غزل
کسی کی آنکھ میں کھڑکی کھلی ہے
دھنک مجھ کو جہاں سے جھانکتی ہے
جدائی کے بدن کی آگہی بھی
مجھے لمسِ محبت سے ملی ہے
اِدھر سامان سب بکھرا ہوا ہے
اُدھر گاڑی ہماری آ گئی ہے
کسی کے خواب زخمی ہو رہے ہیں
کسی کی نیند مرہم بن رہی ہے
کسی اپنے سے کیا ملنے گئے تھے؟
مرے دل چوٹ یہ کیسے لگی ہے
یہاں احساس کی آنکھیں نہیں ہیں
یہاں ہر ایک منظر بے حسی ہے
ہم آپ اپنی گواہی دیں گے عادسؔ
ہماری بات دل سے ہو گئی ہے
(امجد عادس۔ راولاکوٹ ،آزاد کشمیر)
۔۔۔
غزل
شام ہوتے ہی یہ آزار ہوا چاہتا ہے
دل کہ بس راکھ کا انبار ہوا چاہتا ہے
ایسی فرست ہے نگاہوں میں ترے جانے پر
پورا ہفتہ مجھے اتوار ہوا چاہتا ہے
آدمی آج بھی پہنچا نہیں انسان تلک
روز نوحہ کناں اخبار ہوا چاہتا ہے
سر سلامت ہی رہا چاک گریباں نہ ہوا
وار دشمن کا یہ بیکار ہوا چاہتا ہے
اس نے پہنا تھا یوں ہی آج کہیں کالا لباس
شہر پھر سارا عزادار ہوا چاہتا ہے
فکرِ فردا نے ہی مفقود کیا سارا دماغ
سوچنا اب مجھے دشوار ہوا چاہتا ہے
ذات تکمیل کی راہوں سے پرے جاتی رہی
شخص بیگانہ و بیمار ہوا چاہتا ہے
وہ جو شیراز ؔنظر آتا تھا گونگا ہم کو
حاملِ قوتِ گفتار ہوا چاہتا ہے
(شیراز جعفری۔ سکھر، سندھ)
۔۔۔
غزل
وہ خوش کلام کبھی گیان بانٹتا ہی نہیں
کہ فیصلہ تو کجا کوئی مشورہ ہی نہیں
تمہارا عشق سلامت ہے تم کو کیا معلوم
تمہارے ساتھ کوئی حادثہ ہوا ہی نہیں
کوئی دعا بھی نہ مقبول ہو سکی میری
کوئی چراغ مرا دیر تک جلا ہی نہیں
بہت سے لوگ مری کھوج میں پڑے ہوئے ہیں
کچھ ایسے لوگ مرا جن سے واسطہ ہی نہیں
میں رات پچھلے پہر خود کلام ہوتا ہوں
یہ بھید وہ ہے جو تجھ پر کبھی کھلا ہی نہیں
ابھی یہ حسن کی بارش برستی رہنے دے
مری نگاہ کا برتن ابھی بھرا ہی نہیں
(مستحسن جامی۔ خوشاب)
۔۔۔
غزل
آنکھیں عطا ہوئی ہیں تو ان میں حیا بھی ہو
دعویٰ کیا ہے پیار کا، دل میں وفا بھی ہو
کچھ بھی طلب نہیں، فقط اتنا ہے انتظار
آئیں اُدھر سے وہ، یہاں وقتِ قضا بھی ہو
دل پھینک شخص تجھ سے مخاطب ہوں کب سے میں
دنیا کا ہو چکا ہے، ذرا اب مرا بھی ہو
ہر سمت خامشی ہو، مکمل سکوت ہو
اندر کسی کے شور بہت سا مچا بھی ہو
یہ لا کے مجھ کو چھوڑ دیا کس مقام پر؟
دل میں بسے ہوئے بھی ہو، دل سے جدا بھی ہو
وہ لڑکیاں تو قابلِ عزت ہیں دوستو!
آنکھوں میں جن کے ہو حیا، سر پر ردا بھی ہو
اے ہم نشیں! تقاضا محبت کا ہے یہی
دل دے دیا ہے اُس کو تو اُس پر فدا بھی ہو
سورج نکل رہا ہے نئے سال کا عزیزؔ
محنت سے کام، ساتھ ہی رب سے دعا بھی ہو
(شارق عزیز میاں اعوان۔ نوشہرہ سٹی ،سون ویلی)
۔۔۔
غزل
سو قربتوں کی خاک میں رہتا ہے ایک ہجر
سو،قرب ِ کرب ناک میں رہتا ہے ایک ہجر
جس میں ہوا بھی ملتی ہے سر چوم کر گلے
ایسے ہر اک تپاک میں رہتا ہے ایک ہجر
یوں بھر کے آہ ہتکِ ملاقات تو نہ کر
آہوں سے اشتراک میں رہتا ہے ایک ہجر
یعقوب جس کو چھوتے ہی یوسف سے ہوں قریب
اس نور ور پوشاک میں رہتا ہے ایک ہجر
مت شبنمی وجود کی مٹی سے دل لگا
اس بھر بھری کے چاک میں رہتا ہے ایک ہجر
خیرات جو نہ مانگ سکے دید ِ یار کی
اس الفتِ سفاک میں رہتا ہے ایک ہجر
ساگرؔ سے رسم و راہ کے شوقین جان لیں
ہر وقت میری تاک میں رہتا ہے ایک ہجر
(ساگر حضورپوری۔ سرگودھا)
۔۔۔
غزل
الجھا ہوا ہر ایک یہاں سازشوں میں ہے
رشتے سے منسلک ہے مگر رنجشوں میں ہے
اک شام ہجر کی مری آنکھوں میں آ بسی
اک لمس کا وجود مری انگلیوں میں ہے
پلکیں جھپکنا بھول گئی اس کی یاد میں
یعنی عجب نشہ سا مرے رتجگوں میں ہے
طے کر رہی ہوں ایسے ترے ہجر کی خلیج
قربت زدہ خمار تری دوریوں میں ہے
موسم کبھی خلوص میں حائل نہیں ہوئے
اک شخص میرے ساتھ بدلتی رتوں میں ہے
یہ تو کھلا کہ پشت بھی محفوظ اب نہیں
اب دیکھنا ہے کون ہماری صفوں میں ہے
اس درجہ خوبرو تو نہیں ہے مرا وجود
یہ کون روبرو مرے ان آئینوں میں ہے
دل میں مچل رہا ہے ثمینہ ؔحسین راگ
نغمہ صفت بہاؤ ابھی پا نیوں میں ہے
(ثمینہ سید۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
مجھے اپنے آپ کو ڈھونڈنا ہے خدائے کُل کی بشار میں
سو نکل پڑا ہوں دوام سے کسی ان کہی کے خمار میں
کوئی چل دیا تو خبر ہوئی کہ وہ اپنی ہستی بچا گیا
میں اگر سفر پہ نکل گیا تو ملوں گا دشتِ غبار میں
مرے ہمنوا یہ تری نگاہ کا فیض ہے ترے پاس ہوں
میں نوائے بلبلِ خوش گلو ہوں ترے حسین حصار میں
میں چلا ہوں دربدری لئے کسی خوش نوا کے ترنگ میں
جو پکارتا ہوں تو کچھ نہیں مری خامشی کے دیار میں
سرِ رنگ میری عبادتیں ہیں، جبین گھسنے کی دیر ہے
وہ نکل پڑے گا صنم کدے سے پکار لے گا قرار میں
وہ جو پتی پتی بکھر گیا کوئی پھول تھا کسی رنگ کا
جو دنوں کی پھیر میں آگیا، وہ بہت کھلا تھا بہار میں
میں نے ایک سجدہ نہیں کیا ہوئیں سب عبادتیں رائیگاں
جو نکل پڑا ہوں تو کچھ نہیں مری زندگی کی قطار میں
(زاہد خان۔ پہاڑپور، ڈیرہ اسماعیل خان)
۔۔۔
غزل
وہ محنت کا پھل ہے بھائی
ہر مشکل کا حل ہے بھائی
وقت ہی تھا نا؟ پھر دے دیں گے!
کیوں ماتھے پر بل ہے بھائی
ہمت کر کے آگے نکلو
آج سے بہتر کل ہے بھائی
پیڑوں کی چھاؤں میں رہ لو
آگے سب دلدل ہے بھائی
نازک؟ تھوڑا کم پڑتا ہے
وہ ساری مل مل ہے بھائی
رکھوالوں سے بچ کے رہنا
جنگل تو جنگل ہے بھائی
(عظیم کامل۔ جام پور)
۔۔۔
غزل
ایک رونق جو ہے چہرے پہ عیاں عید کے دن
کون سمجھے گا مرا دردِ نہاں عید کے دن
محفلیں، رنگ، ہنسی، باغ و بہارِ عشرت
ہم فقیروں کے لیے راس کہاں عید کے دن
لوگ تو جشن منانے میں مگن ہوتے ہیں
کون سنتا ہے یتیموں کی فغاں عید کے دن
آہ!کچھ ایسے بھی ہمسائے میں گھرہیں کہ جہاں
آگ جلتی ہے، نہ اٹھتا ہے دھواں عید کے دن
کاش! اُن درد کے ماروں کی خبر لے کوئی
جن پہ چھایا ہے قیامت کا سماں عید کے دن
جشن کرتا ہوا اطراف میں لوگوں کا ہجوم
غم کے ماروں پہ گزرتا ہے گراں عید کے دن
رشک کر تے ہیں مقدر پہ ہزاروں صادقؔ
توہے خوش بخت، ترے ساتھ ہے ماں عید کے دن
(محمد ولی صادق۔ کوہستان ،خیبرپختونخوا)
۔۔۔
غزل
جو کٹ سکے نہ کسی سے وہ سر بناتے ہیں
دلوں میں کس لیے کچھ لوگ ڈر بناتے ہیں
اُنھیں کی آنکھ میں آنسو دکھائی دیتے ہیں
جو خواہشات کی دنیا میں گھر بناتے ہیں
پھر اُس کے بعد کہانی کی شکل دینی ہے
سو پہلے خواب کے دیوار و در بناتے ہیں
کسی کے لمس کی خوشبو ہمیں ستاتی ہے
کبھی توبات یہ صیّاد تک بھی پہنچے گی
ہم آئینوں پہ پرندوں کے پر بناتے ہیں
کسی کا عکس ذرا جھوم کر بناتے ہیں
شبِ سیاہ سے ڈرنا نہیں ہے تُو نے اب
لے جگنوؤں سے ترے گھر سحر بناتے ہیں
(اسد علی باقی۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
خود ہی محبوب سے یوں عرضِ زیارت کرنا
تم نہ موسی کی طرح ایسی جسارت کرنا
کیا کہا؟ مجھ کو امیدیں ہیں کئی، لوگوں سے!
کب کا میں بھول چکا ہوں یہ حماقت کرنا
نہ تو وہ عقل کی اک بات کبھی سنتا ہے
نہ ہے منظور اسے دل کی اطاعت کرنا
جاننا چاہے تو پروانے سے پوچھے کوئی
کتنا دشوار ہے یکطرفہ محبت کرنا
ٹوٹ کر روز بکھرنے سے یوں تنگ آکر بس
چھوڑ دی میں نے تو اب دل کی مرمت کرنا
تم ہو نزدیک میرے دل کے تبھی کرتا ہوں
ورنہ عادت نہیں میری یہ شکایت کرنا
تم سے یہ واسطہ رکھنا ہے تجارت نیّرؔ
ہر کوئی چاہتا ہے پوری ضرورت کرنا
( ضامن نیّر۔ا سکردو، بلتستان)
۔۔۔
غزل
کاٹ دی جائے زباں میری جو کھل کر بولوں
سوچتا ہوں کہ خموشی کی نہ گرہیں کھولوں
اب جو بچھڑوں گا تو شاید نہ ملاقات ہو پھر
رک ذرا دیر کہ میں تجھ سے لپٹ کر رولوں
راستہ ٹھیک نہیں ایک سے دو اچھے ہیں
ہو اجازت تو ترے ساتھ ہی میں بھی ہو لوں
اس لیے بات کسی سے نہیں کھل کر ہوتی
ایک اک لفظ کو گفتار سے پہلے تولوں
تربیت ایسی ہے میری نہ یہ معیار مرا
غیر ممکن ہے کہ میں ہاتھ لہو سے دھو لوں
گھر کے اس سمت ہے کیا، راز سے پردہ اٹھ جائے
جس کو کھولا نہیں اب تک وہ دریچہ کھولوں
آتے جاتے ہوئے موسم نہیں سونے دیتے
نورؔ دروازہ کرو بند کہ میں بھی سو لوں
(سید محمد نورالحسن نور۔ ممبئی،انڈیا)
۔۔۔
غزل
نظامِ زندگی بالکل الگ تشکیل ہوتا ہے
خلا میں روشنی کا ذائقہ تبدیل ہوتا ہے
نظر کے بار سے اجسام ہیئت چھوڑ دیتے ہیں
جہانِ بے طلب میں آئنہ تفصیل ہوتا ہے
بھنور سے پہلے ہی ترتیب سے نکلے ہوئے تھے ہم
خلا میں حادثہ بھی باعثِ تکمیل ہوتا ہے
کوئی خواہش نہ ضد کی اُس بدن کے ساتھ میں نے بھی
مجھے معلوم ہے اک شہر کب تحصیل ہوتا ہے
دھماکہ در دھماکہ عاشقی کے سین چلتے ہیں
نئے موسم میں اپنا گھونسلہ تبدیل ہوتا ہے
(توحید زیب ۔رحیم یار خان)
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی