یوم نکسہ سے مقاومت اسلامی کی فتح تک

6 روزہ جنگ جو 5 جون کو شروع ہوئی، 10جون کو اس وقت ختم ہوئی جب اسرائیل نے بیت المقدس ۔۔۔


Irfan Ali June 26, 2014

فلسطین کی تاریخ میں مئی کا مہینہ آفت و مصیبت کے دن یوم نکبہ کی تلخ یادیں ساتھ لاتا ہے تو جون کا مہینہ نکسہ دوم کے المناک ایام کے مناظر فراموش ہونے نہیں دیتا۔ نکبہ وہ آفت و مصیبت کا دن تھا جب فلسطین کی مقدس سرزمین پر صہیونیوں نے دہشت گردی کے ذریعے ناجائز قبضہ جما کر ایک ریاست قائم کی تھی۔ مئی1948 میں یہ سانحہ رونما ہوا۔ لاکھوں فلسطینیوں کو یا قتل کر دیا گیا یا اپنے آبائی وطن کو بے سروسامانی کی حالت میں چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔ ٹھیک 19 سال بعد 1967میں جون کے مہینے میں نسل پرست ریاست نے فلسطینیوں پر ہی نہیں بلکہ دیگر تین مسلمان عرب ممالک پر بھی یکطرفہ جنگ مسلط کر دی۔

6 روزہ جنگ جو 5 جون کو شروع ہوئی، 10جون کو اس وقت ختم ہوئی جب اسرائیل نے بیت المقدس سمیت کئی فلسطینی علاقوں کو اپنے کنٹرول میں لے لیا اور شام، مصر اور اردن کے سرحدی علاقوں پر بھی قبضہ کر لیا۔ اسی جنگ میں صہیونی ریاست اسرائیل نے غزہ، بیت اللحم، الخلیل، جنین اور نابلس پر بھی قبضہ کیا تھا۔7 جون کو اسرائیل نے سیز فائر قبول کرنے کا اعلان کیا لیکن اس کے باوجود 9 جون کو شام کے علاقے جولان کے محاذ پر جنگ چھیڑی اور اگلے دن یعنی 10 جون کو جولان کے پہاڑی علاقے پر قبضہ کرنے کے بعد سیز فائز قبول کر لی۔ یہ سب کچھ اقوام متحدہ کی ناک کے نیچے ہو رہا تھا لیکن سلامتی کونسل اسرائیل سے اپنی ہی قرارداد پر عمل نہ کروا سکی۔ امریکا کا کردار ہمیشہ کی طرح منافقانہ تھا۔ صہیونی ریاست نے امریکی حکومت کو پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا کہ وہ جنگ لڑے گا۔

اسرائیل نے اسی جنگ میں بیت المقدس جو مشرقی یروشلم میں واقع ہے پر ناجائز قبضہ کر لیا۔ مغربی یروشلم پر اس نے 1948کی جنگ میں ہی قبضہ کر لیا تھا۔ ناجائز صہیونی ریاست اس پورے یروشلم شہر کو کہ جس میں القدس اور مسجد اقصیٰ بھی واقع ہیں، اپنا دارالحکومت قرار دیتا ہے۔ اس کی نسل پرست کنیسیٹ نامی پارلیمنٹ بھی یروشلم میں ہی ہے۔ اس کے دہشت گرد صدر اور وزیر اعظم کے مکانات و دفاتر بھی اسی شہر میں ہیں ۔ کہنے کو یہ شہر انٹرنیشنل کنٹرول میں ہونا چاہیے لیکن انٹر نیشنل کمیونٹی کے نمایندہ ادارے اقوام متحدہ کا سیکریٹری جنرل ہو یا امریکا یا برطانیہ کے حکمران، یہ سب صہیونی صدر اور وزیر اعظم سے اس شہر میں ملاقات کرتے ہیں ، یہ عمل بذات خود اس قانون کی دھجیاں اڑانے کے مترادف ہے کہ جس قانون کو یہ دنیا پر نافذ کرنا چاہتے ہیں لیکن خود اس پر عمل نہیں کرتے۔

1967 کی 6 روزہ جنگ میں صہیونیوں نے پورے کے پورے فلسطین پر قبضہ کر لیا۔ فلسطینیوں کو ایک اور نکبہ کا سامنا تھا لیکن آفت و مصیبت کے اس نئے مرحلے کا نام انھوں نے یوم نکسہ رکھا۔ نکسہ یعنی سیٹ بیک۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد کی عرب تاریخ کا یہ بہت بڑا سیٹ بیک یعنی دھچکا تھا۔ جمال عبد الناصر کی مصری عرب افواج پر شب خون مارنے کے بعد شام اور اردن کے فضائی اڈے چند گھنٹوں میں تباہ کر دیے گئے تھے۔ لیکن ایک عجیب اتفاق تھا کہ اس کے بعد اسرائیل کے پاس ان ممالک میں قبضے کے لیے کچھ رہ نہیں گیا تھا، بعد ازاں اس نے لبنان کا رخ کیا۔ وہاں بھی ناجائز تسلط جما لیا۔

تنظیم آزادی فلسطین اور الفتح کے ہوتے ہوئے صہیونیوں کی ان کامیابیوں نے جہاں ایک طرف عالم اسلام و عرب کو رنجیدہ کیا وہیں مسلمانان عالم کا ایک طبقہ اس کا توڑ ڈھونڈنے میں مصروف ہوا اور1982 کو حزب اللہ نام کی ایک خفیہ مزاحمتی تنظیم بنی۔ اس مزاحمتی گروہ نے امریکا و فرانس کے سامراجی عزائم ناکام کیے، ان کے فوجی اڈوں اور سی آئی اے کے نیٹ ورک کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔

حزب اللہ کی دیکھا دیکھی، فلسطینیوں نے تحریک انتفاضہ کا آغاز کیا اور اسی کے بطن سے حماس نے جنم لیا۔ فلسطین کے غیرت مند مسلمان عربوں نے حزب جہاد اسلامی بھی قائم کی اور فتحی شقاقی جیسے عظیم مجاہد پیدا ہوئے جنہوں نے جام شہادت نوش کرنا ذلت کی زندگی سے بہتر سمجھا۔ شیخ احمد یاسین اور عبدالعزیز رانتیسی جیسے قائدین حماس نے پیش کیے۔ احمد جبریل کی پاپولر فرنٹ نے بھی اپنے شہداء پیش کیے۔

شہدا پیش کرنے میں تنظیم آزادی فلسطین بھی پیچھے نہیں رہی۔ لیکن حزب اللہ، حزب جہاد اسلامی اور حماس نے مقاومت اسلامی کا جو نیا باب لبنان و فلسطین کی تاریخ میں شروع کیا، اس نے یوم نکبہ اور یوم نکسہ کے داغ دھو ڈالے۔ مئی2000 میں صہیونی قابض افواج کو جنوبی لبنان سے ذلیل و خوار ہو کر نکلنا پڑا کیونکہ اب لبنان میں حزب اللہ کا راج تھا۔ 2006 کی 33 روزہ جنگ میں اسے کوئی کامیابی نہ ملی۔ 2005 میں اسے یکطرفہ طور پر غزہ سے انخلاء کرنا پڑا۔ 2008 کی غزہ جنگ میں بھی وہ فلسطینیوں کے خلاف ناکام رہا۔

لمحہ موجود کی اس ناقابل تردید حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ عرب ملک مل کر بھی صہیونی افواج کو شکست نہ دے سکے۔ اس کے برعکس ان جنگوں میں اور معاہدوں میں صہیونی ریاست نے آج تک فلسطین پر تسلط جما رکھا ہے۔ اوسلو معاہدے کے بعد فلسطینی انتظامیہ کے عنوان سے یونین کونسل کی سطح کی خود مختاری و آزادی مغربی کنارے کے علاقے میں دے رکھی ہے۔ جی ہاں یہ یونین کونسل کی سطح کے اختیارات ہی ہیں جو محمود عباس کی فلسطینی انتظامیہ کے پاس ہیں۔

مغربی کنارے کی 61 فیصد قیمتی زمین آج بھی براہ راست صہیونی حکومت کے کنٹرول میں ہے۔ جس علاقے پر محمود عباس کا کنٹرول ہے وہاں سے بھی فلسطینیوں کو صہیونی افواج گرفتار کر کے قید کر لیتی ہے۔ اس میں نسل پرست یہودیوں کی بستیاں بھی تاحال قائم ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسی کمزوری و نا اہلی کی وجہ سے فلسطینیوں نے فلسطینی انتظامیہ کے بجائے مقاومت اسلامی کو حکومت کے لیے منتخب کر لیا تھا۔ جمہوریت اور انسانی حقوق کے دعوے کرنے والی امریکی و یورپی حکومتوں کی منافقت کھل کر سامنے آ گئی کیونکہ انھوں نے فلسطین کے عوام کے جمہوری مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیا۔

غزہ کا محاصرہ جاری رکھا گیا اور تقریباً16 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کی آبادی غزہ کو کھلے آسمان تلے جیل بنا دیا گیا۔ متواتر حملے کیے گئے۔ رفحہ کراسنگ پر زیر زمین راستے اور سرنگیں مسمار کر دی گئیں تا کہ غذا، دوا اور ایندھن کی ترسیل نہ ہو سکے۔ ان تمام تر مصائب و مشکلات کے باوجود فلسطینی ڈٹے رہے اور تا حال ڈٹے ہوئے ہیں۔ سازشوں کے باوجود لبنان کے محاذ پر حزب اللہ ثابت قدم ہے۔ مقاومت اسلامی کا اتحاد قائم ہے۔ ہم آہنگی متاثر نہیں ہوئی ہے۔

حزب اللہ کے قائد حسن نصراللہ نے درست کہا تھا کہ اب نہ کوئی نکبہ ہو گا اور نہ ہی کوئی نکسہ۔ حزب اللہ کے سربراہ نے کئی سال قبل یہ بات کہی تھی۔ غالباً 33 روزہ جنگ میں کامیابی کے بعد جشن کے موقعے پر کہی تھی۔ آج تک اس خطے کی صورتحال حسن نصراللہ کے اس عزم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔6 روزہ جنگ میں عرب دنیا کا سورما حکمران جمال عبدالناصر صہیونیت کا تکبر نہ توڑ سکا لیکن مقاومت اسلامی کے مٹھی بھر مجاہد ین نے 33 روزہ اور 22 روزہ جنگوں میں بھی صہیونیت کو سر اٹھانے کا موقع نہیں دیا۔ اور دنیا میں ایک نیا نعرہ گونجا: تیر تفنگ بمباران، ہیچ اثر ندارد، از قدرت حزب اللہ اسرائیل خبر ندارد، از قدرت حماس، اسرائیل خبر ندارد۔ تم پر سلام اے سرزمین قدس کی آزادی کی جنگ لڑنے والو! اب سیٹ بیک تمہارے دشمنوں کا مقدر ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں