہیں بدلتی۔ وہ ایسا جوہری ہے، جو ہیرے کی پہچان رکھتا ہے۔ اس کی پرکھ کا پیمانہ دنیا والوں سے مختلف ہے۔ دنیا نظریوں اور ترجیحات کے پلڑے میں رشتوں کو تولتی ہے۔ محبت اور دوستی گر مشروط ہو تو محبت کی نگاہوں کا رخ بھی بدلنے لگتا ہے۔ لہٰذا خوبصورتی نظر میں ہے۔ پھر طلب کا دائرہ کہیں محدود نہیں ہوتا۔ یہ فاصلوں کو مات کر دیتا ہے۔ اس روشنی سے وجدان کو جلا ملتی ہے۔ نظر سے سارے پردے گر جاتے ہیں۔ اور فاصلے بے معنی ہو جاتے ہیں۔

کیسے میں ٹھہراؤں چندا! تجھ کو برابر پی کے

تو تو رات کو چمکے' پریتم تو ہر آن ہے روشن

لیکن انسان ذات کے مغالطے میں محبت کے سچ کو سمجھ نہیں پاتا۔ سوچ کا ابہام شک کو جنم دیتا ہے۔ سوچ بدلتی ہے تو محبت کا معیار بھی بدل جاتا ہے۔ کمی انسان کی اپنی ذات میں ہوتی ہے۔ پھر وہ اس من کے کھوٹ کو محبت سے منسوب کر دیتا ہے۔ لفظوں کے اختراع میں وہ محبت کو کھو دیتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم محبت کرنے کا سلیقہ بھول چکے ہیں۔ ہم اپنے نظریوں سے محبت کرنے لگے ہیں۔ ہماری محبت مشروط ہو چلی ہے۔ ہم زباں، رنگ اور نسل سے محبت کرتے ہیں، انسانیت کا مذہب بھول چکے ہیں۔ مگر طالب غیر مشروط محبت کرتا ہے۔ وہ ذات کی محبت کے دائرے سے باہر نکل جاتا ہے لہٰذا طالب کی نظر نہیں بدلتی۔ محبت میں برداشت کا ہنر ہے۔ یہ خامیاں دیکھ کے بھی رخ نہیں بدلتی۔

اس سر میں شاہ صاحب انسان کے من کو اونٹ سے تشبیہہ دیتے ہیں۔ اونٹ مہکتے پھول و پتے چھوڑ کر کڑوے کسیلے جنگلی پودے کھاتا ہے۔ نفس انسانی ہمیشہ بدی کی قوتوں سے معاہدہ کرتا ہے۔ یہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ اپنے مفاد کی خاطر اخلاقی قدروں کو ٹھوکر مار دیتا ہے۔ لیکن یہ عارضی خوشی ہے۔ جیسے اونٹ کے لیے قیمتی مالا، ریشمی مہار بے قیمت ہے۔ وہ فقط طویل صحرا کا راستہ تندہی سے پار کرتا ہے۔

پیٹھ پر لدا بوجھ خوشدلی سے اٹھاتے ہوئے اپنی منزل کی طرف چلتا رہتا ہے۔ اونٹ طویل سفر کی تمثیل ہے۔ وہ ایک رہنما ہے۔ مشکل راستوں کا ہم سفر ہے۔ اونٹ کی خاصیتوں میں برداشت، تحفظ، تعمیل، سہولت، عظمت، انکساری اور خدمت گزاری شامل ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ نفس انسانی کو جب سیدھے راستے پر سفر کرنا ہوتا ہے، تو وہ راستہ صحرا کی طرح طویل، خشک اور کٹھن نظر آتا ہے۔ اس پر سفر کرنے کے لیے برداشت، انکساری اور سعادت مندی کا ہونا ضروری ہے۔

ناقہ بے مہار پر عائد لاکھ پابندیاں ہوں سب بیکار

ایسی بیلوں کی اس کو عادت ہے' زہر ہے جن کا باعث آزار

شاہ صاحب سفر کے رسیا تھے۔ سفر، زندگی کے سچ اور حقیقت کے قریب لے کر جاتا ہے۔ جو مشکل ترین راستوں پر سفر کرتے ہیں۔ ان کے پاؤں آبلہ پائی کا ہنر رکھتے ہیں۔ سفر کی صعوبتیں سہنے والا اندر سے نرم، حلیم اور بردبار ہو جاتا ہے۔ یہ ذات کی کھوج کا سفر ہے۔ یہ وہ منزل ہے، جہاں اپنے اور پرائے کا فرق مٹ جاتا ہے۔ قربت، فاصلوں کو شکست دے ڈالتی ہے۔ تفریق مٹ جاتی ہے کیونکہ یکجہتی زندگی کا جوہر ہے۔ زندگی کے دقیق فلسفے کی سمجھ یہ راستے عطا کرتے ہیں۔ کھمبات پہنچ کر شاہ صاحب نے سروں کی انوکھی دنیا دریافت کی۔

یہی کھمبات کا جزیرہ ہے

ڈالو چاروں طرف نظر، دیکھو

ہر طرف دعوت تماشا ہے

حسن مطلق کو جلوہ گر دیکھو

انسان اگر اپنے اندر کو محبت کی مٹھاس سے بھرلے تو نفرت کی کڑواہٹ بھی شیرینی میں بدل جاتی ہے۔ زندگی خود سے معنی نہیں رکھتی۔ زندگی کی مالا میں خلوص و محبت کے پھول پرونے پڑتے ہیں۔ پھر وہ تا حیات مہکتی ہے۔

یہیں کہیں ہے میرا ساجن ' اس تارے کے پاس

سرتا پا ہے مٹھاس' ذرا نہیں کڑواہٹ

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں